Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Amirjan Haqqani/
  4. Practical Bano Aur Banao (2)

Practical Bano Aur Banao (2)

پریکٹیکل بنو اور بناؤ (2)

کام میں انسانی عظمت ہے۔ اس عظمت کے گرد ہی بہترین اور کامیاب معاشرے کی چکی گھوم رہی ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں یہ سب کام بڑے بڑے مالدار اور عہدہ دار خود کرتے ہیں۔

اللہ رب العزت نے محنت اور کام کرنے والوں کو بہت پسند کیا ہے۔ اللہ نے کامیاب اور فطری زندگی میں محنت اور کام کی عظمت و مرتبت کا اعتراف کیا ہے۔

آدمؑ سے لے کر رسول اللہ تک الہی ایادن کو انسانوں تک پہنچانے والے تمام برگزیدہ انبیاء و رسل نے خود کام کیا ہے۔ کام اور محنت پیغمبروں کی صفت ہے۔ یہ سنت انبیاء ہے۔

رسول اللہ کے فرامین کی روشنی میں حضرت آدمؑ نے کاشت کاری کی، سوت کاتا۔

حضرت نوحؑ نے لکڑی کا کام کیا اور اپنی محنت سے کما کر کھاتے تھے۔ محنت میں ہی عزت و عظمت اور طمانیت ہے۔

حضرت ادریسؑ درزی کا کام کیا کرتے تھے تھے۔

حضرت شیثؑ سوت کاتتے تھے۔

حضرت داؤدؑ بادشاہ ہونے کے باوجود لوہے کی زرہیں اور اوزار بنایا کرتے اور اس کمائی کا رزق کھاتے تھے۔

حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے اپنے ہاتھوں سے بیت اللہ کو تعمیر کیا۔

اپنے پیارے حبیب محمد ﷺ نے محنت کو اپنا شعار بنایا ہوا تھا، کعبۃ اللہ کی تعمیر نو، مسجد کی نبویﷺ کی تعمیر اور مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے خندق کھودتے وقت آپﷺ نے اپنے ہاتھوں سے کام اور محنت کش کا جو عظیم کردار کائنات کے سامنے پیش کیا وہی ہمیں پریکٹیکل انسان بننے اور بنانے کے لیے کافی ہے۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے کسی سفر میں پڑاؤ کے دروان پکائی کے لیے لکڑیاں تک جمع کی۔ کاش کہ رسول اللہ کی ان اداؤں کو ہی ہم اپنے لیے مشعلِ راہ بناتے۔ اے کاش!

حضرت جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ ہم غزوۂ احزاب کے موقع پر خندق کھود رہے تھے کہ ایک سخت چٹان آڑے آگئی۔ رسول اللہ کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا تو آپ ﷺ اس حالت میں کہ تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا اور بھوک کی شدت کے باعث پیٹ پر پتھر باندھ رکھا تھا، تشریف لائے، کدال اٹھائی اور چٹان کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ (بخاری شریف)

اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے۔ حضرت براء بن عاذبؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم، خندق کی کھدائی کے موقع پر اپنے ہاتھوں سے مٹی اٹھا اٹھا کر باہر پھینکتے تھے۔ (بخاری شریف)

آپ صل اللہؑ کے صحابہ کرامؓ بھی اکثر کام کرنے والے تھے۔ بخاری شریف میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور ابوداؤد شریف میں حضرت عکرمہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرامؓ "عمال انفسہم" یعنی اپنے کام کاج خود کرنے والے تھے۔

رسول اللہ ﷺ نے "خود کام کرکے کمانے والے" کی کمائی کو سب سے اچھی کمائی قرار دیا ہے۔

بخاری شریف میں حضرت مقدام بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اس سے اچھی کمائی کوئی نہیں کہ انسان اپنے ہاتھ کی محنت سے کھائے۔

کھبی موقع ملے تو عبدالستار ایدھی کی زندگی پڑھ لیجیے۔ کیسے کام کیا کرتے تھے۔ وہ تو اپنے ہاتھوں سے کئی کئی لاوارث بچیوں کو کھانا کھلاتے اور ان کی صفائی کرتے۔

ہمارے استاد شیخ سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کے متعلق سنا ہے کہ انہوں نے پوری زندگی اپنے پان کا اگالدان کسی کو صاف کرنے نہیں دیا یہاں تک کہ اپنی گھر والی کو بھی۔ کہا کرتے جب میں خود گندگی کرتا ہوں تو خود ہی صاف کرونگا۔ مفتی شفیع عثمانی رح کے بارے کہیں پڑھا تھا کہ واش روم میں دوران تقاضا، واش روم کے ساتھ پانی کا لوٹا تک صاف کیا کرتے تھے۔ یہ ہمارے اکابر تھے جبکہ اصاغر کا ھال بہت پتلا ہے۔

