Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amirjan Haqqani
  4. Jamshed Khan Dukhi (2)

Jamshed Khan Dukhi (2)

جمشید خان دکھی(2)

ایک دفعہ مجھ سے بڑے دکھی انداز میں کہا، " حقانی! ہم بھی صدیق اور عمرؓپر بار بار شاعری کرنا چاہتے ہیں، کلام سنانا چاہتے ہیں، ہمیں اس کے لیے پلیٹ فارم ہی مہیا نہیں کیا جاتا، اوپر سے کچھ ناہنجار طعنے بھی دیتے ہیں کہ ہم صرف اہلِ بیت پر شاعری اور مشاعرے کرتے ہیں، کوئی موقع تو دے پھر دیکھیں ہماری شاعری خلفائے راشدین پر، کل قیامت کے دن اللہ نے پوچھا تو ہم شعراء آپ مولویوں کو کھڑا کردیں گے کہ یااللہ! انہوں نے ہمیں بلایا ہی نہیں اور نہ ہی ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے"۔ یقین کریں، دکھی صاحب کے اس درد کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔

میں نے اپنے بساط کی کوشش بھی کی۔ مگر بہرحال مجھے ناکامی ہوئی کہ شعراء کرام حضرات خلفائے راشدین اور صحابہ کرام پر کلام لکھیں اور پڑھیں اور محفلیں سجیں۔ جمشید دکھی حقیقی معنوں میں بین المسالک ہم آہنگی کے علمبردار تھے۔ ان سے بڑا مذہبی روادار گلگت بلتستان میں کوئی نہیں تھا۔ اگر کاغذ کے ان صفحات میں گنجائش ہوتی تو ان کی بین المسالک ہم آہنگی، مذہبی رواداری اور سماجی صبر و تحمل پر کی جانے والے شاعری کے سینکڑوں حوالے پیش کروں مگر دکھی مرحوم کی شاعری میں جو وسعت ہے، وہ کاغذ کے ان اوراق میں کہاں؟

وہ جو بات محفل میں، شاعری میں، اور اپنی تقاریر وتحاریر میں قیام امن اور سماجی ہم آہنگی و مذہبی رواداری پر کیا کرتے تھے وہی نجی محفل اور اپنے انتہائی چاہنے والے دوستوں کے پاس بھی کرتے۔ ورنا بہت سارے لوگوں کو دیکھا ہے کہ عوامی تقاریر و مجالس اور تحاریر و شاعری میں تو سماجی ہم آہنگی اور قیام امن کی بات کرتے ہیں لیکن جونہی اپنی نجی محفلوں میں ہوتے ہیں یا اپنے خاص لوگوں، ہم مکتب و مسلک احباب کی محفل میں ہوتے ہیں تو دوسروں پر تبرّا کیے بغیران کی محفل آگے نہیں بڑھتی۔ یہ دل، گردہ اللہ نے دکھی کو ہی دیا تھا جو ظاہر و باطن میں ایک ہی تھے۔

دکھی صاحب کے پاس کبھی کریمی کو لے کر حاضر ہوتا تو کبھی سلیمی کو لے کر پہنچ جاتا اور کبھی کسی نئے آنے والے مہمان کو۔ بہت دفعہ جب پریشان ہوتا تو ان کو فون کرتا۔ وہ کہتے آجاو، یوتھ ہاسٹل میں ہوں دودھ پتی، چائے پلاتا ہوں۔ کبھی ہم دونوں کسی ہوٹل میں بیٹھ کر دیر تک باتیں کرتے۔ بہت سارے لوگ جانتے ہونگے کہ دکھی صاحب صرف نثر نگار یا شاعر نہیں تھے بلکہ صاحبِ دل انسان تھے۔ وظائف اور اذکار کے ان کے خاص معمولات تھے جن پر سخت پابندی کرتے تھے۔ نماز کے انتہائی پابند تھے۔ قرآن کریم کے عاشق تھے۔ ان کی شاعری میں قرآن کے سینکڑوں حوالے ہیں۔

سورہ فاتحہ کااردو اور شینا زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے۔ بہت سارا کلام آیات قرانی کا ترجمہ ہوتا۔ گزشتہ سال " نسالو کڑاہی" کی تصاویر دیکھ کر، وہ چاہتے تھے کہ نسالو کے گوشت کی دعوت ہوجائے۔ اس کا محرک تاج صاحب کی وہ تحریر بھی تھی جو انہوں نے راقم کی تیارکردہ "نسالوکڑاہی" پر لکھی تھی۔ اس سال پکا ارادہ کیا تھا کہ دکھی، تاج اور کچھ دیگر احباب کو "نسالو کڑاہی" کھلائی جائے مگر بدقسمتی سے وہ بیماری کی وجہ سے اسلام آباد میں تھے پھر یوں ہوا کہ میں دکھی اور احباب کی مہمان داری سے محروم بلکہ دکھی صاحب سے ہی محروم ہوا، کیونکہ وہ مرحوم ہوئے۔ ان کو مرحوم لکھتے ہوئے بھی ہاتھ کانپ رہے ہیں۔

