Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Old City Baku

Old City Baku

اولڈ سٹی باکو

حسنین اور میں نے سٹار بکس سے کافی لی اور نظامی سٹریٹ کے ایک بینچ پر بیٹھ کر پینے لگے، وہ بولا! نو مئی کے ہنگامے میں سوات کا جو ٹول پلازہ جلا دیا گیا تھا اس کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کا ٹھیکہ میرے والد کو ملا اور ہم نے صرف دس دنوں میں وہ مکمل تیار کر دیا، موٹر ویز پر جتنے بھی ٹول پلازہ ہیں ان کی مرمت کا کام بھی ہم ہی کرتے ہیں۔ پاکستان میں اب ہم یو پی وی سی (UPVC) روف شیٹ سے گھر بنا رہے ہیں، یہ گھر کم لاگت میں بہت پائدار ہوتا ہے اسی لیے یہ گھر تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔

میرا آذربائجان آنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ میں یہاں ان روف شیٹ گھروں سے متعلق کچھ نئے آئیڈیاز لوں اور اپنے والد کی کمپنی کو مزید آگے بڑھاؤں، میرا خواب ہے کہ میں اپنے والد کی کمپنی کو ملٹی نیشنل کمپنی بناؤں۔ میں نے کافی کا گھونٹ لیا اور حسنین سے مخاطب ہوا۔ اس سے پہلے تم نے کسی ملک کا سفر کیا ہے؟ وہ گویا ہوا! میں پچھلے سال 15 دنوں کے لیے ترکی گیا تھا اور وہاں بھی میں نے بہت کچھ سیکھا۔ تم پاکستان میں اپنے والد کے ساتھ کاروبار کرتے ہو یا پڑھتے ہو؟

میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ دونوں کام۔ میں کام کے ساتھ بی ایس (BS) کر رہا ہوں لیکن میرا پڑھائی میں زیادہ دل نہیں لگتا، میں صرف والد کی خواہش پر پڑھائی کر رہا ہوں، میری دلچسپی کاروبار میں ہے اسی لیے میں یہاں بھی اپنے کام سے متعلق چیزوں کو دیکھ رہا ہوں۔ حسنین کی عمر صرف 22 سال تھی، میں اس کی باتیں سن سن کر حیران ہو رہا تھا کہ 22 سال کی عمر میں اس لڑکے کا وژن کتنا کلیئر ہے اور اپنے کاروبار کو کہاں تک پہنچانا چاہتا ہے جبکہ میرے گرد و نواح میں تو بیشتر نوجوان 25,26 سال کی عمر تک پہنچنے کے باوجود گھروں میں فارغ بیٹھے ہوتے ہیں۔

ان کے والد یا بڑے بھائی بیرونی ملک میں کام کرتے ہیں اور وہ سارا سارا دن گھروں میں موبائل پر گیمز کھیلتے رہتے ہیں جبکہ لاہور کا یہ 22 سالہ نوجوان اس کم عمری میں ہی اپنی کمپنی کو ملٹی نیشنل کمپنی بنانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ شام ہونے کے ساتھ نظامی اسٹریٹ میں لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا، ہر طرف گہما گہمی تھی۔ دنیا میں کچھ جگہیں کسی بھی شہر کی پہچان بن جاتی ہیں جیسے کہ مری کا مال روڈ، لاہور کی فوڈ اسٹریٹ، استنبول کا گرینڈ بازار اور تقسیم اسکوائر، باکو کی نظامی اسٹریٹ بھی ایسی ہی مشہور جگہ ہے جو شام کے وقت سیاحوں سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہے۔

یہ نظام اسٹریٹ بارہویں صدی کے مشہور مسلمان ایرانی شاعر نظامی گنجوی کے نام سے منسوب ہے۔ نظامی کا اصل نام جمال الدین ابو محمد الیاس جبکہ قلمی نام نظامی تھا، نظامی سلجوقی دور حکومت میں گنجا شہر میں پیدا ہوا اور اسی مناسبت سے اس کو گنجوی بھی کہا جاتا ہے۔ نظامی نے فارسی ادب میں بے مثال شاعری کی اور اس نے اپنی شاعری سے موجودہ آذربائجان، افغانستان، ترکستان اور ایران کے باشندوں کو بہت متاثر کیا۔

