Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Networking

Networking

نیٹ ورکنگ

مچھلیاں پکڑنے کا جال صرف دو دھاگوں سے مل کر بنتا ہے اور وہ دو دھاگے ایک خاص ترتیب سے ایک دوسرے سے جڑتے چلے جاتے ہیں۔ دو دھاگوں کے ایک خاص ترتیب سے جڑنے کے عمل کو نیٹ ورکنگ کہا جاتا ہے۔ کائنات کا ہر نظام ایک خاص ترتیب، خاص نیٹ ورکنگ کے تابع ہے۔ چاہے ہمارا شمسی نظام ہو یا قمری۔ سورج کے طلوع و غروب یا موسموں کا بدلنا درحقیقت یہ سب ایک نیٹ ورک کے تحت ہی چل رہا ہے۔

کسی انسان کو بھی اگر کسی خاص جگہ پہنچنا ہے تو اسے کسی خاص نیٹ ورک کا حصہ بننا پڑے گا مثلا اگر کوئی کرکٹ کا کھلاڑی بننا چاہتا ہے تو وہ اپنے محلے، اپنے علاقے یا اپنے شہر کے کرکٹ کے نیٹ ورک کا حصہ بن جائے تو وہ خود بخود ایک اچھا کھلاڑی بن جائے گا۔ اگر کوئی اچھا ڈاکٹر، اچھا انجینیئر، اچھا مذہبی سکالر، اچھا بزنس مین غرض کسی بھی فیلڈ میں جانا چاہتا ہے تو بس اسے اس نیٹ ورک کا حصہ بننا ہے۔

مری سیشن کا یہ پہلا دن تھا اور ہم اسلام آباد سے کوئی 30 کے قریب لوگوں کا ایک گروپ چوہدری صاحب کے ساتھ یہاں مری آیا۔ دن کا کھانا ہم نے مارکو پولو ریسٹورنٹ میں کھایا اور تقریبا تین بجے چوہدری صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ کچھ دیر آرام کے بعد ہمارا سیشن شروع ہوا جس کا موضوع تھا نیٹ ورکنگ۔ چودھری صاحب نے بتایا کہ ہم ان پانچ بندوں کی ایوریج ہوتے ہیں جن میں ہم اٹھتے بیٹھتے ہیں، وہ قابل ہوں تو ہم قابل بن جاتے ہیں، وہ نشہ کرنے والا ہوں تو ہم نشئی وہ مذہبی اسکالر ہوں تو ہم مذہبی وہ ماڈرن خیالات کے مالک ہوں تو ہم ماڈرن بن جاتے ہیں کیونکہ انسان کسی بھی نیٹ ورک سے جب جڑتا ہے تو وہ ویسا ہی ہو جاتا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کسی نیٹ ورک کا حصہ کیسے بنتے ہیں؟

اس پر گفتگو کرتے ہوئے چوہدری صاحب نے بتایا کہ کوئی بھی کام ہم پہلے اپنے دماغ میں سوچتے ہیں اور دماغ ہمیں گائیڈ کرتا ہے کہ ہم نے کس سمت جانا ہے۔ دوسرا کام ڈیزائننگ یا وژن ہوتا ہے یعنی اس کام کو ہم کاغذ پر لکھیں اور یہ بھی لکھیں کہ ہم اپنے کام کو کس لیول تک لے جانا چاہتے ہیں اور تیسرا مرحلہ عمل کرنے کا ہوتا ہے یعنی ہم جو کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے کس انداز سے کس حد تک محنت کی جائے کہ کسی بھی شعبے میں عروج حاصل کیا جا سکے۔

جاوید چوہدری صاحب نے بتایا کہ میری نظر میں صرف دو مثالیں ایسی ہیں جو بغیر کسی نیٹ ورکنگ کے کامیاب ہو گئے۔ ایک ولیم سسٹرز جو ٹینس کی مشہور کھلاڑی ہیں اور دوسری (Klars Laszlo) کلارا لسزلو فیملی۔ رچرڈ ولیم نامی شخص ایک غریب فیملی سے تعلق رکھتا تھا، ایک بار اس نے ٹیلی ویژن پر کسی ٹینس پلیئر کو جیتتے اور 40 ہزار ڈالر کی انعامی رقم لیتے دیکھا تو اس نے سوچا کہ میری بیٹیاں بھی ٹینس کھیلیں گی اور اسی طرح جیت کر بہت سارا پیسہ کمائیں گی۔ لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ رچرڈ ولیم کی وہ بیٹیاں ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں جن کے بارے میں وہ یہ پلاننگ کر رہا تھا۔ یعنی بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے وہ اپنی بیٹیوں کو ٹینس پلیئر بنائے گا۔

جب رچرڈ کی بیٹیاں پیدا ہوئیں تو اس نے بچپن ہی سے انتہائی مشکل حالات میں انہیں ٹینس سکھانا شروع کر دی۔ رچرڈ ولیم اور اس کی بیٹیوں کو کن کن مشکلات سے گزرنا پڑا یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن آخر کار وہ کامیاب ہوگیا اور اس کی بیٹیاں دنیائے ٹینس کی عظیم کھلاڑی بنیں جن کو آج ہم ولیم سسٹرز کے نام سے جانتے ہیں۔

