Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arshad Ghazali/
  4. Pakistan Mein Sadarti Nizam Ka Fasad

Pakistan Mein Sadarti Nizam Ka Fasad

پاکستان میں صدارتی نظام کا فساد

1901 میں جیک ڈی مورگن کی قیادت میں، فرانسیسی اثار قدیمہ کے ماہرین کی ایک ٹیم نے ایران میں شوش شہر کی کھدائی کے دوران، پتھر کی ایک سل دریافت کی جو اب پیرس کے مشہور زمانہ لوور میوزیم کی نچلی منزل پر ایستادہ ہے۔ آٹھ فٹ لمبی اور تین فٹ موٹی اس سل کے بالائی حصے پر دیوتا مردوک تخت پر رونق افروز ہے، اور اس کے سامنے بابل کا حکمران حمورابی دائیں ہاتھ سے سلام کرتے اور بایاں ہاتھ پیٹ پر رکھے ادب سے کھڑا نظر آتا ہے۔

مردوک دیوتا حمورابی کو قوانین کا مجموعہ عطا کر رہا ہے، جو زیریں حصے پر عکادی زبان میں کنندہ ہیں۔ یہ حمورابی کا ضابطہ قانون ہے جس کی 282 دفعات ہیں، اگرچہ یہ پہلا ضابطہ قانون نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے ار کے بادشاہ ارنمو، ریاست اشنونا اور حمورابی کے پیش رو بادشاہ لپت استر کے بھی ضابطہ قانون دریافت ہو چکے ہیں، مگر حمورابی کا ضابطہ قانون ماضی کے ضابطوں سے کہیں زیادہ مکمل، واضح اور جامع تھا۔

کسی بھی ریاست کے امور کو چلانے کے لئے متعین کردہ قوانین کوآئین یا دستور کہا جاتا ہے۔ حمورابی کے قوانین سے میگنا کارٹا اورآئین پاکستان تک سب کا بنیادی مقصد ایک ایسے نظام کی تشکیل تھی، جس کے ذریعے ریاست کو منظم اور مربوط انداز میں چلایا جا سکے، نیز عوام الناس کی فلاح و بحبود کو مقدم رکھا جا سکے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے ملک میں صدارتی نظام کی بحث زور و شور سے جاری ہے اور جن لوگوں کو صدارتی اور پارلیمانی نظام کی الف بے کا بھی علم نہیں، وہ بھی اس معاملے میں اپنی دانشوری بھگارنے میں پیش پیش ہیں۔

مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی یہ بحث اب گلی کوچوں تک پھیل چکی ہے، اور لوگ واضح طور پر دو حصوں میں بٹے نظر آتے ہیں۔ ایک طبقہ موجودہ پارلیمانی نظام کے حق میں اور دوسرا صدارتی نظام کے حق میں اپنے اپنے دلائل دیتا نظر آتا ہے۔ اگرچہ صدارتی نظام کی یہ بحث نئی نہیں ہے مگر اس بار اس میں کچھ زیادہ ہی شدت نظرآرہی ہے۔ اس سلسلے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی ہاتھ سے لکھی ایک تحریر کا حوالہ بھی شدومد سے دیا جارہا ہے، جو ماضی میں بھی کئی بار مستند اخبارات و جرائد کا حصہ بن چکی ہے، جسے بانی پاکستان نے 10 جولائی 1947 کو تحریر کیا تھا اس کے مندرجات درج ذیل ہیں۔

پارلیمانی طرزِ حکومت کے خطرات

1) پارلیمانی طرزِ حکومت: اس نے اب تک صرف انگلینڈ میں تسلی بخش طریقے سے کام کیا ہے کہیں اور نہیں۔

2) صدارتی طرز حکومت: (پاکستان کے لئے زیادہ موزوں ہوگی)

