Professor Ataullah Bhi Allah Ko Pyare Hue (2)
پروفیسر عطاء اللہ بھی اللہ کو پیارے ہوئے (2)
وہ حضرات میٹنگ کے بعد دوپہر کا کھانا تناول کر کے نکلنا چاہتے تھے۔ تب روڈ جگہ جگہ بلاک ہوا۔ کچھ ساتھی راستے سے واپس ہوئے۔ تب میں گلگت پہنچ چکا تھا۔ رات کو انہوں نے کال کی۔ کہنے لگے تم واقعی ولی اللہ ہو۔ جلدی کر کے نکل گئے۔ ہم لوگ یہاں پھنس گئے ہیں۔ دو چار دن تک روڈ کے کھلنے کا امکان ہی نہیں۔ اب آپ کی جلدی سمجھ آئی۔
چلاس کالج کے دورانیہ میں، میں ایم فل کر رہا تھا۔ جب بھی اسلام آباد جانا ہوتا، قاری صاحب کو فون کرتا۔ وہ نخرے نہیں کرتے، بلکہ دعائیں دے کر رخصت کرتے تھے۔ میرے پاس ڈیپارٹمنٹ سے این او سی بھی تھی۔ کھبی ان کو بتایا بھی نہیں کہ این او سی ہے، مگر وہ بہانے نہیں بناتے، کئی دفعہ کہا، آپ ورکشاپ اٹینڈ کر کے آ جائیں، ویسے بھی آپ نے شوق سے پڑھانا ہے۔ آپ کے سلیبس کا مسئلہ نہیں ہوگا۔
ایک دفعہ مجھے ایمرجنسی میں لاکھ روپیہ کی ضرورت پڑی۔ کالج کے کئی احباب کے پاس ڈیم کا بڑا روپیہ موجود تھا، جن سے جمع خاطر بھی تھا۔ کچھ نے وعدہ بھی کر رکھا تھا مگر عین وقت پر مکر گئے۔ ان کے قرضہ حسنہ کے وعدہ کی وجہ سے، میں بھی آگے وعدہ کر چکا تھا، مگر اب کہیں سے بندوبست تو کرنا تھا۔ پریشانی کے عالم میں قاری صاحب کے پاس جا کر کہا کہ فوری طور پر لاکھ روپیہ چاہیے۔ انہوں نے کہا ابھی فلاں فلاں سے لاتے ہیں۔ عرض کیا انہوں نے دینے کا وعدہ کر کے نہیں دیا ہے۔ آپ ان سے لائیں گے بھی تو نہیں لینا میں نے۔ کہیں اور سے بندوبست کیجئے۔ پھر انہوں نے لاکھ روپیہ کا فوری بندوبست کیا۔ چار ماہ بعد لوٹایا۔
قاری صاحب کے ساتھ گپ شپ بہت لگتی تھی۔ وہ محفل جمانے والے انسان تھے۔ میری لچر گفتگو اور لطائف سے بہت خوش ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ میرے بیان کردہ کچھ لطائف اپنے بیٹیوں کو بھی سنایا کرتے تھے اور اپنے احباب کو بھی۔ دوسری شادی پر کی جانے والی گفتگو کا بھی مزے لیتے۔ کبھی کبھی کہتے میں بھی کرونگا۔ پھر کہتے۔ میرا چھوٹا بیٹا آپ لوگوں کا دوست ہے۔ ان کو نہ بتاؤ کہ تمہارا باپ شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کہیں اسکا دل نہ ٹوٹے۔ کبھی کہتے، ان سے ذرا اندازہ تو کرو کیا کہتا ہے۔ قاری صاحب اپنے بیٹے حکیم سے بہت پیار کرتے تھے۔ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے۔
2016 کے آخر میں بلاوجہ اور ضرورت، میری چلاس سے استور کالج پوسٹنگ کی گئی۔ میں بھی دلبرداشتہ ہو کر بغیر کسی کو اطلاع کیے گلگت روانہ ہوا۔ رات کو قاری صاحب نے فون کر کے محبت کا اظہار کیا۔ اگلے دن شاید دیامر کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس کی میٹنگ تھی۔ قاری عطاءاللہ سب سے سینئر آفیسر تھے۔ ڈی سی سے کہا۔ میرے کالج کے استاد امیرجان حقانی کو بلاوجہ استور ٹرانسفر کیا گیا ہے۔ کالج ڈسٹرب ہو رہا ہے۔ اگر آپ ان کی ٹرانسفری رکوا سکتے ہیں تو ضرور رکوائیں۔
