Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Muhabbat Aur Ikhlaq

Muhabbat Aur Ikhlaq

محبت اور اخلاق

میں بخاری ایڈیٹوریم کی سیڑھیاں چڑھ کر بائیں جانا مڑ گیا جہاں جی سی لاہور میں شعبہ تاریخ تھا، وہ دن میرے لیے اس لیے بھی خاص تھا کہ اس دن میں طالب علم کی حیثیت سے اس یونیورسٹی میں پہلی بار داخل ہوا جہاں پڑھنا میرا خواب تھا۔ اس سے پہلے میں جب کبھی دوستوں کے ساتھ لاہور آتا اور ہم جی سی لاہور کے قریب سے گزرتے تو اس کے بلند مینار کی طرف دیکھ جب کوئی یہ کہتا کہ میں اس عظیم درسگاہ میں پڑھتا رہا ہوں، تو بے اختیار میرے دل میں بھی حسرت پیدا ہوتی کہ کاش میں بھی میٹرک کے بعد میں کم از کم دو سال لاہور کے اس طرح کےکسی بڑے ادارے میں پڑھ سکتا، لیکن ایم اے تک میری یہ خواہش پوری نہ ہوئی۔

میری طرح دیہی علاقوں میں رہنے والے بے شمار طلباء یقینا جی سی جیسے بڑے اداروں میں پڑھنے کی کوشش اور دعائیں کرتے ہیں۔ پتا نہیں یہ دعاؤں کا اثر تھا یا اس عظیم ادارے میں پڑھنے کی شدید خواہش کہ ایم فل شعبہ تاریخ میں میرا داخلہ ہوا اور یوں میں جی سی لاہور پہنچ گیا۔ یونیورسٹی میں چونکہ یہ میرا پہلا دن تھا اس لیے مجھے معلوم نہیں تھا کہ شعبہ تاریخ کے کلاس رومز کہاں ہیں۔

یہ 2007 کا ستمبر تھا، رمضان کا مہینہ تھا اور دن کے دو بج رہے تھے، میں ایڈمن آفس میں داخل ہوا تو ایک لڑکا اسٹول پر بیٹھ کر برگر کھا رہا تھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور کپڑے بھی رف پہن رکھے تھے۔ اسے برگر کھاتے دیکھ کر مجھے بہت حیرانی ہوئی اور دل ہی دل میں میں سوچنے لگا یہ ہٹا کٹا جوان ہے اور اس کے باوجود اس نے روزہ نہیں رکھا، خیر میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور گویا ہوا کہ ایم فل کی جو آج کلاسز شروع ہونی ہیں وہ کہاں ہوں گی؟ اس نے کرسی کی طرف اشارہ کیا اور مجھے بیٹھنے کے لیے کہا۔ جونہی میں کرسی پر بیٹھا تو اس نے مجھے برگر کھانے کی آفر کی، میں نے نفی میں سر ہلایا اور سوچنے لگا یار یہ کیسا بندہ ہے؟

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولا یہ ایک کمرہ چھوڑ کر آگے کلاس روم ہے جہاں ایم فل کی کلاس ہوگی، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کلاس میں آ کر بیٹھ گیا۔ ایم فل تاریخ کے لیے تحریری امتحان اور انٹرویوز کے بعد ہم چھ اسٹوڈنٹس کو سلیکٹ کیا گیا۔ اڑھائی بجے تک کلاس میں ہم پانچ اسٹوڈنٹس موجود تھے لیکن چھٹا نہیں تھا۔ میری دوسرے کلاس فیلوز سے ہیلو ہائے ہوئی اور ہم لیکچر کے لیے ٹیچر کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر طاہر کامران جو بڑی رعب دار شخصیت تھے اور شعبہ تاریخ کے ہیڈ بھی تھے کلاس میں آئے اور ان کے پیچھے پیچھے وہ برگر کھانے والا لڑکا بھی تھا جس سے چند لمحے پہلے میری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ آیا اور ہمارے ساتھ کلاس میں بیٹھ گیا۔

