Feminism Aur Pakistani Aurat
فیمنزم اور پاکستانی عورت
فمینیزم کی تحریک کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے یہ بات سب کو معلوم ہے کہ معاشرہ کیسے مدر سری نظام سے پدر سری نظام میں بدلا اور کیسے عورت کو پابند سلال رکھا گیا اس عہد میں جب مرد جنگوں میں جاتے تھے تو اپنی عورتوں کو ہتھکڑیاں، نتھ، طوق، بیڑیاں، لوہے کے زیر جامے پہناتے تھے مقصد یہ تھا کہ ان کی غیر موجودگی میں عورت کسی سے اختلاط نہ کرے اور نسل خالص اسی کی پیدا ہو کیونکہ انہوں نے بے پناہ دولت ذخیرہ کر رکھی ہوتی تھی ان کا خیال تھا کہ یہ دولت جائز وارث کے سپرد ہو۔
ہزاروں سال کی یہ غلامی اور اس کی علامات آج بھی عورت چوڑیوں، بندوں، پازیب، نتھلی، گلے کے ہار کی صورت میں نبھا رہی ہے۔ ایک پرندے کو اگر ابتدا ہی سے پنجرے میں قید کر دیا جائے تو وہ اڑنا بھول جاتا ہے جب آپ اسے آزاد کریں گے تو وہ اڑے گا نہیں بلکہ گھر میں گھومتا پھرے گا اسی طرح یہ غلامی عورت کے DNA کا حصہ بن گئی ہے۔
DNA صرف موروثی ہی نہیں بلکہ سماجی صورت حال اور سوچ کے دھاروں سے بھی ترتیب پاتا اور منتقل ہوتا ہے۔ اب اگر عورت نے آزادی کی طلب کو محسوس کیا اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے تو اسے اپنے مکمل حقوق کا ادراک نہیں ہے اور جہاں اسے جزوی سطح پر آزادی یا خود مختاری ملتی وہاں اس کا رویہ جاگیردارانہ ہو جاتا ہے اور اس کے ان رویوں کی بنا پر اسے حدف تنقید بنایا جاتا ہے۔
مغربی فیمینزم اور مسلم ممالک خاص طور پر پاکستان و بھارت و بنگلہ دیش کی صورت حال مختلف ہے یہ خطے ہندی مسلم تہذیب پر استوار ہوئے ہیں یہاں ایک سطح پر اسلام میں عورت کا مقام اور ہند دیو مالا میں عورت کی حیثیت کا مرقع بن کر سامنے آیا ہے۔ اسلام میں عورت کی مکمل آزادی کا تصور ناپید ہے جب کہ مغرب میں عورت کی مکمل آزادی کا تصور موجود ہے۔
ہند دیو مالا میں بھی عورت کو اگنی پریکشا سے گزرنا پڑتا ہے اور عورت چٹائی پر سوتی ہے مرد بستر پر وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تک کہ مہاتما بدھ کی تعلیمات میں بھی عورت کے مقام کا تعین نہیں ہے۔ یوں بابل و نینوا سے لے کر آخری سماوی مذہب اسلام تک میں عورت کے وہ حقوق میسر نہیں جو بحیثیت انسان اسے ہونے چاہیئں۔ یہ بات واضع ہے کہ عورت کو پہلے پورا مکمل انسان سمجھا جانا چاہیے۔ گو ہماری تمام کاوشیں صرف "چاہیے" تک محدود ہیں۔
عورت کی آدھی گواہی، تعلیم کے یکساں مواقع، روزگار کے یکساں مواقع، عزت نفس کے مسائل، وراثت میں برابر حصہ، شادی کرنے کی آزادی، طلاق کی آزادی کا حق، روزگار کی جگہ عزت کا تحفظ، بیوہ کو دوسری شادی کا حق، قبائلی علاقوں میں ووٹ کا حق، فصلوں میں کام کرنے کے ساتھ گھر داری کرنے میں بھی مرد کا اشتراک، ورکنگ ویمن کے لیے گھرداری کرنے میں مرد کی مکمل شراکت اور بہت سی حقوق ہیں۔
