Saturday, 21 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amber Zaidi
  4. Kaptan Ki Jeet Hui Ya Haar?

Kaptan Ki Jeet Hui Ya Haar?

کپتان کی جیت ہوئی یا ہار؟

سال نو کی ابتدا ہی سے ملک میں سینیٹ کے انتخابات کی خوب دھوم تھی ٹاک شوز، سوشل میڈیا اور اخبارات سمیت ہر سمت بس یہی بحث تھی کہ کپتان اور ان کی ٹیم حکومت میں رہنے میں کامیاب ہو سکیں گے یا ناکامی کا سامنا ہو گا۔ اگر گزشتہ چند دنوں میں پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ معاملہ صرف انتخابات کا نہیں بلکہ زندگی سنوارنے بگاڑنے، وفا داری، جانبداری، بھروسے اور اعتماد کا تھا۔ برسوں بیت گئے یہ سنتے سنتے کہ عام انتخابات سے زیادہ پیسہ سینیٹ کہ انتخابات میں چلتا ہے، بات ہزاروں یا لاکھوں میں پکی نہیں ہوتی کروڑوں میں ہوتی ہے۔ پارٹی اراکین چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو "ضمیر" کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی ہی جماعت کے خیلاف ووٹ دے دیتے ہیں۔ البتہ بذات خود یہ بھی ایک سوال ہے کہ ضمیر صرف سینیٹ کے انتخاب میں ہی کیوں بیدار ہوتا ہے؟ پورے پانچ سالوں میں عوام الناس کو درپیش مسائل پر اس "ضمیر" کو ہوش کیوں نہیں آتا؟

حکمران جماعت پی ٹی آئی نے خفیہ ووٹنگ کے بجاۓ اوپن بیلٹ کرانے کے لیے بھی درخواست کی لیکن سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ سینیٹ انتخابات آئین اور قانون کے تحت ہوتے ہیں اوپن بیلٹ سے نہیں کروائے جا سکتے۔ بالآخر انتخابات ہوئے، یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوگئے اور بڑا اپ سیٹ ہو گیا۔ پس ثابت یہ ہوا کہ پی ٹی آئی جس میں ہر رکن ایماندار، دیانت دار اور وفا دار ہے اس کے چند ایک ورکرز نے اپنے ضمیر کے مطابق ہی فیصلہ کرتے ہوئے خان صاحب کے خلاف جا کر اپنا ووٹ مد مقابل پارٹی کو دے دیا۔ اکثریت کا خیال یہ بھی ہے کہ حفیظ شیخ ایک غلط انتخاب تھے جس کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کو شکست ہوئی۔

وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرتے ہوئے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا جس کا پی ڈی ایم نے بائیکاٹ کیا۔ وزیر اعظم عمران خان کے اس قدم کو عوامی، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں خوش آئند قرار نہیں دیا گیا، چونکہ خان صاحب کا یہ حق تھا اس لیے انہوں نے اس کا استعمال کیا۔ اس عمل کی ناپسندیدگی کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کے اپنے لوگ ہی آپ کے ساتھ مخلص نہیں ہیں، وہ خود آپ کے خیلاف ہوچکے ہیں یا یوں کہ لیجیۓ نوٹوں کی چمک دمک سے متاثر ہوگۓ ہیں تو زبردستی ایسے افراد کے پاس جا کر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا خان صاحب کو زیب نہیں دیتا کیونکہ پی ٹی آئی کے قیام کا اصل مقصد ہی وطن عزیز میں موجود کرپٹ عناصر اور عوام کا مال سلب کرنے والوں کے خیلاف جنگ ہے، نظام میں امیر اور غریب کے لیے یک سوئی اور عدل و انصاف رائج کرنا جماعت کے منشور میں شامل ہے۔

چنانچہ وزیر اعظم عمران خان اتحادی جماعتوں سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں لیکن غور کیا جائے تو یہ ایک زبردستی کی کاروائی تھی، جس کی جھلک ہم نے خان صاحب کے چہرے پر بھی دیکھی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے خالد محمود صدیقی اور سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے خان صاحب کو مبارک باد دیتے ہوئے ان کی توجہ عوامی مسائل کی جانب نہ صرف مبذول کروائی بلکہ اعتماد اور اعتبار کے ساتھ متحد ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرنے کا اظہار کیا۔ ان دونوں اراکین پارلیمنٹ نے اپنے شہروں کی روداد سنائی، شاید وہ وزیر اعظم سے صرف کلمات تشکر ہی نہیں بلکہ کچھ حوصلے اور اطمینان سے بھر پور دو چار جملے سنا چاہتے تھے لیکن خان صاحب نے بھی اپنے تقریر کے روایتی انداز کو برقرار رکھا، اتحادی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا اور پھر اراکین کابینہ کے ساتھ پارلیمنٹ سے تشریف لے گئے۔

پی ٹی آئی کی ان دو سالہ کارکردگی کا جائزہ لیں تو اس کا لب لباب صرف یہ ہوگا کہ ماضی میں ہونے والی زرداری اور نواز کی حکمرانی نے ملک اور قوم کو تباہ و برباد کردیا، ملکی خزانے کو لوٹا، جائیدادیں بنائیں اور جب سزا کی باری آئی تو بیماری کا بہانہ کیا، جعالی رپورٹس بنوائیں اور راہ فرار اختیار کرلی۔ این آر او مانگ رہے ہیں لیکن ان کو این آر او نہیں ملے گا۔

عمران خان صاحب کی کنٹینر اور پارلیمنٹ کی تقاریر سنیں تو بہت معمولی فرق نظر آتا ہے اگر کچھ تبدیل ہوا ہے تو وہ صرف وقت۔ کل خان صاحب ڈی چوک پر تھے آج اس ایوان بالا میں ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک کا نظام اتنا بگڑ گیا ہے اگر خان صاحب پانچ سال مکمل کر لینے کے بعد اگلے عام انتخابات میں بھی کامیاب ہو کر ایک دفعہ پھر حکومت میں آ جائیں تب بھی اس نظام کو بہتر نہیں کر سکتے۔

حکومت وقت کو اگر کسی سے خطرہ ہے تو وہ مہنگائی اور بےروزگاری ہے۔ پی ڈی ایم کوئی بھی حکمت عملی اختیار کر لے حکومت مکمل محفوظ ہے۔ اہم بات عمران خان صاحب اور ان کی ٹیم کی کارکردگی ہے۔ سینیٹ انتخابات میں کس نے پیسہ لیا، کس نے کس جماعت کو ووٹ دیا، عام انتخابات میں کہاں دھندلی ہوئی، چینی چور کون ہے؟ گندم کس نے غائب کی؟ اس سے عوام کا کوئی سروکار نہیں۔ کون سی حکومت کتنا ریلیف دیتی ہے اور عوامی مسائل کو کس نے کتنا حل کیا؟

دیگر عوامل کے ساتھ اصل اہمیت ان کی ہے جو فیصلہ کرتی ہیں۔

About Amber Zaidi

Amber Zaidi, holds degree of M.A in Islamic Studies and have specialization in Mass Communication and Political Science from the University of Karachi 2019.

Check Also

Kya Adeeb Samaj Ko Tabdeel Kar Sakta Hai?

By Amir Khakwani