یہ بات اسی وقت میرے ایک ایگریکلچر کے دوست جو اپنے محکمہ کے ہیڈ تھے دیامر کے، فون کر کے بتایا کہ آج آپ کے پرنسپل نے آپ کی ٹرانسفری کو بہت برا منایا ہے اور ڈی سی کو رکوانے کا کہا ہے۔ کیا مسئلہ ہے؟ میں نے کہا، یہ ان کی محبت ہے۔ ٹرانسفری جاب کا حصہ ہے تاہم ڈیپارٹمنٹ میں کچھ لوگ ویسے ہی مجھے تنگ کرنا چاہتے ہیں، اور میری وجہ سے کچھ دوسرے کولیگز کو بھی متاثر ہونا پڑ رہا ہے۔ میں تو استور جا کر بھی انجوائے کرونگا مگر ان احباب کی شقاوت قلبی یاد بھی رہے گی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کئی دفعہ مجھے نسالو کے گوشت کی دعوت کی۔ سال 2022 میں اتنا مصروف رہا کہ چاہنے کے باوجود بھی قاری صاحب کی زیارت کے لئے حاضر نہ ہو سکا۔ اتنا افسوس ہوا کہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ کئی احباب نے بتایا بھی تھا کہ قاری صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں۔ میری والدہ کی وفات کی خبر انہیں بہت دیر سے ملی۔ مجھے فون کیا اور کہا کہ دعاؤں میں یاد رکھتا ہوں، کیا کروں بیمار ہوں حاضر نہیں ہو سکتا۔ ایسے بے لوث لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔
بروز پیر 26 دسمبر 2022 کو ہمارے پرنسپل پروفیسر محمد عالم صاحب نے فون کر کے پروفیسر عطاءاللہ کی رحلت کی المناک خبر سنا دی۔ عجیب سا لگا۔ واقعی دنیا بے ثبات ہے۔ آنکھوں کے سامنے قاری صاحب کے ساتھ بیتے ایام کی خوشگوار یادوں کی ایک طویل فلم دوڑنے لگی۔ فوری طور پر ان کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ بہت سارے لوگ جنازہ سے قبل ہی ان کے دولت کدہ پر جمع تھے۔
امیر اہل سنت والجماعت قاضی نثار احمد اپنے رفقاء سمیت پہنچے تھے۔ انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی۔ ایک مفصل خطاب بھی کیا۔ قاری مرحوم کے محاسن بھی بیان کیے۔ نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ سیاسی و مذہبی قائدین، سرکاری آفیسران اور علماء کرام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ تمام مکاتب فکر کے لوگ جنازہ میں شریک تھے۔
بہت سارے جاننے والے اہل تشیع احباب کو دیکھا جو قاری صاحب کے جنازہ میں شریک تھے اور ان کے انتقال پُر ملال پر بہت حزیں تھے۔ بہتوں پر قاری صاحب کے احسانات بھی تھے۔ اچھے لوگ احسانات بھولتے نہیں۔ پروفیسر برادری کی بڑی تعداد موجود تھی۔ پروفیسر مولانا سید عبدالجلال انتہائی علالت اور بیماری کے باوجود حاضر ہوئے اور قاری عطاءاللہ کا آخری دیدار کر کے بلک بلک رونے لگے۔ وہ دونوں یارغار تھے۔
قاری صاحب مرحوم کے دو بھائی شیرط اللہ اور حبیب الرحمان اور چھ بہنیں ہیں۔ ایک بھائی ڈی ایس پی شیرت اللہ صاحب بھی اللہ کو پیارے ہوئے ہیں۔ بڑے خوش مزاج انسان تھے۔ ان کی اولاد میں پانچ بیٹے، اسدللہ، نجیب اللہ، مجیداللہ، حکیم اللہ اور رحیم اللہ ہیں اور ایک بیٹی جن کا نام حفصہ ہے۔ قاری صاحب مرحوم کی اہلیہ ابھی حیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ ان کے بچوں پر تا دیر رکھے۔ اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ ان کی اولاد ان کے حق میں اولاد صالح ہو۔ ان کے لیے صدقہ جاریہ کریں اور ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھیں۔ مرنے کے بعد یہی چیزیں انسان کے کام آتی ہیں۔
ہم سب نے وہاں جانا ہے جہاں قاری صاحب مرحوم گئے ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ اور اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