یہ درست ہے کہ فیمنزم سرمایۂ دار معاشرے کا شوشہ ہے جسے مابعد جدیدیت کے تناظر میں ہوا دی گئی ہے۔ اس نظام میں عورت کو commodity بنا دیا ہے وہ اک شو پیس بن گئی ہے۔ عورت اشتہار کی زینت بن گئی ہے مقابلہ حسن اور بیوٹی پروڈکٹس کی فروخت کے لیے انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ جسم کی فروخت کو انڈسٹری کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے مقابلے میں اشتراکیت کے نظام میں بحیثیت فرد اس کے مقام کو تسلیم کیا جاتا ہے اس کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ جسم فروشی حرام ہے۔ نچلے طبقے کی عورت کو وہی مقام ہے جو مزدور کسان کا ہے ایسی ریاست جو اشتراکیت پر مبنی ہے وہاں مرد عورت برابر کے حصہ دار ہیں۔
اب ایک اور بات کہ میرا جسم میری مرضی جیسے نعرے اس تحریک کو کمزور کرتے ہیں۔ پاکستان معاشرے کے عام الناس اس بات کو فحاشی و عریانی کی ذیل میں لیتے ہیں۔ یہ نعرہ کوئی اتنا صائب بھی نہیں ہر کسی کا اپنا جسم اور اپنی مرضی ہوتی ہے۔ مرضی کے بغیر جنسی اختلاط ممکن ہی نہیں۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ بیوی کی رضا مندی کے بغیر شوہر اس کام کے لیے تیار ہو جاتا ہے لیکن یہ جزوی طور پر ہوتا ہے مڈل کلاس میں عموما ایسا نہیں ہوتا۔ نچلی کلاس کی عورت کو ہوش ہی نہیں ہوتا۔
عورت کے مسائل کو کلاس سسٹم میں دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ تحریکیں زیادہ تر اپر کلاس کی عورتیں چلاتے ہیں ان کے مسائل مڈل کلاس اور نچلی کلاس کی عورتوں جیسے نہیں ہوتے۔ میرا جسم میری مرضی بھی انہی عورتوں کی ڈیمانڈ ہے۔ گھرداری یہ عورتیں نہیں کرتیں۔ مڈل اور لوئر کلاس کی عورت کرتی ہے۔ زبردستی شادی ان کا مسئلہ نہیں۔
اصل مسئلہ مڈل کلاس لوئر کلاس کی عورت کا ہے۔ مڈل کلاس میں عورت نوکری پیشہ ہوتی ہے کچھ نا کچھ خود مختاری اسے میسر ہوتی ہے شوہر بھی پڑھا لکھا ہوتا ہے وہ اس کی معاشی خود مختاری کی وجہ سے اس کے ساتھ تعاون بھی کرتا ہے اس کا بنیادی مسئلہworking place پر harassment کا ہے دوسرا دفتر کے بعد کچن سنبھالنا دوہری مشقت ہے۔
پاکستانی فیمنزم میں عورت horizontal violation پر اتر آتی ہے جو کہ اس تحریک کو کمزور کرتی ہے اور فیمینسٹ مرد بھی سوچنے پر مجبور کو جاتے ہیں۔ مڈل کلاس مرد اب ایک حد تک ان مسائل میں عورت کے ساتھ ہیں یہ خوش آئند بات ہے۔ لیکن نچلے طبقے کا مزدور کسان مرد اپنا باہر کا معاشی و سماجی غصہ عورت پر نکالتاہے۔ جو کہ جاگیردارانہ رویہ ہے۔
ایک بات اور بھی ہے وہ یہ جہاں عورت کو گھر میں اختیارات ملتے ہیں وہ وہاں میسر مرد سے اپنی ہر محرومی کا بدلہ لیتی ہے یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ مڈل کلاس خاندانوں میں ایسا بہت زیادہ ہوتا ہے جس سے مرد اور عورت کے درمیان اختلاف کی نوعیت شدید ہو جاتی ہے مرد اگر صلاح جو ہے تو اس کو عورت دبا لیتی ہے اور اس کی آزادی پر قدعنیں لگاتی ہے۔ جس سے تناسب خراب ہوتا ہے۔
ایک مسئلہ مشترک خاندانی نظام میں خواتین کے درمیان اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا ہے جس میں مرد پس جاتا ہے اور خاندان بکھر جاتا ہے۔ ان موضوعات کو ٹی وی ڈرامہ ترغیب دے رہا ہے اس کے ذریعے نت نئے استحصالی طریقے عورتیں سیکھتی ہیں اور گھر میدان جنگ بن جاتا ہے۔ اس طرف عورت کو ہی دھیان دینا ہوگا۔