Jadeed Daur Ki Jadeed Marathon Aur Hum
جدید دور کی جدید میراتھون اور ہم
علم کی مختلف اقسام ہوتی ہیں لیکن اکثر علم کے مو ضوع پر بات کرتے ہوے سب سے پہلے درسگاہوں اور تعلیمی اداروں کا ذکر آتا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے ایک خاص طریقہِ کار پہ چلتے ہیں جس کے تحت طلباء اِن اداروں میں جاتے ہیں، نمبروں کی دوڑ میں حصہ لیتے ہیں اور ڈگری کا لحاف اوڑھ کر نکل آتے ہیں۔ اعدادوشمار کے کچھ لوگ ہوں گے جن کے ڈگری کے اس لحاف کے پیچھے واقعی علم موجود ہوگاورنہ متعدد لوگ تو صرف ڈگری حاصل کرنے کیلئے ہی محنت کرتے ہیں۔ اور انہیں اِس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ انہیں نے جو طریقہ ڈگری حاصل کرنے کیلئے اپنایا ہے و ہ درست ہے بھی یا نہیں۔ درحقیقت ہمارے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا ایک میراتھن میں حصہ لینے جیسا ہے۔ جس میں شرکاء ایک مخصوص وقت پہ ایک مخصوص پوائنٹ سے آغاز کرکے ایک خاص سمت میں دوڑتے ہیں اورانکا مقصد متوسط وقت میں اختتامی لکیر(Finishing line) تک پہنچنا ہوتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ جدید دور کی جدید میراتھن ہے جس میں کچھ کلو میٹر نہیں بلکہ کچھ سالوں کے لیے دوڑنا ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی روح سے اِس میراتھن کے شرکایعنی، طلباء کی اختتامی حد ڈگری حاصل کرنا ہوتی ہے۔ آگے زندگی میں اِس ڈگری سے کوئی کیا کرتا ہے کیا نہیں، اس سے تعلیمی اداروں کا کوئی واسطہ نہیں۔ بہت سے شرکاء متوسط وقت میں دوڑ مکمل کر کے اختتامی لکیر تک پہنچ جاتے ہیں اور کچھ اپنی سست رفتاری کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ شرکاء کی ہمت درمیان میں ہی جواب دے جاتی ہے اور وہ ہار مان کر اپنے اپنے گھر کا رُخ کرتے ہیں۔
در جِ بالا ہائیر ایجوکیشن کے حلقے سے متعلق تھا۔ اگر ہم اس سے نیچے کے حلقوں یعنی اسکولوں کی بات کریں تو اُن میں بھی کچھ خاص فرق نہیں ہے بس اتنا کہ یہ ذرا بنیادی اور سب سے اہم ا سٹیج ہے۔ طلباء جو یہاں سیکھیں گے وہی انکے اگلے اسٹیج کی بنیاد بنے گی۔
درسگاہوں میں یہ بات عام ہے کہ اگر کوئی طالبِ علم پڑھائی میں اور باقی سرگر میوں میں بہترین ہے تو باقی طلباء کا اُس طالبِ علم سے موازنہ کیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ اگر وہ کر سکتا ہے تو تم کیوں نہیں کر سکتے، یا یہ کہہ کر کہ سیکھواُس سے کچھ، وغیرہ وغیرہ۔ یا پھر انہیں اِس بات کی یقین دہانی کروا دی جاتی ہے کہ تم زندگی میں آگے نہیں بڑھ سکتے کیونکہ تم پڑھائی میں اچھے نہیں ہو۔ درسگاہوں کے علاوہ گھروں میں بھی بہن بھا ئی کا آپس میں موازنہ کرنے کی رسم عام ہے۔ ان سب باتوں سے بظاہر لگتا ہے کہ کوئی غلط اثرنہیں ہوتا لیکن اِس سے بچہ ایک تو خود اعتمادی کھو دیتا ہے اور دوسرا نہ چاہتے ہوے بھی خود کا دوسروں سے موازنہ کرنا سیکھ لیتا ہے۔ اس طرح بچے خود کا دوسروں سے موازنہ کرتے کرتے اپنی پہچان کھو دیتے ہیں۔ کیونکہ اِنہوں نے اپنی درسگاہوں اور اپنے بڑوں سے دوسروں جیسا بننا اور دوسروں سے آگے نکلنا ہی سیکھا ہوتا ہے۔ اور پھر یہی طلباء جب اگلی سیڑھی پہ قدم رکھتے ہیں تو خود کو میراتھن کا حصہ پاتے ہیں۔ جو علم کے حصول کے لئے نہیں بلکہ دوسروں سے آگے نکلنے اور ڈگری کا انعام حاصل کرنے کیلئے ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِسی میراتھن کے فاتح جو صرف ڈگری کی ٹرافی لے کر کر نکلے ہوتے ہیں، آگے جا کے وہی اساتذہ بنتے ہیں جو اِسی طرح کے شاگرد پیدا کرتے ہیں۔ دراصل یہ سب کچھ مسلسل ایک گول دائرے (Circle) میں چلتا آ رہا ہے۔ اور اس دائرے کو سیدھا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک مخصوص دائرے میں گھومنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی اداروں کوآلوکے چپس بنانے والے ایسے کارخانے نہیں بن کے رہنا چاہیے جو ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ایسے چپس کے پیکٹ بناتے ہوں جن میں بظاہر تو ڈگری کی ریپنگ ہو لیکن پیکٹ کے اندر ستر سے اَسی فیصدصرف ہواموجود ہو۔ بلکہ تعلیمی ادارے تعلیم وتربیت کے وہ ادارے ہونے چاہیے جہاں طلباء کو ا یسا علم سکھایا جائے جوانہیں اخلاقیات وار اقدار کی سیڑھی چڑھنے میں مدد دے، اُن کی جذباتی تربیت کرے اور عملی زندگی میں اُن کی رہنمائی کرے۔ ہر بچے کے اندر کوئی نہ کوئی قدرتی صلاحیت ضرور موجود ہوتی ہے جو دوسروں سے مختلف ہوتی ہے۔ اُسے بس پہچاننے اور نکھارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بِلاشبہ اس میں درسگاہوں کے ساتھ ساتھ طلباء کی ذاتی رضاورغبت اور والدین کا بھی ا ہم کردار ہونا چاہیے۔ اگر کوئی پڑھائی میں کمزور ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس کا موازنہ دوسروں کے ساتھ کیا جائے یا پھر اسے طعنے دیے جائیں اور یہ مُہر لگا دی جائے کہ وہ زندگی میں کچھ نہیں کر سکتا۔ ہم اکثر سسٹم کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور اسکو بدلنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن کیاہم خود کی اصلاح کرنے اور اپنی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے تیار ہیں؟ بابائے قوم نے فرمایا کہ "علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے اس لیے علم کو اپنے ملک میں بڑھائیں کوئی آپ کو شکست نہیں دے سکتا"۔ لیکن کیا ہم واقعی ایسا علم حاصل کر رہے ہیں جو ہماری طاقت بن سکتا ہے؟