کلارا لیسز لو فیملی دوسری مثال ہے جو کسی نیٹ ورک کے بغیر کامیاب ہوگئی۔ لیسزلو اور کلارا پولر (Klara Polger) کی شادی ہوئی تو انہوں نے اپنی اولاد کو چیس پلیئر بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنی اولاد کی پیدائش سے پہلے ہی اپنے گھر کی دیواریں، فرش اپنے بستر غرض گھر کی ہر چیز کو چیس کے نقشے پر بنا دیا۔ جب ان کی بیٹیاں پیدا ہوئیں تو انہوں نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جہاں ہر طرف ہی چیس ہی چیس تھی۔ شروع سے ہی ان کی دلچسپی اس گیم میں ہوگئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ اس فیملی سے تینوں بہنیں چیس کی عالمی چیمپئن بن گئی۔ لیکن یہ کوئی اکا دکا مثال ہی ہوگی کہ آپ کسی نیٹ ورک کا حصہ بنے بغیر اپنا گول اچیو کر لیں۔ ہمیں بہرحال اپنے شعبے کے گرو تلاش کرکے ان سے ہی سے گر سیکھنا پڑتے ہیں۔

اپنے سیشن کے دوران چوہدری صاحب کا کہنا تھا کہ اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنے فیلڈ میں ان لوگوں کو فالو کریں جو پہلے کامیاب ہو چکے ہیں کیونکہ جب تک آپ کسی کو اپنا گرو نہیں مانیں گے اس وقت تک صحیح معنوں میں کامیاب نہیں ہوں گے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ہم فیل نہیں ہوتے، دراصل ہمارے پروجیکٹ فیل ہوتے ہیں۔ لہذا کسی پروجیکٹ کے فیل ہو جانے سے کبھی دل برداشتہ نہ ہوں۔ وہ فیلیئر تو ہمیں دراصل سکھا رہا ہوتا ہے۔

اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر شخص تین چیزوں کی خواہش رکھتا ہے پیسہ، شہرت اور پاور۔ لیکن یہ تینوں چیزیں حاصل کرنے کے لیے آپ کی گروتھ پلان (Planed) ہونی چاہیے، ان پلان(Unplaned) گروتھ آپ کو مشکل میں ڈال دے گی۔ آپ کو ہر وہ بندہ مشکل میں دکھائی دے گا جس کی گروتھ بے ترتیب ہوئی۔ آپ دنیا کے کسی بھی کامیاب بندے پر ریسرچ کرکے دیکھ لیں آپ کو اس میں یہ تین چیزیں پیسہ، شہرت اور پاور تینوں ایک جگہ اکٹھی نہیں دکھائی دیں گی۔ مثلا نریندر مودی کے پاس شہرت اور پاور ہے لیکن پیسہ نہیں۔ جس دن مودی پیسے کے پیچھے بھاگا تو یہ پہلی دو چیزیں بھی ختم ہو جائیں گی۔

اسی طرح مکیش امبانی بھارت کا ایک مشہور بزنس مین ہے جس کے بیٹے کی شادی کا چرچا گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر خوب رہا، اس کے پاس پیسہ اور شہرت ہے لیکن پاور نہیں۔ ویسے تو یہ تینوں چیزیں ایک جگہ اکٹھی نہیں رہ سکتی لیکن ایک چیز ان کو ایک جگہ کچھ عرصہ کے لیے اکٹھا رکھ سکتی ہے اور وہ ہے عاجزی۔ عاجزی میں ایسی ایٹمی طاقت ہوتی ہے جو کسی بھی انسان کو ہمیشہ عروج پر رکھتی ہے۔

چوہدری صاحب نے بتایا کہ کسی بھی بزنس کی ایک ہزار ورائٹیز ہوتی ہیں اور کسی ایک ورائٹی کو سمجھنے کے لیے انسان کو 145 سال چاہیے ہوتے ہیں جبکہ ہم بغیر کسی ٹریننگ کے ہی کاروبار میں آ جاتے ہیں اور اسی وجہ سے اکثر ناکام بھی ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے کسی بھی میدان میں کامیابی کے لیے اگر ہم کوئی ایک اچھی عادت اپنا لیں تو ترقی کرنا شروع ہو جائیں گے۔ مثلا اگر ہم صرف صفائی کی عادت ہی اپنا لیں تو ہم ترقی کرنا شروع ہو جائیں گے۔ ایمانداری، خوش اخلاقی، صلہ رحمی، سخاوت، عاجزی، انکساری، سچائی، مہمان نوازی، اپنی چیز کا نقص بتا کر فروخت کرنا غرض کوئی ایک بھی اچھی عادت اپنا لیں تو ہم کسی بھی شعبے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

نیٹ ورکنگ کے موضوع پر جاوید چوہدری کا یہ سیشن واقعی لائف چینجنگ تھا کیونکہ اس سیشن میں ہر اس شخص کے لیے بہت کچھ تھا جو واقعی سیکھنا چاہتا ہو۔ مری کا ٹھنڈا موسم، چوہدری صاحب کی دانش بھری باتیں اور کچھ نئے دوستوں سے گپ شپ نے ایک لمحے کے لیے بھی بور نہ ہونے دیا۔

Check Also

Lahu Ka Raag

By Mojahid Mirza