Tilla Jogian, Aik Mazhabi Aur Seyahati Muqam
ٹلا جوگیان، ایک مذہبی اور سییاحتی مقام
یہ 20 اور 21 اپریل کی درمیانی رات تھی لیکن اس کے باوجود سردی اتنی شدید تھی کہ ہم سب لکڑیوں کو آگ لگا کر اس کے گرد دائرے میں بیٹھے تھے۔ یخ ٹھنڈی ہوا میں آگ کے بغیر ایک منٹ بھی وہاں باہر کھلے میدان بیٹھنا مشکل تھا۔ چاند کی شاید 12 تاریخ تھی لیکن ہر طرف روشنی ایسی پھیلی تھی جیسے چودھویں کا چاند ہو۔ ہم تقریبا 30 لوگوں میں کوئی شعبہ تعلیم سے وابستہ تھا تو کوئی بزنس مین، کوئی پروفیشنل بائکر تھا تو کوئی گورنمنٹ کے کسی نہ کسی ادارے سے تعلق رکھتا تھا۔
تاہم سب میں بس ایک قدر مشترک تھی اور وہ تھی سیر و سیاحت اور یہی شوق ہم سب کو دینہ شہر سے کوئی 40 کلومیٹر دور 3200 فٹ کی بلندی پر ٹلہ جوگیاں لے آیا۔ رات کے 11 بج رہے تھے، ایک دوسرے سے تعارف کے بعد وہاں موجود کسی دوست نے کہا کہ میرے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے لیکن اس کے باوجود میں پرسکون اور مطمئن نہیں ہوں، یہاں چونکہ کافی سینیئر دوست بھی موجود ہیں تو میں اس معاملے میں ان کی رہنمائی چاہتا ہوں؟
کچھ دوست جو اپنی عمر اور تجربے کے اعتبار سے بڑے تھے ان میں سے کسی نے کہا کہ خدمت خلق سکون کا ذریعہ ہے تو کسی نے کہا کہ ہمیں مطمئن رہنے کے لیے اپنے مائنڈ کو ٹرین کرنا پڑتا ہے کہ کن چیزوں سے ہمیں خوشی مل سکتی ہے۔ کسی نے کہا کہ خوش اخلاقی ایسی عادت ہے جو ہمیں مطمئن اور پرسکون رکھ سکتی ہے تو کسی دوست کا خیال تھا کہ جب تک ہم پریکٹیکلی اسلام کے اصولوں پر کاربند نہیں ہوں گے مطمئن زندگی نہیں گزار سکتے۔ کسی نے خدمت خلق کو پر سکون زندگی گزارنے کا واحد ذریعہ بتایا تو کسی نے دوسروں سے خوش اخلاقی اور رحم دلی سے پیش آنے کی بات کی۔ میں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دل مطمئن اور پرسکون اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی خواہشات کی لمٹس کو لاک نہیں کرتے۔ عجز و انکساری اور محدود خواہشات ہی انسان کو پرسکون بنا سکتی ہیں۔
تلہ جوگیاں کا ٹور دو شخصیات کی وجہ سے ممکن ہو پایا، ایک جناب عبدالغفار گجر جو سینیئر ہیڈ ماسٹر ہیں اور دوسرے خالد عظیم جو سولر پینل کے بزنس سے وابستہ ہیں۔ عبدالعزیز گجر کو میں ان کی سیاحت کی ایکٹیوٹیز کی وجہ سے غائبانہ جانتا تھا لیکن وہ کتنے بڑے انسان ہیں اس کا اندازہ مجھے ان سے ملنے کے بعد ہوا۔ خالد عظیم جو جہلم سے تعلق رکھتا ہے ان سے بھی یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ وہ بندہ بھی حیران کن شخصیت کا مالک ہے، 17 سال کینیڈا میں رہنے کے باوجود ان کا دل ہمیشہ وطن کی محبت سے سرشار رہا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے وہ پاکستان میں سیٹل ہو گئے۔ ہم سب دوست شام چار بجے دینہ سے 40 کلومیٹر دور بھینٹ گاؤں پہنچ گئے۔ گاڑیاں اور موٹر سائیکل وہیں کھڑے کیے اور تقریبا پانچ بجے وہاں کی تاریخی مسجد کے قریب سے ہم سب نےٹلہ جوگیاں کی طرف پیدل سفر کا آغاز کیا۔
