Personal Branding
پرسنل برانڈنگ
انسان خوراک کے بغیر 21 دن اور پانی کے بغیر 11 دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کے لیے زمین پر ہر جگہ پانی رکھا کیونکہ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں لیکن اس کے باوجود آج کل ہم عام پانی پینے کے بجائے منرل واٹر کی بوتلیں استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہمیں کوئی عام ٹوٹی کا پانی پینے کے لیے دے تو ہم پسند نہیں کرتے۔
دنیا میں اس وقت پانی کی انڈسٹری 117 بلین ڈالر کی ہے اور اس پانی کو مختلف کمپنیاں بیچنے کے لیے اس کی مارکیٹنگ پر سب سے زیادہ پیسہ لگا رہی ہیں کیوں؟ کیونکہ انہوں نے برانڈنگ کر کرکے ہمارے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ عام پانی ہماری صحت کے لیے انتہائی مضر ہے جبکہ کہ صرف منرل واٹر ہی پینے کے قابل ہیں۔ حالانکہ پانی تو ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ دراصل یہ برانڈنگ ہی ہوتی ہے جو چیزوں کو قیمتی بنا دیتی ہے۔
بل گیٹس، سٹیو جابز، ایلن ماسک، مارک زگر برگ اور کئی بے شمار لوگ برانڈ بن چکے ہیں، یہ سب لوگ برانڈ کیسے بنے؟ آپ نے کبھی یہ سوچا۔ آپ یاد رکھیں کہ کوئی بھی برانڈ اس وقت تک نہیں بنتا جب تک اس میں یہ چار چیزیں نہ ہوں۔ ہم سب چوہدری صاحب کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے اور وہ بہت دھیمے لہجے گفتگو کر رہے تھے۔
جاوید چوہدری صاحب کو کون نہیں جانتا۔ وہ ملک کے نامور کالم نگار، اینکر پرسن اور ٹرینر ہیں۔ میں پچھلے کئی سالوں سے ان سے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر کالمز، ویڈیوز اور ٹریننگ کی شکل میں کوئی نہ کوئی بات سیکھ رہا ہوں۔ چھ اور سات جولائی کو میں نے مری میں چوہدری صاحب کے گھر سیلف ہیلپ پر ایک سیشن اٹینڈ کیا جو پرسنل برانڈنگ اور بزنس نیٹ ورکنگ سے متعلق تھا۔ لکڑی سے بنے اس خوبصورت گھر میں ہم ایک کمرے میں بیٹھے چوہدری صاحب کی باتیں بہت انہماک سے سن رہے تھے۔ کوئی کرسی پر بیٹھا تھا تو کوئی نیچے سرخ کارپٹ پر، کوئی لکڑی کی بنی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا تو کوئی دیوارسے ٹیک لگا کر اپنی ڈائری پر چوہدری صاحب کی باتیں نوٹ کر رہا تھا۔ یہ کوئی کلاس نہیں تھی بلکہ وہ گپ شپ کے انداز میں ہم سے گفتگو کر رہے تھے۔
چوہدری صاحب نے چائے کا گھونٹ لیا، کپ میز پر رکھا اور گویا ہوئے کہ ہم میں سے ہر شخص کو برانڈ ہونا چاہیے اور برانڈ بننے کے لیے سب سے پہلی چیز ٹرسٹ "بھروسہ" ہوتا ہے اور یہ ٹرسٹ گھر سے شروع ہوتا ہے۔ اگر آپ کے گھر والے ہی آپ پر ٹرسٹ نہیں کرتے تو لوگ کیا خاک کریں گے۔ کم از کم کوئی ایک خوبی انسان میں ایسی ہونی چاہیے کہ لوگ آپ کو اس خوبی کی وجہ سے جانیں، اگر کوئی کسی کی غلط بات کرے لوگ آپ پر اس طرح ٹرسٹ کرتے ہوں کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن فلاں بندہ یہ کام نہیں کر سکتا۔
