1.  Home
  2. Blog
  3. Amirjan Haqqani
  4. Professor Ataullah Bhi Allah Ko Pyare Hue (1)

Professor Ataullah Bhi Allah Ko Pyare Hue (1)

پروفیسر عطاء اللہ بھی اللہ کو پیارے ہوئے (1)

پروفیسر عطاءاللہ مرحوم درست معنوں میں ایک مرنجان مرنج انسان تھے۔ دوستوں کے دوست اور یاروں کے یار تھے۔ میرا ان سے احترام، محبت اور خلوص کا رشتہ تھا۔

پروفیسر عطاءاللہ گلگت مناور کی معروف فیملی "ترنگفہ فیملی" کے فرزند ارجمند تھے۔ پانچ اپریل 1957 کو پیدا ہوئے۔ والد کا نام زیداللہ خان تھا۔

ابتدائی تعلیم گلگت اور اس کے مضافات میں مختلف اساتذہ کرام اور علماء دین سے حاصل کی۔ فیڈرل بورڈ سے ایف اے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے گریجوایشن کیا۔ شہادۃ العالمیہ (عالم دین کورس) یعنی درس نظامی کی تکمیل پاکستان کی مشہور دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ لاہور سے شعبان 1404ھ کو مکمل کیا، جہاں انہیں شیخ التفسیر مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا عبدالمالک، مولانا موسی خان روحانی البازی اور بہت سارے کبار اہل علم سے شرف تلماز حاصل ہوا اور استفادہ کا موقع ملا۔

جامعہ اشرفیہ لاہور جنوبی ایشیا کی بڑی دینی درسگاہ ہے۔ پاکستان میں چند دینی جامعات ہیں جن کی اپنی سند سرکاری اداروں میں تسلیم شدہ ہیں۔ باقی دینی اداروں کی بجائے وفاق المدارس کی سند مقبول ہے۔ جامعہ اشرفیہ بھی ان دینی جامعات میں ایک ہے جن کی سند مسلم شدہ ہے۔ قاری عطاء اللہ کے پاس جامعہ اشرافیہ کے اسناد، سرٹیفکیٹس کے ساتھ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی سند الفراغ بھی تھی۔ 1981 میں پنجاب حکومت کے زیر اہتمام علماء اکیڈمی اوقاف دینیہ لاہور سے علوم اسلامیہ میں تخصص، اسپیشلائیزیشن کی اور سند حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے 1989 میں ایم اے عربی کا امتحان پاس کیا۔

مولانا عطاءاللہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن اسلام آباد سے 7 مارچ 1984 کو بطور اسلامیات کے لیکچرار، گلگت بلتستان کالجز کے لیے 17 گریڈ میں منتخب ہوئے۔ اور مسلسل تینتیس سال گلگت بلتستان کی مختلف کالجز میں اسلامیات و عربی کی تدریس کی۔ ان کے ہزاروں تلامذہ ہیں۔ ان کا علمی فیض قیامت تک جاری رہے گا۔ بطور پرنسپل بھی کام کیا یوں پانچ جون 2017 کو بطور پرنسپل ڈگری کالج چلاس سے 20 گریڈ میں ریٹائرڈ ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کی تقریب میں مجھے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا مگر دور ہونے کی وجہ سے حاضر نہ ہو سکا۔

پروفیسر برادری میں پروفیسر عطاءاللہ صاحب "قاری عطاءاللہ" کے نام سے معروف تھے۔ ہم بھی انہیں قاری صاحب ہی کہتے تھے۔ انہوں نے جامعہ اشرفیہ لاہور سے علم دین کے ساتھ تجوید قرآن کی تعلیم بھی حاصل کی تھی اور سند حاصل کی تھی۔

کافی سال پہلے کی بات ہے۔ جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت کی سالانہ تقریب ختم بخاری اور طلبہ کے مابین تقریری مقابلوں کا پروگرام تھا۔ پروگرام کا کوارڈینٹر اور موڈیریٹر راقم ہی تھا۔ میں نے رئیس الجامعہ قاضی نثار احمد سے عرض کیا، اس دفعہ تقریری مقابلوں کے ججز گلگت بلتستان کالجز کے پروفیسرز ہونگے۔ انہوں نے نام مانگے تو پروفیسر مولانا عطاءاللہ اور پروفیسر اشرف ملک کے نام پیش کیے۔

قاضی صاحب نے انتہائی مسرت سے اجازت دی۔ اشتہارات اور دعوت ناموں میں دونوں حضرات کے نام بطور منصفین شائع ہوئے۔ پروفیسر عطاءاللہ کو چیف ججز مقرر کیا گیا۔ دونوں صاحبان کو مطلع کیا تو بہت مسرت کا اظہارِ کیا۔ محفل میں حاضری کو اپنے لئے سعادت کہا اور وقت پر تشریف لائے اور بخوبی منصفی کے فرائض انجام دیے اور جامعہ کے طلبہ کی تقریری صلاحیتوں کا بھرپور اعتراف بھی کیا۔