ٹلا جوگیاں پر پانی موجود نہیں ہے، وہاں چونکہ ہمارا رات قیام کا ارادہ تھا اس لیے ہم سب دوستوں نے پانی کی بوتلیں، کھانے پینے کی اشیاء اور ضرورت کا کچھ سامان ساتھ رکھ لیا۔ ہائیکنگ اور ایڈونچر کے شوقین افراد کے لیے یہ پیدل سفر ایک زبردست تجربہ تھا کیونکہ ٹلہ جوگیاں کے ٹاپ پر جاتے ہوئے راستے میں کہیں خوبصورت قدرتی نظارے تھے تو کہیں خوبصورت جنگل، کہیں کوئلے کی کان دکھائی دی تو کہیں چھوٹی چھوٹی غاریں نظر آرہی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد آرام کے لیے ہم جدھر بھی رکتے وہاں سے دینہ اور سوہاوہ ویلی کا منظر دیکھنے لائق تھا۔ ہم اس پتھریلے دشوار گزار راستے سے ہوتے ہوئے اڑھائی گھنٹے میں ٹلہ جوگیاں کے ریسٹ ہاؤس پہنچے۔ اس پیدل سفر کے دوران دوستوں سے مختلف موضوعات پر گپ شپ بھی ہوتی رہی۔ عبدالعزیز گجر 60 سال کے ہونے والے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ ہائیکنگ دراصل میرا فٹنس ٹیسٹ ہے۔
میں ڈاکٹروں کے پاس جانے کے بجائے بس ہائیکنگ کر لیتا ہوں جس سے مجھے اندازہ ہو جاتا ہے کہ میں کتنا فٹ ہوں۔ اڑھائی گھنٹے کی پتھریلے راستے پر یہ ہائکنگ واقعی آسان نہیں۔ جب ہم ٹلہ جوگیاں پر پہنچے اس وقت وہاں شدید ٹھنڈ تھی۔ ہم میں سے کچھ دوست کوکنگ کے ایکسپرٹ تھے، انہوں نے رات کا کھانا وہیں تیار کیا۔ سردی اتنی شدید تھی کہ ہم دوستوں نے وہ رات کا کھانا ریسٹ ہاؤس کے اندر کھایا۔ بہترین کھانے نے سب کی تھکاوٹ دور کر دی اور کچھ دیر آرام کے بعد رات گئے ہم سب دوست چاند کی چاندنی میں وہاں کے سرد موسم اور بون فائر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ کچھ دوستوں نے وہاں کیمپنگ کی اور کچھ نے ریسٹ ہاؤس میں ہی قیام کیا۔ اگلی صبح ٹلہ جوگیاں پر سورج کے نکلنے کا منظر بھی دیکھنے کے قابل تھا۔ ٹلہ جوگیاں ایک تاریخی مقام ہے جو صدیوں تک علم کے پیاسوں کا مسکن رہا، یہ مقام ان جوگیوں کی وجہ سے بھی ہمیشہ مشہور رہا جو دنیا سے الگ تھلگ رہنا پسند کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ اس ٹلے پر سب سے پہلے گورکھ ناتھ نے ڈیرہ لگایا اور اس کے بعد بالک ناتھ، مچھند ناتھ اور سد ناتھ بھی مقیم رہے۔ دنیا کے مختلف کونوں سے سنیاسی بھی یہیں آ کر اپنا قیام کرتے۔ 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم کا جب یہاں سے گزر ہوا تو اس وقت کے تاریخ دانوں نے بھی اپنی کتابوں میں اس ٹلے کا ذکر کیا۔ مختلف ادوار میں ہندوؤں کے گروؤں کا بھی یہ ٹیلا مسکن رہا، کئی مغل بادشاہ بھی ٹلہ جوگیاں پر آئے۔ کہا جاتا ہے کہ اکبر بادشاہ جب اس ٹلے پر آیا تو اس نے اس وقت کے گروؤں سے اپنے لمبے اقتدار اور زیادہ فتوحات کی دعا کروائی۔ مغل بادشاہ جہانگیر جب قلعہ روہتاس میں آیا تو اس نے بھی ٹلہ جوگیاں کا بھی وزٹ کیا۔ شہنشاہ جہانگیر یہاں اس وقت کے گرو سے بہت متاثر ہوا، اسے نے بتایا کہ میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں۔
بتائیں میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟ گرو نے کہا کہ ہمیں اگر دنیا کی ہی ضرورت ہوتی تو ہم یہاں اتنا الگ تھلگ کیوں آ کر ڈیرہ لگاتے ہیں۔ بہرحال ٹلہ پر چونکہ پانی نہیں تھا اس لیے اس نے جہانگیر کو کہا! کہ یہاں تالاب بنوا دو، لہذا جہانگیر نے وہاں ایک خوبصورت بنوا دیا۔ اس تالاب میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا اور وہی پانی اس ٹلہ کے مقیم استعمال کرتے ہیں۔ ویسے تو ٹلہ جوگیاں پر چھوٹے بڑے سات تالاب ہیں لیکن ان میں سب سے بڑا جہانگیر نے ہی بنوایا تھا۔ خاور اسلام جہلم سے تعلق رکھتے ہیں، وہ پڑھے لکھے اور انتہائی نفیس انسان ہیں۔ اس سفر میں وہ بھی ہمارے ساتھ تھے، اس سے پہلے بھی وہ ٹلہ جوگیاں پر تین چار مرتبہ آ چکے تھے۔ انہوں نے مجھے اس ٹلے کے نیچے ایک ایسا تالاب بھی دکھایا جو کسی زمانے میں جانورں کے پانی پینے کے لیے بنایا گیا تھا۔ جہانگیر کا بنوایا ہوا تالاب صرف انسانوں کے پانی پینے کے لیے تھا۔
خاور اسلام مجھے ٹلہ جوگیاں کے سب سے بلند مقام پر لے آیا جہاں سے اس سارے علاقے کو ہم 360 کے زاویے سے دیکھ سکتے تھے۔ کسی زمانے میں اس بلند ترین مقام پر ایک ٹیمپل بھی بنایا گیا تھا جس کے اب صرف نشانات باقی ہیں۔ لوگوں نے خزانے کی تلاش میں یہ سارا ٹیمپل بھی توڑ دیا۔ اس نے مجھے وہ جگہ بھی دکھائی جو کبھی ٹلہ جوگیاں کے باسیوں کا سپورٹس کمپلیکس ہوا کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک مخصوص کشتی کا مقابلہ ہوا کرتا تھا جس میں دو پہلوان اپنے سر جوڑ کر ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتے تھے۔ جو اپنے سر کے زور سے دوسرے کو گرا دیتا وہی ونر قرار پاتا تھا۔ اس چھوٹے سے گراؤنڈ میں تماشائیوں کے بیٹھنے کے لیے باقاعدہ سیڑھیاں بھی بنی تھیں۔ خاور نے مجھے مزید کچھ سمادیاں اور ٹیمپل بھی دکھائے جو کبھی مختلف گروؤں کی قیام گاہ رہیں۔ آج بھی وہاں کچھ سمادھیاں خستہ حالت میں موجود ہیں جہاں مختلف گرو مدفون ہیں۔