عبد الستار ایدھی مرحوم پر لوگوں کو ٹرسٹ تھا کہ ہم جو پیسے بھی دیں گے وہ صحیح جگہ پر خرچ ہوں گے۔ قائد اعظم محمد علی جناح پر بھی برصغیر کے مسلمانوں کو ٹرسٹ تھا کہ یہ الگ وطن لے کر رہیں گے، گاندھی بھی بڑا لیڈر اپنے ٹرسٹ کی وجہ سے تھا۔ سیاہ فارم لوگوں کو نیلسن منڈیلا پر یہ ٹرسٹ تھا کہ وہ کالوں کے حقوق لے کر رہیں گے۔ یہ ٹرسٹ ہی ہوتا ہے جو انسان کو برانڈ بناتا ہے۔ مسلمان تاجر جب مکہ اور مدینہ سے قافلے لے کر دور دراز کی منڈیوں میں جاتے تھے تو تمام مذاہب کے لوگ وہ سامان تجارت اسی وقت خرید لیتے تھے کیونکہ انہیں ٹرسٹ ہوتا تھا مسلمان تاجر کوئی نقص والی چیز نہیں بیچتے اور نہ ہی کم تولتے ہیں۔ لہذا پھر آپ کو سوچنا ہوگا کہ آپ میں کون سی ایسی خوبی ہے جس کی وجہ سے لوگ آپ پر ٹرسٹ کر سکتے ہیں۔
پرسنل برانڈنگ میں دوسری چیز فلاحی کام ہیں۔ آپ اس وقت تک برانڈ نہیں بنتے جب تک آپ کوئی نہ کوئی فلاحی کام نہیں کرتے۔ بل گیٹس سے لے کر عبدالستار ایدھی تک، ایلن مسک سے لے کر ملک ریاض تک غرض کوئی بھی بزنس مین آپ کو فلاحی کام کرتا ملے گا۔ بل گیٹس دنیا کا امیر ترین آدمی رہا لیکن اس کی اصل برانڈنگ دنیا میں پولیو ختم کرنے کے فلاحی کام کی وجہ سے ہوئی، عبدالستار ایدھی مرحوم پوری دنیا میں اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے برانڈ بن گئے۔
اعجاز گوہر پاکستان کے نامور بزنس مین ہیں، ان کا حوالہ دیتے ہوئے چوہدری صاحب نے بتایا کہ جب اعجاز گوہر کو ایک بزنس میں بہت فائدہ ہوا تو انہوں نے اپنے بچوں کو گفٹ کرنے کے لیے لندن میں ایک اپارٹمنٹ خریدا۔ وہ ڈیل کرنے کے بعد واپس آ رہے تھے تو انہوں نے کہیں قران پاک کی ایک آیت پڑھی جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کے بھوکوں کو احسن انداز میں کھانا کھلاؤ۔ یہ پڑھتے ہی انہوں نے لاہور کے ایک ہسپتال کے مریضوں اور ان کے لواحقین کے لیے کھانا تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ انہیں اس کام میں اتنا روحانی سکون ملا کہ وہ اس نیکی کے کام کا دائرہ وسیع کرتے چلے گئے اور اس کے لیے انہوں نے لندن کا وہ اپارٹمنٹ بھی بیچ دیا جو بچوں کے لیے خریدا تھا۔
آج وہ لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں روزانہ 30 ہزار مریضوں کو باعزت اور اچھے انداز سے کھانا تقسیم کر رہے ہیں۔ گوہر صاحب نے بتایا کہ میں نے جب سے یہ فلاحی کام شروع کیا، اللہ تعالی نے میری عزت، دولت، شہرت اور پاور میں کئی گناہ اضافہ کر دیا۔ جب میں چوہدری صاحب کی یہ بات سن رہا تھا تو مجھے اپنا کلاس فیلو قمر خان یاد آ گیا، وہ قمر ٹی کمپنی جوکہ پاکستان کا ایک مشہور برانڈ ہے اس کا مالک ہے۔ قمر خان اکثر یہ کہتا ہے کہ میں سائیکل پر چائے بیچا کرتا تھا، ملک وال کے قریب ایک گاؤں کٹھیالا ہے، جب میں وہاں سائیکل سے گزرتا تو پانی پینے کے لیے کوئی ہینڈ پمپ (نلکا) تک نہیں ہوتا تھا۔ اس زمانے میں میرے پاس بہت کم پیسے ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود میں نے وہاں کٹھیالہ چوک میں ایک ہینڈ پمپ لگوا دیا تاکہ آتے جاتے لوگ وہاں سے پانی پی سکیں۔ اس نے بتایا کہ جس دن سے لوگوں نے اس نلکے سے پانی پینا شروع کیا تھا اسی دن سے اللہ تعالی نے میرے کاروبار میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر دی۔ اب وہی قمر خان ایک بہت بڑی ٹی کمپنی کا مالک ہے۔ لہذا ہم سب کو اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کچھ نہ کچھ فلاحی کام ضرور کرنے چاہیں۔
