Tassubat Ke Daldal Mein Phansa Gilgit Baltistan
تعصبات کے دلدل میں پھنسا گلگت بلتستان
تعصب زہر قاتل ہے۔ یہ ایک ایسی لعنت ہے جو معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے، انسانوں کے درمیان محبت، اعتماد اور بھائی چارے کو ختم کر دیتی ہے۔ گلگت بلتستان جیسے خوبصورت علاقے میں، جہاں قدرتی حسن اپنی مثال آپ ہے، بدقسمتی سے مذہبی، قبائلی، اور علاقائی تعصبات نے نہ صرف یہاں کے لوگوں کو تقسیم کر رکھا ہے بلکہ معاشرتی ترقی کو بھی روکا ہوا ہے۔ اسی تعصب نے گلگت بلتستان کی انتظامیہ، سیاست، علاقے اور قبائل کو نفرت کی انگیٹھی میں دھکیل رکھا ہے۔ مسجد و منبر کے رکھوالوں سے لے کر پارلیمان و اداروں اور محکموں تک کو نفرت کی آماجگاہیں بناکر رکھ دیا ہے۔ بڑے عہدوں پر براجمان لوگ تو دن رات مذہبی، اور قبائلی تعصب میں غرق ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو سماج کے اہم عہدوں پر فائز ہو کر معاشرتی استحکام کے لیے کام کرنا چاہیے تھا، وہ خود مذہبی اور قبائلی تعصبات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
مذہبی تعصب دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا: "اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو" (آل عمران: 103)۔ اس آیت میں اتحاد اور یکجہتی کی تاکید کی گئی ہے، مگر جب ہم مذہب کو فرقوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، اور پھر ان فرقوں کی اجارہ داری کے لیے دن رات جُتے رہتے ہیں، تو نہ صرف ہم اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ معاشرتی امن کو بھی تباہ کر دیتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں مذہبی تعصب نے مساجد کو بھی نفرت کا گڑھ بنا دیا ہے۔ عبادت کے مقامات جو دلوں کو سکون فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، وہ اب تفرقہ اور نفرت کے مراکز بن چکے ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ مساجد میں مذہبی تعصب سے ایک قدم آگے قبائلی و علاقائی تعصب نے بھی خوب جگہ بنالی ہے۔ تیرے قبیلے کا امام اور میرے قبیلے کا خطیب جیسی چیزیں عام ہیں۔
قبائلی تعصب انسانی تاریخ کا ایک قدیم مسئلہ ہے، مگر اسلام نے اس کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں" (مسند احمد)۔ اس حدیث کے مطابق، تمام انسان برابر ہیں اور کسی قسم کی قبائلی یا نسلی برتری کا تصور اسلام میں نہیں پایا جاتا۔ مگر گلگت بلتستان میں شین، یشکن، ڈوم، کمین، کشیرو، اور کولوچو جیسے قبائلی تعصبات نے لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ یہ تعصبات نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ انتظامی و سیاسی نظام میں بھی رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔ انتظامی اور سیاسی عہدوں پر براجمان لوگ دن رات انہیں خرافات میں لتھڑے ہوئے ہیں۔
گلگت بلتستان میں علاقائی تعصب بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جو معاشرتی تقسیم کا سبب بنتا ہے۔ یہ لوگوں کے درمیان اختلافات اور دشمنی کی فضا پیدا کرتا ہے، جو علاقے کی مجموعی ترقی اور استحکام کے لیے نقصان دہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو" (الحجرات: 13)۔ اس آیت کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ایک دوسرے کی شناخت کریں اور آپس میں تعلقات کو مضبوط کریں، مگر جب علاقائی تعصب کو فروغ دیا جاتا ہے، تو یہ قرآن کے اس مقصد کے خلاف ہوتا ہے۔ تاہم ہمارے ہاں گلگت بلتستان میں بڑی سطح سے لے کر نچلی سطح تک یہ کلچر بنا ہے کہ دوسرے علاقوں اور اضلاع کو بدنام کرنے کا اور سماجی و اخلاقی اور انتظامی طور پر نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے، یہ ایک خطرناک المیہ ہے۔
یہ حتمی بات ہے کہ کسی بھی قسم کا تعصب سماجی تانے بانے کو بکھیر دیتا ہے۔ یہ محبت، بھائی چارے، اور اعتماد کو ختم کر دیتا ہے، اور لوگوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے اور لوگوں کے درمیان دشمنی اور اختلافات بڑھ جاتے ہیں۔ انتظامی اور سیاسی نظام میں تعصب کی مداخلت سماجی انصاف اور ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ تعصب کے باعث لوگ آپس میں مل جل کر کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں، جس سے معاشرتی ترقی رک جاتی ہے اور المیہ تو یہ ہے کہ سماج کی اصلاح کے لیے کوئی منظم کوشش نہیں، اور تو اور مساجد و تربیت گاہوں میں بھی اس کا کوئی کلچر نہیں۔ ہر کسی کو سانپ سونگھا ہوا ہے بلکہ علماء، اساتذہ، قلم کار اور صحافی تک اس دلدل میں پاؤں تک پھنسے ہوئے ہیں۔
تعصب ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اس زہر کا خاتمہ کرنے کے لیے ہمیں دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہوگا اور اتحاد و یگانگت کو فروغ دینا ہوگا۔ مذہبی، قبائلی، اور علاقائی تعصبات کو ختم کیے بغیر ہم ایک مضبوط اور ترقی یافتہ معاشرہ قائم نہیں کر سکتے۔ اس کے بغیر ہم ہمیشہ ایک بکھرے ہوئے اور کمزور معاشرے میں ہی زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے۔