پاکستان بننے کے بعد انڈین ایکٹ 1935ء میں ترامیم کر کے اسے عبوری آئین کے طور پر تسلیم کر لیا گیا، جس میں اگرچہ وزیراعظم اور کابینہ بااختیار تھے، مگر قائداعظم چونکہ پاکستان کے بانی اور پہلے گورنرجنرل پاکستان تھے لہٰذا کابینہ نے اپنے اختیارات ان کو تفویض کر دئیے۔ پاکستان میں 1956ء، پھر 1962ء میں آئین بنے مگر موجودہ آئین 1973میں نافذ ہوا، جس میں اب تک بہت سی ترامیم کی جاچکی ہیں۔

پاکستان میں ایوب خان، ضیاء الحق یا پرویزمشرف کے ادوار کو بھی صدارتی نظام کہا جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدور نہیں تھے، بلکہ فوجی سربراہان تھے جنھوں نے طاقت کے زور پر خود کو صدر ڈکلئیر کیا تھا۔ اگرچہ ایوب خان کے دور میں سپارکو، سوئی ناردن گیس کمپنی، منگلا اور تربیلا ڈیم بنے۔ پاکستان نے پہلی بار آٹو موبائل، آئل ریفائنری اور سیمنٹ کی انڈسٹری میں قدم رکھا، نیز پاکستان کے اہم ترین بیراج، ہیڈورکس اور نہریں بنائی گئیں۔

جب کہ مشرف دور بھی معاشی ترقی، سرمایہ کاری اور روزگار کے حوالے سے بہتر رہا، مگر یہ تمام فوجی حکمران چونکہ عوامی منتخب نمائندے نہیں تھے ناں ہی ان کی صدارتی مدت معیاد حتمی تھی، ناں وہ ایوان سمیت کسی کے سامنے جواب دہ تھے، اس لئے انھوں نے بہت سے غلط فیصلے اور پالیسیاں عوام پر مسلط کیں، جن کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑا۔ امریت کے ادوار کےمقابلے میں اگر صرف 1988ء سے 1999ء اور پھر 2008ء سے 2022ء تک کے پارلیمانی دور کا جائزہ لیں، تو یہ عمومی طور پر محاذ آرائی، بدانتظامی، معاشی بدحالی، میگا کرپشن سکینڈلز، بیڈ گورننس، لاقانونیت، بے انتہا بیرونی قرضے، غربت، بیروزگاری، نااہلی، اوراقرباء پروری کی صورت ہم پر مسلط رہا۔

جس میں تحریکِ انصاف کی حکومت آنے کے بعد بھی کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ منتخب نمائندے صرف طاقت، جوڑ توڑ اور پیسے کے بل پر منتخب ہوتے ہیں، مگر استعداد، اہلیت اور مہارت سے عاری ہوتے ہیں نیز یہ لوگ ترقیاتی فنڈ سے لے کر وزارتوں تک، ہر جگہ وزیراعظم کو بلیک میل کرتے ہیں اور ان کا مقصد عوام کی بھلائی کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنا ہوتا ہے۔ اس نظام کے حامی بھی وہی لوگ ہیں جو کسی نہ کسی رنگ میں اس نظام کے بینیفشری ہیں، خواہ سیاسی پارٹیاں ہوں، میڈیا ہو، بیوروکریسی ہو یا دیگر ریاستی ادارے۔

اگرچہ صدارتی نظام کے لئے آئینی ترمیم ضروری ہے، جس کے لیئے اکثریت موجودہ حکومت کے پاس موجود نہیں، مگرکسی طور ایسا ممکن ہوجائے تو صدر کا براہ ِراست انتخاب کیا جائےاور اسے کابینہ سازی کا اختیاردیا جائے، نیز وزراء کے لئےوزارت کے تقاضوں کے مطابق اہلیت اور معیار مقرر کیا جائے۔ صدر پارلیمنٹ کوجواب دہ ہو جومتناسب نمائندگی کے اصول پر منتخب کی جائے۔ مقامی اور ضلعی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنایا جائے تاکہ عوامی مسائل بہتر طور پر حل کئے جاسکیں۔

Check Also

Ehsaan Faramoshi Ki Riwayat

By Mohsin Khalid Mohsin