دکھی صاحب سے اتنی قربت تھی مگر ان کی بیماری کا اندازہ نہیں تھا۔ ہمیں کیا اندازہ ہوتا؟ انہیں خود بھی اندازہ نہیں تھا۔ ہم اس جیتے جاگتے انسان کو بیمار بھی کیسے سمجھتے؟ جو ایف سی روڈ سے کشروٹ تک، کبھی سرینہ سے ہوتے ہوئے واپس ایف سی روڈ تک کو واک کیا کرتے۔ ان کی بیماری کی اطلاع تو تھی مگر وقفے وقفے سے اسلام آباد میں ان کی محافل کی تصاویر اور کبھی سنائی گئی شاعری کی ویڈیو وائرل ہوتی اور ہم سمجھتے کہ معمول کے امراض ہونگے لیکن ان کے انتقال سے تین دن پہلے جب وہ گلگت میں تھے عیادت کے لیے گیا۔ واللہ دل بیٹھ گیا۔

ان کے بیٹے ان کی خدمت میں لگے ہوئے تھے۔ میں نے بہت چاہا کہ تھوڑی دیر دکھی صاحب کے ہاتھ پیر دباوں، مگر پھر سوچا، معلوم نہیں شہری لوگ ہیں، میری اس حرکت کو کیا سمجھیں گے؟ کیونکہ میں بعض معاملات میں کورا دیہاتی ہوں۔ ہمت نہ کرسکا۔ اگلے دن نماز جمعہ کے بعد دکھی صاحب کے لیے اجتماعی دعا کروائی اور اپنے فیس بک احباب سے بھی دعا کی خصوصی درخواست کی۔ ہماری دعائیں بھی رنگ نہیں لائیں اور دکھی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں تو دلبرداشتہ سا ہوجاتا ہوں۔ اب پیار محبت کی باتیں کس سے کروں، کس کے گھر شہتوت کھانے پہنچ جاوں، کون مجھے چیری کھلائے گا؟ بہت سارے بزرگ اہل علم وقلم آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں لیکن وہ بھی بیماری کی حالت میں ہیں۔ ان کے پاس اپنے دکھ بانٹنے کے لیے جانا بھی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ انہیں بھی ضعیفی نے پکڑ رکھا ہے اور پھر وہ جمشید دکھی بھی تو نہیں۔ سچ یہ ہے کہ جمشید دکھی کا نعم البدل نہیں ہے میرے لیے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ راحتیں نصیب کرے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور میرے انتہائی قابلِ قدر محسن ڈاکٹر قبلہ ایاز نے گزشتہ سال مجھے حکم فرمایا کہ "ہم سوچ رہے ہیں کہ گلگت بلتستان سے نظریاتی کونسل میں نمائندگی ہو، اس کے لیے آپ نے اپنی تحاریر سے توجہ بھی دلائی ہے۔ اب آپ ایسے کچھ اشخاص کی سی وی ارسا ل کیجیے جن کا علمی و انتظامی تجربہ بھی ہو، کسی یونیورسٹی کا چانسلر، پروفیسر، محقق عالم دین، ریٹائرڈ جج یا بیوروکریٹ وغیرہ ہوں لیکن ان کا علمی، سماجی اور بین المسالک ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے لیے بہترین کام ہو، اور علاقے کے تمام لوگ ان کی خدمات کے معترف بھی ہوں "۔

یقین کیجیے، کئی دن ایسی صفات والی شخصیات پر غور و فکر کرتا رہا، بالآخر مجھے جمشید دکھی کے علاوہ کوئی نہیں ملا جس میں یہ جملہ صفات موجود ہوں۔ دکھی صاحب سے یہ ساری تفصیل شیئر کی اور انہیں سی وی تیار کرنے کی گزارش کی، انہوں نے ایک بہترین سی وی تیار کرکے مجھے تھمادی اور میں نے ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب کو ارسال کر دی۔ یقینا ََانہوں نے اپنے مشاورتی فورم میں رکھا ہوگا اور وہ اقدام کرتے ہی ہونگے لیکن دکھی صاحب ربّ کے حضور حاضر ہوئے۔

21فروری 2022ء کو ان کا انتقال ہوا۔ سٹی پارک میں ان کا نماز جنازہ ادا کیا گیا اور ان کےآبائی قبرستان کشروٹ میں تدفین کی گئی۔ شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگوں نے اور جملہ مسالک کے عوام و خواص نے دکھی کا غم منایا۔ ہرایک تعزیت کے لیے ان کے گھر حاضر ہوتا رہا۔ یقینا ََیہ دکھی کا حق بھی تھا کہ ان کی تعزیت اور فاتحہ کے لیے ہر کوئی بلا رنگ و نسل اور مذہب و مسلک حاضر ہو۔ سوشل میڈیا، ویب سائٹس اور اخبارات نے بھی دکھی صاحب کی رحلت پربھر پور خبریں شائع کی۔

ریڈیو پاکستان گلگت نے بھی پہلے ہی دن مختلف اہلِ علم و قلم اور ذمہ دار لوگوں سے دکھی صاحب کی رحلت پر تعزیتی ریکارڈنگ کی اور نشر کیا۔ میں نے بھی ریڈیو پاکستان کے احباب کو اپنی گزارشات ریکارڈ کروائی۔ دکھی کی موت پر ہر انسان دکھی تھا۔ میری دانست میں پروفیسر عثمان کے بعد یہ اعزاز جمشید دکھی کو ملا کہ ہر ایک نے ان کا غم منایا۔ اللہ سے دعا ہے دکھی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ان کی اولاد کےساتھ عبدالخالق تاج و صبر جمیل بھی دے اور نعم البدل بھی عطا کرے۔ آمین

Check Also

Pakistan Ke Door Maar Missile Programme Se Khatra Kis Ko Hai

By Nusrat Javed