Ulma Ko Apne Halat Khud Behtar Karne Honge
علماء کو اپنے حالات خود بہتر کرنا ہوں گے
یہ بہت کمزور دلیل ہے کہ اگر دینی مدارس کے مدرسین، قراء، مساجد کے آئمہ و خطباء، کاروبار، کوئی کام یا پارٹ ٹائم نوکری کریں گے، تو دینی کاموں میں حرج ہوجائے گا۔ یہ بات ایک ڈھکوسلہ سے کم نہیں۔ میں بہت سارے مدرسین، قراء، خطباء اور آئمہ مساجد کو جانتا ہوں جو پارٹ ٹائم جاب کرتے ہیں، دکان لگایا ہوا ہے، پراپرٹی کا کام کرتے ہیں، کوئی کاروبار کرتے ہیں۔ کمپوزنگ کرتے ہیں، ڈیزائننگ کرتے ہیں، پروف ریڈنگ کرتے ہیں۔
اخبار میں سب ایڈیٹری کرتے ہیں، تصنیف و تالیف کا کام کرتے ہیں، ترجمے کرتے ہیں، آن لائن کام کرتے ہیں، شہد بیچتے ہیں، کتابوں کی جلدیں بناتے ہیں، کتب خانے کھولے ہوئے ہیں۔ مسواک اور ٹوپیاں فروخت کرتے ہیں۔ اس طرح بہت سارے کام کرتے ہیں اور اچھا خاصا کماتے ہیں اور ساتھ ہی درس و تدریس کا کام بھی کرتے ہیں، اور مساجد و مکاتب کو بھی سنھبالا ہوا ہے اور خوشحال ہیں۔ زندگی انجوائی کررہے ہیں، کسی کے رحم وکرم پر نہیں ہیں۔ اپنی فیملی کو بھی اچھے انداز میں رکھا ہوا ہے۔
میں خود، گزشتہ 11 سال(2011) سے مسلسل یہی کررہا ہوں۔ میری کفالت میں 15 کے قریب افراد ہیں، جن کے جملہ اخراجات میرے ذمے ہیں۔ سرکاری نوکری کیساتھ کوئی نہ کوئی اور کام بھی کرتا ہوں، جس سے چار پیسے مل جائیں اور ساتھ ہی درس وتدریس، خطابت اور مطالعہ، قلم کاری اور کئی ایک مدارس کے لیے جزوی خدمات انجام دیتا ہوں۔ یہ سب کام فی سبیل اللہ کرتاہوں، بلکہ سچ کہوں تو اپنا پیسہ خرچ کرکے یہ دینی اور قلمی امور انجام دیتاہوں۔ اور ان سے خوب عزت بھی پا رہا ہوں۔ اور دعوتیں بھی اڑا رہا ہوں۔
جو لوگ مدارس، مساجد، مکاتب اور دینی اداروں سے منسلک ہیں وہ مہتممین، مسجد کمیٹی اور محلہ کمیٹی پر انحصار کرکے، ہمیشہ کڑھتے رہنے سے بہتر ہے کوئی کام کریں۔ اپنے معاشی حالات خود بہتر کریں اور اگر مشکل پیش آرہی ہیں، تو درس وتدریس کا کام جزوقتی کریں۔ 10 ہزار سے چھوٹا سا کاروبار ہی شروع کریں۔ تھوڑا سا فہم ہو تو، ایک روپیہ انویسٹ کیے بغیر لاکھوں کا کاروبار کیا جاسکتا ہے۔ میں خود ایک روپیہ لگائے بغیر، سیزن میں لاکھوں کا ڈرائی فروٹ بیچتاہوں اور بلاشبہ لاکھوں کماتاہوں۔ بس تھوڑی سی ایمانداری اور بہتر سروسز دیتاہوں۔
کسٹمر کو کسی صورت ناراض نہیں کرتا، مکمل توقیر سے ان کا کام کرتا اور ڈیمانڈ پوری کرتاہوں۔ لوگوں کو بھی اسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کے دور میں بیسویں ایسی ہنر، سکلز ہیں جن سے خوب کمایا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے محنت و مشقت کی ضرورت ہوتی ہے، ایمانداری سے کام کرنا ہوتا ہے۔ مزید کچھ سیکھنا ہوتا ہے، کچھ وقت دینا ہوتا ہے، ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھنا ہوتا۔ اپنی مشکلات کا رونا رونے کی بجائے، خود کو اس اہل بنایا جاۓکہ کسی کے سامنے عاجزی کے ہاتھ نہ پھیلائیں، بہر حال دینے والا ہاتھ، لینے والےہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔
علماء کو دینے والا ہاتھ بننا چاہیے، اسی میں ان کی توقیر ہے۔ ورنا آج کا سماج جوکہتا ہے کہ، مولوی لوگ دوسروں کا کھاتے ہیں اور ہر وقت چندہ، خیرات، صدقات و زکواۃ کی فکر میں رہتے ہیں، سچ ثابت ہوگا۔ علماء کو اپنے کردار سے یہ غلط ثابت کرنا ہوگا کہ، کم از کم اپنے گھر کے اخراجات کے لیے کسی سے نہ مانگا جائے، اوربالخصوص نوجوان فضلاء کو اس کیفیت سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ میرا ایک نوجوان دوست ہے، جو مدرسے میں بہترین مدرس ہے، مگر پارٹ ٹائم دیواروں پر خطاطی کرتا ہے، سائن بورڈ بناتا ہے اور خوب کماتا ہے۔
ایک دوست مسجد میں امام و خطیب ہے، اور مدرّس بھی، مگر موبائل رپیرنگ کرکے اچھا خاصا کماتا ہے۔ ایسے دوست بہت سارے ہیں اور ان دوستوں کی بھی کمی نہیں، جو پانچ دس ہزار کے مدرس، خطیب، امام اور قاری ہیں۔ پارٹ ٹائم کچھ کرنے کی بجائے، مہتممین، مسجد کمیٹی، محلہ کمیٹی اور مخیّر حضرات کو کوستے رہتے ہیں، مگر کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جو انتہائی افسوسناک ہے۔ ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب لکھتے ہیں:"حضرت عمرؓ نے ہر شخص کو خود کفیل بننے کا حکم دیا تھا، خاص کر، مذہبی رہنماؤں کو دوسروں پر " بوجھ " بننے سے منع کیا ہے"۔
چنانچہ فرمایا!"یا معشر القراء ارفعوا رؤوسکم فقد وضح الطریق واستبقوا الخیرات ولا تکونوا عیالا علی المسلمین"، ترجمہ!"اے قراء (علماء)کی جماعت!اپنے سروں کو اونچا رکھو، راستہ کھلا ہے (مال کمانے میں) ایک دوسرے سے سبقت لے جاؤ، اور مسلمانوں پر بوجھ نہ بنو۔
تاریخ عمرؓ لإبن جوزی ص 191"۔
یہ رونا بالکل فضول ہے کہ کام نہیں ملتا، مارکیٹ میں اتنا کام ہے، جس کی کوئی حد نہیں۔ آپ کام کریں، عزت سے چار پیسے کمائیں، رج کر کھائیں اور ڈٹ کر دینی خدمات انجام دیں، اگرچہ جز وقتی ہی کیوں نہ ہو۔ تب مہتممین، مسجد و محلہ کمیٹی اور مخیّر حضرات کے سامنے آپ کی توقیر بھی ہوگی اور آپ سچ بات ڈٹ کر کہنے کی جراّت بھی کریں گے، اور کوئی آپ کو آنکھیں بھی نہ دکھا سکے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