Youm e Azadi Mubarak
یومِ آزادی مبارک
اس وقت پاکستانی قوم اپنا 75 یومِ آزادی بھرپور انداز میں منارہی ہے۔ ہر طرف خوشی کا سماں اور رنگ برنگے جھنڈے اور لباس نمایاں ہیں۔ میں خود سے سوال کرتا ہوں کیا ہمیں یہ 14 اگست منانے کا حق حاصل ہے؟ کیا ہم میں اتنی اخلاقی جرات ہے کہ ہم یہ 14 اگست بھر پور شان و شوکت سے منا سکتے ہیں کہ ایک طرف معاشی صورتحال کنٹرول سے باہر ہے تو دوسری جانب سیلاب جیسی قدرتی آفت نے آن گھیرا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ دنیا میں موجود ہر قوم ہر سال بھرپور انداز میں اپنے آزادی کے دن مناتے ہیں مگر وہ ان دنوں میں خود کے ساتھ ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے نئے عزم و ہمت کا اعلان بھی کرتے ہیں۔
مگر ہمارے ہاں صرف باجے بجا بجا کر پاں پاں ہی کیا جاتا ہے کیونکہ ہم ایسی قوم ہیں جو کہ اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں تا کہ ہمیں کوئی کام نہ کرنا پڑے۔ ہم نے ہر سال اپنے اخراجات سے بڑھ کر کام کرنے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں مزید قرضے کے بوجھ تلے دب جانا ہوتا ہے۔ ہماری قوم میں محنت و مشقت نامی کوہی چیز ہی باقی نہیں۔ اس لیے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب بھی ہمارا وزیر اعظم باہر کسی سرکاری دورے پر روانہ ہوتا ہے تو غیر اسلامی ممالک ایک طرف ہمارے اسلامی ممالک بھی یہی سوچتے ہیں کہ یہ ایک بار پھر کاسے کو نئی اسلامی شکل دیے ہم سے اللہ نبی کے نام پر مانگنے کے لیے آ گئے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پوری قوم اسے ایک مزاحیہ انداز میں بیان کرتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے صرف و صرف ہماری نااہلی چھپی ہوئی ہے۔
گزشتہ چند مہینے پہلے جب پاکستان کی معاشی تباہی و بربادی پر ایک دوست سے بات چیت ہو رہی تھی تو میں نے بیان کیا تھا کہ جناب! اصل مسلہ سیاستدانوں کا نہیں بلکہ قوم کا ہے کیونکہ اب قوم بیٹھ کر کھانے کو تیار ہوگئی ہے کیونکہ محنت و مشقت کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ جس پر باقی میرے دوستوں کی طرح ان صاحب نے بھی یہ اصرار کیا کہ سیاستدان ہی پاکستان کی معاشی تباہی و بربادی کی جڑ ہیں، عوام تو صرف مجبور ہیں۔ لیکن کل ہی اس کا سٹیٹس چیک کیا جس میں انہوں نے بیان کیا ہوا تھا کہ ایمازون نے 13000 پاکستانیوں کے اکاؤنٹس بلاک کر دیے کیونکہ وہ لوگوں کے ساتھ فراڈ کرتے رہے ہیں۔ جس پر روشنی ڈالتے ہوئے موصوف نے میرے مؤقف کی تائید کی کہ اب ہماری قوم صرف و صرف دو نمبری کی عادی ہو چکی ہے۔
آپ ایک اور مثال لے لیجئے تقریباً جولائی 2008 میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو شروع کیا گیا اور اس میں ہزاروں خاندانوں کی اب تک مالی معاونت کی جا رہی ہے، لیکن اگر آپ آج دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ لوگ جن کے بڑے بڑے بزنس ہیں وہ لوگ بھی وہی بے نظیر انکم سپورٹ کا پیسہ لے رہے ہیں اور دوسری جانب اس وقت تک ان کے علاوہ باقی لوگوں کو اپنی حالت درست کرنے کی فکر ہی نہیں ہوئی کیونکہ ان کو گورنمنٹ پیسے جو فراہم کر رہی ہے۔ اسی تناظر میں اگر بنگلہ دیش کو دیکھا جائے جو کہ ہم سے ٹوٹ کر بعد میں آزاد ہوا اور آزادی کے وقت وہ ہم سے کم ترقی یافتہ اور امیر تھے آج وہاں ڈالر کی قیمت 94 ٹکہ کی ہے اور پاکستان میں ڈالر 218 روپے پر ہے۔ اس فرق کی سب سے اہم بڑی وجہ ہمارے لوگوں کا کام کی طرف دھیان نہ دینا ہے اور پورا دن بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے سیاست پر بحث کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں معاشی طور پر ذلالت کے باوجود ہم نے بغیر محنت و مشقت کا عہد کیے یومِ آزادی منانا ہے اور کوئی نیا نغمہ ریلیز کر دینا ہے۔ میرے ہم وطنو! اس وقت یہ مٹی آپ سے نہ ہی شور مچا کر پاکستان زندہ باد کہنے کا کہہ رہی ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر طوفان بد تمیزی کا کہہ رہی ہے بلکہ صرف و صرف چپ چاپ وطن عزیز کے لیے کسی بھی میدان میں محنت و مشقت کی آرزو کر رہی ہے۔ امید ہے کہ اب ہم اس سال اسی ذوق و شوق سے یوم آزادی منائیں گے کہ ہم نے محنت و مشقت کرنی ہے اور چند ہی سالوں میں اپنے ملک کو معاشی طور پر دنیا میں ایک نئی طاقت کے طور پر ابھار کر دیکھانا ہے۔
یوم آزادی مبارک
پاکستان زندہ باد