نظامی نے اپنی ساری زندگی گنجا شہر میں گزار دی اور اپنے علاقے کی محبت میں اس نے بے شمار نظمیں بھی لکھیں۔ نظامی کی 1209ء میں وفات ہوئی اور گنجا شہر جو موجودہ آذربائجان میں ہی واقع ہے، دفن کیا گیا، اسی وجہ سے آذربائجان کے لوگ نظامی کو اپنا قومی شاعر مانتے ہیں۔ نظامی اسٹریٹ کے قریب ہی لائبریری کے بالکل سامنے نظامی اسکوائر ہے جہاں نظامی کا بہت بڑا مجسمہ نسب ہے۔ ترکی، ازبکستان اور آذربائجان مسلم اکثریت والے ممالک ہیں لیکن اس کے باوجود ان ممالک میں یورپین طرز پر، ان لوگوں کے بے شمار مجسمے بنائے گئے ہیں، جنہوں نے اس قوم کے لیے کسی نہ کسی حوالے سےاہم کردار ادا کیا۔

بورسا میں عثمان غازی اور تاشقند کے آزادی چوک میں میں نے امیر تیمور کا گھوڑے پر بیٹھا ہوا بہت بڑا مجسمہ دیکھا تھا۔ اسی طرح سمرقند میں امیر تیمور کے مزار کے قریب بھی بہت بڑا مجسمہ نصب ہے۔ تاشقند کے ایک پارک میں میں نے اسلام کریموف کا مجسمہ بھی دیکھا جسے ازبک لوگ اپنی قوم کا حقیقی ہیرو مانتی ہے، اسی طرح آذربائجان میں بھی جگہ جگہ حیدر علیفوف کے بڑے بڑے مجسمے نظر آتے ہیں۔

نظامی اسٹریٹ گھومنے کے بعد جب ہم نظامی اسکوائر پہنچے اور سامنے بہت اونچائی پر نظامی کا بہت بڑا مجسمہ دیکھا تو میری آنکھوں کے سامنے الحمراء آرٹ کونسل میں نسب علامہ محمد اقبال اور قائداعظم کے مجسمے آ گئے۔ اسی لمحے میرے ذہن میں خیال آیا کہ اگر ہم نے وہ اکلوتے دو مجسمے وہاں لگانے ہی تھے تو کم از کم اتنے بڑے تو لگا دیتے کہ انہیں دیکھ کر دل خوش ہو جاتا مگر ہم نے وہاں بھی پتہ نہیں کیوں کنجوسی کر دی، حالانکہ اپنے قومی ہیروز کے مجسمے دنیا ایسے بناتی ہے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ نظامی کے مجسمے کے سامنے لائبریری کی بہت بڑی عمارت ہے اور اس عمارت کے اوپر بھی آٹھ، دس ادیبوں اور شاعروں کے مجسمے نسب ہیں۔

آذربائجان کے لوگ علم سے کس قدر محبت کرتے ہیں اس کا اندازہ ان مجسموں کو دیکھ کر ہو رہا تھا۔ 16 جولائی کو آذربائجان میں ہمارا دوسرا دن تھا، صبح ناشتہ کرنے کے بعد ہم ہوٹل سے نکلے اور علی حیدر سینٹر آگئے، سفید ماربل سے بنی یہ عمارت اپنی طرز تعمیر کی وجہ سے بہت منفرد ہے۔ آذربائجانی گائیڈ میواری نے بتایا کہ یہ عمارت دراصل ایک میوزیم بھی ہے جو علی حیدر علیفوف، جنہیں آذربائجان کی قوم اپنا حقیقی بانی سمجھتی ہے، کے دستخط کے ڈیزائن پر بنائی گئی ہے۔ وجہ جو بھی ہو لیکن حیدر سینٹر واقعی جدید طرز تعمیر کی شاندار مثال ہے۔ ہم نے کچھ دیر اس میوزیم کا وزٹ کیا اور وہاں سے ہم بی بی ہیبت مسجد آگئے۔

باکو شہر سے باہر بحرہ قزوین کے کنارے ایک تاریخی مسجد ہے، اس مسجد کے بالکل ساتھ ایک مزار شریف ہے جو امام موسیٰ کاظم کی بیٹی ہیں، مزار شریف میں اسی فیملی کی تین مزید قبریں بھی ہیں۔ ظہر کی نماز میں نے اسی مسجد میں ادا کی، اس مسجد کے مرکزی دروازے کے بالکل سامنے بہرہ قزوین ہے اور پچھلی جانب سڑک کے پار پہاڑی پر ایک پرانا قبرستان ہے۔ مزار پر حاضری کے بعد ہم نے لنچ قریب ہی موجود کے ایف سی سے کیا۔