اپنے مستقبل کے تعلیمی پلان، وژن اور ادارہ و مسجد کے تعمیراتی پروجیکٹس، ان سے شئیر کیا تو بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے اگر ہم مناور میں ایک کنال زمین دیں تو آپ مسجد بنائیں گے۔ ان سے عرض کیا، پہلے مجھے پڑی بنگلہ میں مسجد اور مرکزی ادارہ تو شروع اور مکمل کرنے دیں، اس کے بعد آپ کے پاس خود حاضر ہو جاؤنگا، پھر مناور میں مسجد بنا کر چھوٹا سا تعلیمی کیمپس بناؤنگا، فی الحال مناور نہیں آنا یہ شاید 2016 کی بات ہے۔

شاید ایک دو سال بعد یعنی 2024 تک قاری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا جب پڑی کی مسجد کا کام کچھ ہو جاتا، مگر اس سے پہلے پہلے قاری صاحب داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ دنیا میں کسی کے لیے بقا نہیں۔ اگر دنیاوی زندگی دائمی ہوتی تو رسول اللہ ہمیشہ کے لیے یہاں موجود ہوتے۔ یہ طے شدہ ہے کہ ہر ایک نے اللہ کے پاس جانا ہے۔ دنیا کی زندگی اور نعمتوں نے یہی رہنا ہے۔ انسان کے ساتھ صرف اس کے اعمال جائیں گے۔ قاری صاحب بھی اپنے اعمال کیساتھ اللہ کے حضور، حاضر ہوئے ہیں۔ اللہ آسانی اور کرم کا معاملہ فرمائے۔

2015 میں میری چلاس کالج پوسٹنگ ہوئی تو قاری صاحب کی بطور پرنسپل مناور کالج گلگت ٹرانسفری ہوئی۔ انہوں نے محبت سے رخصت کیا۔ پھر بہت جلد دوبارہ ان کی بھی ڈگری کالج چلاس پوسٹنگ ہوئی۔ اگلے دو سال بہت خوشگوار گزرے۔ قاری عطاءاللہ مرحوم نے ہمیں کھبی یہ احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ ہمارے بوس ہیں، پرنسپل ہونے کا روپ نہیں جھاڑا، بلکہ ہمارے ساتھ کولیگ بلکہ بھائیوں جیسا رویہ رکھا۔ بہت سارے واقعات ہیں۔ سب کو لکھا نہیں جا سکتا۔ کاغذ کے اوراق میں اتنی گنجائش کہاں۔

ایک دفعہ تعلیمی سال کے اختتام پر اکیڈمک اسٹاف نے آخری میٹنگ کر کے چھٹی کرنی تھی۔ تاریخ طے ہوئی کہ فلاں دن احباب کی الوداعی میٹنگ ہوگی۔ اس دن صبح عرض کیا قاری صاحب احباب کی میٹنگ بلا لیں۔ انہوں نے کہا کیا جلدی ہے۔ تھوڑی دیر بعد کر لیں گے۔ گھنٹہ بعد پھر کہا۔ قاری صاحب ہم نے گلگت جانا ہے۔ موسم خراب آلود ہے۔ آسمان سے ہلکا ہلکا ابرکرم برس رہا ہے کہیں یہ ابر رحمت، ابر زحمت نہ بن جائے۔

محبوبہ کے موڈ اور موسم کا کچھ نہیں پتہ چلتا، کب کیسے بگڑے، خراب ہو جائے اور مسائل پیدا کرے۔ احباب کو جمع فرمائیں۔ وہ کہنے لگے، تمہیں آج اتنی جلدی کیوں ہے؟ جانا ہے تو جاؤ بھائی، میٹنگ سے کیا کرنا ہے۔ مجھے اچھا نہیں لگا۔ میں نے کہا آپ ناراض ہو رہے ہیں۔ میں میٹنگ کے بعد بھی نہیں جاؤنگا، مزید ہفتہ یہی رکونگا۔

قاری صاحب نے شاید محسوس کیا کہ ان کا لہجہ ذرا سخت تھا۔ فرمایا، ارے بھائی نہیں۔ میرا مطلب ہے آپ بغیر آخری میٹنگ اٹینڈ کیے جائیں۔ تمہارا "بڑا بھائی" یہاں موجود ہے۔ کچھ نہیں ہوگا۔ جب تک میں ہوں آپ نے کسی قسم کا ٹینشن لینا نہیں۔ پھر ان سے اجازت لے کر گلگت روانہ ہوا۔ وہ کھبی کھبار کہتے حقانی، تمہارا بڑا بھائی ہے نہ۔ یہ سن کر اتنا اچھا لگتا کہ اس کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا۔

Check Also

Khoobsurti Ke Kaarobar Ka Badsurat Chehra

By Asifa Ambreen Qazi