امریکی سابق صدر اوباما آج بھی کام کرتے ہیں اور انتہائی مالدار اور طاقتور صدر ٹرمپ کی لائف کا اسٹڈی کریں۔ وہ آج بھی کام کرتے ہیں۔ انہوں نے دوران صدارت اپنے ہوٹل میں ویٹر کے جملہ کام سرانجام دیے۔ یہاں تک کہ ایک گاہک کے کتے کو بھی واک کروایا۔

میں نے کسی آرٹیکل میں پڑھا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کے وزیر مشیر اور سیکریٹریز کے پاس مختلف اوزار کا بکس یعنی ایک کٹ ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر کے بہت سارے چھوٹے موٹے کام خود کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں معمولی گریڈ کا اے سی، ڈی سی، انجنئیر، ایکسین، سیکریٹری وغیرہ بھی اپنے گھر کا ایک بلب لگوانے کے لیے بھی کسی سرکاری ملازم کو بلواتے ہیں۔ چھوٹا سا گارڈن کی تزئین و آرائش کے لیے بھی سرکاری افسران کے ملازم ہوتے ہیں اور دولت مند لوگ ذاتی ملازم رکھتے ہیں۔

وہ گھر کتنا بدقسمت ہوگا جن میں کھانا نوکر بناتے ہیں اور میاں بیوی مل کر نوکر کا بنایا ہوا کھانا کھاتے ہیں۔ کھانا تو وہی لذیذ ہوتا ہے جو بندہ گھر والوں کیساتھ مل کر خود تیار کرتا ہے یا گھر کی مائیں، بہنیں، بیویاں اور بہو بیٹیاں پکاتی ہیں۔ اب تو ہمارے ہاں اپنا کھانا خود گرم کرو والی روایت چل پڑی ہے۔ یہ افسوسناک رویہ ہے۔

آپ اگر باپ ہیں تو اپنے بیٹوں کو بہترین تعلیم کیساتھ کوئی ایک ہنر ضرور سکھائیں اور گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنا اور بچوں سے کرانا اپنے معمولات اور ترجیحات میں شامل کیجئے۔ آپ جب خود کام کریں گے تو آپ کو دیکھ کر بچہ پریکٹیکل بن جائے گا۔ رسول اللہ نے عمل پہلے کیا تقریر اور وعظ بعد میں کیا۔ ہمیں بھی چاہیئے کہ طلبہ اور بچوں کو لمبی نصیحتیں اور لیکچر جھاڑنے کی بجائے خود کام کرکے دکھائیں۔ بچے خود آپ کو کاپی کرلیں گے۔

آپ اگر ماں ہیں تو بچپن میں ہی بیٹیوں کے ذمے چھوٹے چھوٹے کام لگا لیں اور بچت کرنے کے گُر سیکھا دیں اور بچیوں کو ترجیحی بنیادوں پر بچپن سے ہی سلائی کڑھائی اور کھانا پکانا اور گھر کو مینٹین رکھنا سکھا دیں۔ گھر کی منیجمنٹ اور ارینجمنٹ ایک بہت بڑا فن ہے۔ لاریب ماں سے بہتر ایک بچی کو یہ فن کوئی نہیں سکھا سکتا۔ ہمارے سکول، کالج اور یونیورسٹی کھبی نہیں۔ اگر بچی گھر کی بہترین ارینجمنٹ اور منیجمنٹ سیکھ گئی تو کل کسی بڑے ادارے یا محکمہ کو خوب سنبھال سکے گی۔ ہوم اکنامکس میں ایم اے کرنے والی خواتین سے آن پڑھ سیکھی ہوئی خواتین بریانی بھی اچھی پکاتی ہیں اور روٹیاں بھی۔ اور گھر بھی اچھا ارینج کرتی ہیں، کیونکہ ان کی ماں نے انہیں گھرداری سکھا دیا ہوتا ہے۔

اگر گھر کے سب افراد کام کرنے والے بنیں تو گھر آباد ہوگا۔ اگر معاشرے کے سب کام کرنے والے بنیں تو معاشرہ کامیاب کہلائے گا اور اگر پورا ملک کام کرے گا تو ملک بہت جلد ترقی یافتہ ہوگا۔ ہمیں تیسری دنیا کے ملک کا طعنہ بھی نہیں پڑے گا۔ لہذا خود بھی پریکٹیکل بنو اور اپنے بچوں اور طلبہ اور گھر والوں کو بھی پریکٹیکل بنادو۔

Check Also

Eid Gah

By Mubashir Aziz