چودھری صاحب کہنے لگے کہ سب سے پہلا حق ان ورکرز کا ہوتا ہے جو ہمارے پاس کام کر رہے ہوتے ہیں اور نہیں تو ان کے لیے ہی ٹھنڈے پانی یا کھانے کا بندوبست کر ہی کر دینا چاہیے۔ آپ ایک بار ایسا کرکے دیکھیں، نتیجہ دیکھ کر آپ حیران ہی رہ جائیں گے۔ ان کی یہ بات بالکل درست تھی، میں نے ہر اس شخص کو ترقی کرتے دیکھا جو فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ چودھری صاحب جہاں بیٹھے تھے ان کے دائیں جانب شیشے کی کھڑکی کھلی تھی جس سے ٹھنڈی ہوا کمرے میں آ رہی تھی، سامنے اونچے اونچے چیل کے درخت نظر آرہے تھے جن پر بارش کے بعد بیٹھے دو کوے کائیں کائیں کر رہے تھے، ان درختوں کے پیچھے دور پہاڑوں پر بادل یوں دکھائی دے رہے تھے جیسے زمین سے اوپر آسمان کی طرف اٹھ رہے ہوں، وہ منظر بہت خوبصورت تھا۔
پرسنل برانڈنگ پر بات کرتے ہوئے چوہدری صاحب نے بتایا کہ تیسری چیز "مین آف ٹیسٹ" ہوتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے اوپر پیسہ خرچ کریں۔ آپ اگر لوگوں میں نمایاں دکھائی دینا چاہتے ہیں تو آپ کو اچھے کپڑے، اچھے جوتے، اچھا گھر اچھی سواری اور آپ کا اچھا آفس ہونا چاہیے۔ جو شخص اپنے کمرے اپنے گھر یا اپنے آفس کو صاف ستھرا اور اچھا نہیں رکھ سکتا، اس کا مطلب ہے کہ اسے اپنے آپ سے محبت نہیں اور ایسا شخص کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
چوہدری صاحب نے پرسنل برانڈنگ کے لیے جو چوتھی اور آخری چیز بتائی وہ اپنے دماغ پر کام کرنا ہے۔ ہم اکثر اپنی شہ رگ سے نیچے پیسہ لگاتے ہیں اور اس سے اوپر یعنی اپنے دماغ پر خرچ نہیں کرتے۔ حالانکہ ہمیں اپنی آمدنی کا 50 فیصد حصہ اپنے دماغ پر لگانا چاہیے۔ دماغ پر پیسہ لگانے کا مطلب ہے کہ ہمیں مختلف موضوعات پر لیکچرز اور ٹریننگ لینی چاہیں۔ آپ جس شعبے میں کام کر رہے ہیں اس سے متعلقہ لوگوں سے ملیں، اپنی صحت پر پیسہ خرچ کریں۔ صحت مند جسم میں ہی صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ اگر آپ ڈپریشن، اینگزائٹی اور ٹینشن میں مبتلا ہیں تو ایکسرسائز کریں، اچھی کتابیں پڑھیں، سفر کریں۔ یہ تمام پیسہ جو آپ علم بڑھانے پر لگائیں گے دراصل یہ ایک انویسٹمنٹ ہے جو آپ کو لازمی پے بیک کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے صحت سے متعلق ایک ٹریننگ 15 ہزار ڈالر میں لی تھی جس میں میں نے صرف اتنا سیکھا تھا کہ ڈرنک یور فوڈ اینڈ ایٹ یور واٹر (Drink you food & Eat your water) یعنی اگر آپ کو صحت مند رہنا ہے تو کھانا اتنا چبا چبا کر کھائیں کہ وہ بالکل لیکوڈ بن جائے اور پانی اتنا آرام آرام سے پییں جیسے آپ کھا رہے ہوں۔ یہ مری سیشن کا دوسرا دن تھا، پہلے دن ہم نے "بزنس نیٹ ورکنگ" کے بارے میں کیا سیکھا میں یہ اگلے کالم میں تحریر کراؤں گا۔