بابا گرو نانک نے اپنی زندگی میں چار مشہور سفر کیے جنہیں اداسی کہا جاتا ہے۔ 1521ء میں اپنی چوتھی اداسی کے دوران جس میں انہوں نے مکہ، بغداد اور پنجہ صاحب کا سفر کیا تھا، اس دوران ان کا گزر ٹلہ جوگیاں سے بھی ہوا۔ اس وقت گرو کی گدی پر بالک ناتھ بیٹھا تھا، جب اسے معلوم ہوا کہ کوئی فقیر بہت دور کا سفر کرکے یہاں آیا ہے تو اس نے اپنے چیلوں کو ایک ڈولی دے کر بھجوایا کہ اس فقیر کو ڈولی میں بٹھا کر یہاں لے آؤ اور انہیں کہو کہ وہ یہاں مندر میں آ کر رہیں۔ بابا گرو نانک نے ان چیلوں کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ میں کسی کے کندھوں پر سوار ہو کر سفر نہیں کرتا، پیدل سفر کرنا پسند کرتا ہوں اور دوسرا میں مندروں میں بھی نہیں ٹھہرتا۔ جب گرو کو یہ بات پتہ چلی تو وہ خود چل کر آیا اور بابا گرو نانک کو اپنے مندر کے قریب ایک الگ جگہ پر ٹھہرایا۔
ٹلہ جوگیاں پر اپنے قیام کے دوران بابا گرو نانک جہاں اپنا وقت گزارا، وہاں 1830 اور 1834 کے درمیان مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ایک گردوارہ بنوا دیا اور یوں یہ جگہ سکھوں کے لیے بھی مقدس ہوگئی۔ بابا گرو نانک کی اس وقت کے گرو کے ساتھ جو بات چیت ہوئی اس کا ذکر سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب میں ملتا ہے۔ تلہ جوگیاں پر خستہ حال مندر کمپلیکس آج بھی موجود ہے۔ احمد شاہ ابدالی نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو اس نے ہندوستان کے کئی علاقوں کو تباہ و برباد کر دیا، ٹلا جوگیاں بھی ان میں سے ایک ہے۔ جب حملہ ہوا تو ٹلے پر موجود گروہوں نے بھی ہجرت کر لی لیکن جب حالات بہتر ہوئے تو آہستہ آہستہ وہ دوبارہ اس مقام پر آباد ہو گئے کیونکہ ان کے کئی گروؤں کی سمادیاں یہاں موجود تھیں۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد بہت سے گروؤں نے اس جگہ کو خیر آباد کہا اور بھارت کا رخ کر لیا۔
1947ء کے بعد ٹلہ جوگیاں آہستہ آہستہ ویران ہوتا گیا۔ یہ جگہ مختلف اوقات میں مختلف مذاہب کا مقدس اور تاریخی مقام رہا ہے۔ اس کا نام میں نے کافی عرصہ سے سن رکھا تھا لیکن دیکھ نہ پایا۔ فیاض تاجور میرے شہر کے معروف سائیکلسٹ اور لکھاری ہیں، انہوں نے سائیکل پر اپنے ایک دوست امین کے ساتھ پورے پاکستان کا چکر لگا رکھا ہے۔ وہ بھی سیاحت کا بہت شوق رکھتے ہیں لیکن گزشتہ برس بیمار ہونے کے سبب وہ کہیں سفر نہ کر پائے۔ چند روز قبل وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے عبدالعزیز گجر اور خالد عظیم کے ساتھ ٹلہ جوگیاں جانے کے لیے خواہش کا اظہار کیا اور یوں ہم دوستوں کا بھی پروگرام بن گیا۔ اس سفر میں میرے دوست شفیق انصاری، محمد جمشید اور اشفاق احمد بھی ساتھ تھے۔ مصروف ترین شیڈیول میں تفریح کے ان لمحات نے ہمیں تروتازہ کر دیا۔ اس سفر میں جہاں کئی نئے دوست بنے وہیں اپنے علاقے کے قریب ترین اہم تاریخی مقام کو دیکھنے کی خواہش بھی پوری ہوگئی۔