دنیا بھر میں کے ایف سی کی 147 ممالک میں اس وقت تقریباََ 25 ہزار برانچز ہیں۔ ہر ملک اپنی انفرادیت قائم رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی منفرد کام کرتا ہے، آذربائجان کا دارالحکومت باکو اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہاں کے ایف سی کی سب سے بڑی برانچ ہے جو 17 ہزار مربع فٹ ایریا پر مشتمل ہے۔ ہر ملک کی اپنی پالیسی ہوتی ہے، بہت سے ممالک میں یہ میکڈونلڈ اور کے ایف سی کی طرح ملٹی نیشنل فوڈ چینز ہیں لیکن کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو صرف اپنے کھانوں کو پروموٹ کرتے ہیں، وہاں کسی دوسرے ملک کی کوئی فوڈ چین نہیں۔

گزشتہ برس میں نے ترکی کا وزٹ کیا تھا وہاں کسی شہر میں بھی میں نے کے ایف سی اور میکڈونلڈ کی کوئی برانچ نہیں دیکھی۔ تین بجے کے قریب ہم باکو کا اولڈ سٹی دیکھنے کے لیے آ گئے، یہ اولڈسٹی قلعہ میں ہے جس کے پانچ بڑے دروازے ہیں۔ جولائی کا مہینہ تھا لیکن اس کے باوجود وہاں کا موسم انتہائی خوشگوار تھا۔ اس اولڈ سٹی میں میں نے جتنی بھی دکانیں اور گھر دیکھے انہیں بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا، ان گھروں اور دکانوں پر کہیں انگور کی بیلیں لٹک رہی تھیں اور کہیں انار۔

جگہ جگہ ریسٹورنٹ کھلے تھے جہاں دنیا بھر سے آئے سیاح مختلف کھانوں اور آذربائجانی موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ایک ہی طرز پر بنے ہوئے یہ گھر بہت خوبصورت دکھائی دے رہے تھے، اولڈ سٹی کی ان گلیوں میں گھومتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم ترکی پرنسز آئی لینڈ میں گھوم رہے ہوں۔ میواری ہمیں اولڈ سٹی میں ہی ایک بک میوزیم میں لے آئی جہاں 6 ہزار سے زائد کتب موجود تھیں۔

اس میوزیم کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں ہر کتاب پاکٹ سائز یا اس سے بھی چھوٹی تھی، اس میوزیم میں دنیا کی سب سے چھوٹی کتاب بھی موجود تھی جسے مائیکروسکوپ کی مدد سے ہی پڑھا جا سکتا تھا۔ میں نے بچوں کے لیے وہاں سے چند چھوٹی سائز کی کتابیں لیں، میوزیم کے مرکزی دروازے کے باہر بھی نظامی کا بہت بڑا مجسمہ نصب تھا، اس مجسمے کی خاص بات یہ تھی کہ اس پر بے شمار ادیبوں اور شاعروں کے چھوٹے چھوٹے مجسمے بنے تھے لیکن کمال یہ تھا کہ دور سے دیکھنے سے وہ صرف ایک ہی نظامی کا مجسمہ نظر آتا تھا۔

اولڈ سٹی کے مرکزی دروازے کے بالکل ساتھ ہی سپریم کورٹ آف آذربائجان کی عمارت تھی جہاں چند محافظ حفاظت کے لیے کھڑے تھے، آذربائجان میں پولیس کی وردیوں پر محافظ(Muhafez) لکھا تھا۔ ہمارے ایک دوست نے وہاں کھڑی ایک سرکاری گاڑی کی فوٹو بنائی تو وہاں موجود محافظ نے اس کا موبائل لے لیا اور جب تک اس نے وہ تصاویر ڈیلیٹ نہیں کی اسے موبائل واپس نہیں کیا۔

شام پانچ بجے ہم نظامی سٹریٹ آگئے جہاں دیر تک میری حسنین اور قندیل سے گپ شپ ہوتی رہی اور ہم شام آٹھ بجے تک وہاں گھومتے رہے۔ آذربائجان کے لوگ بظاہر تو لبرل دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ لوگوں سے زیادہ گھلنا ملنا پسند نہیں کرتے۔ پاکستانیوں کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہر پاکستانی کو کاردش (بھائی) کہہ کر پکارتے ہیں۔ نظامی اسٹریٹ میں سفید اور کالے رنگ کا پتھر بہت منفرد اسٹائل سے لگایا گیا ہے جو نظامی اسٹریٹ کی مخصوص پہچان ہے۔

Check Also

Aankh Jo Kuch Dekhti Hai (2)

By Prof. Riffat Mazhar