ڈاکٹر صاحب نے نو آبادیاتی نظام میں پنجاب کی تاریخ پر پی ایچ ڈی کر رکھی تھی، انہوں نے اپنا مختصر سا تعارف کروایا اور ہمیں نو آبادیاتی پنجاب کی تاریخ کے حوالے سے لیکچر دیا، کلاس ختم ہوئی تو وہ لڑکا دوسرے کلاس فیلوز کے ساتھ گپ شپ کرنے لگا، مجھے محسوس ہوا کہ یہ ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے ہیں۔ اس وقت مجھے پتہ چلا کہ وہ برگر کھانے والا لڑکا ہی ہمارا چھٹا کلاس فیلو ہے، اس کا نام احتشام ہے اور ماسٹرز میں وہ یہاں جی سی میں پچھلے سال اپنے سیشن کا ٹاپر ہے۔

یہ ڈاکٹر احتشام جان بٹ سے میرا پہلا تعارف تھا جو آج کل لاہور میں سی ایس ایس کے گرو کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اور ایک گورنمنٹ کالج میں بطور پروفیسر اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ احتشام بلا کا ذہین اور شرارتی اسٹوڈنٹ تھا، ہم ایم فل کی کلاس میں تھے کوئی بچے تو نہیں تھے لیکن اس کے باوجود وہ ہر روز کلاس میں نئی سے نئی شرارت ڈھونڈ لاتا۔ میرے باقی کلاس فیلوز اور احتشام چونکہ کافی عرصہ سے ایک دوسرے کو جانتے تھے اس لیے وہ اکثر واپس میں ہنسی مذاق کرتے رہتے۔ سنجیدگی احتشام کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی وہ اکثر ٹیچرز سے بھی شرارتیں کرتا رہتا۔

لاہور میں قیام کے دوران میں گنگا رام ہسپتال کے قریب ایک ہاسٹل میں رہتا تھا اور احتشام جان بٹ نے انارکلی بازار کے قریب فوڈ سٹریٹ میں ایک کمرہ لے رکھا تھا۔ پہلے ایک ماہ کے دوران میری بھی احتشام سے ہلکی پھلکی بات ہوتی رہی اور اس نے کئی بار مجھے کھانے کی دعوت دی لیکن شاید اس کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے میں کبھی اس کے ساتھ نہ گیا۔ ایک دن وہ بڑی معصومیت سے بولا کہ بھائی میں جانتا ہوں شاید آپ میری شرارتوں کی وجہ سے مجھ سے کم ہی بات کرتے ہیں لیکن ہم کھانا تو اکٹھا کھا سکتے ہیں اس میں تو کوئی حرج نہیں، میں اس کی بات سن کر مسکرایا اور اس دن فوڈ اسٹریٹ میں پہلی بار ہم نے اکٹھے ڈنر کیا۔

اس دن مجھے احساس ہوا کہ بظاہر غیر سنجیدہ دکھائی دینے والا یہ لڑکا کس قدر فوکسڈ اور سنجیدہ ہے۔ اس دن ہمیں ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملا اور اس کے بعد پھر اکثر یونیورسٹی میں ہمارا وقت اکٹھے گزرتا۔ وقت کے ساتھ مجھے یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ وہ کس قدر ذہین اور لائق اسٹوڈنٹ ہے۔ جب میری احتشام سے دوستی ہوگئی تو میں اکثر اس کے پاس فوڈ اسٹریٹ اس کی رہائش گاہ پر چلا جاتا اور امتحانات کے دنوں میں ہم دونوں اکٹھی تیاری کرتے۔ وہ روٹین میں تو کم ہی پڑھتا تھا لیکن جب امتحان شروع ہوتے تو ان دنوں وہ ساری ساری رات جاگ کر نوٹس بناتا، ان سے تیاری کرتا ہوں اور پیپرز میں کمال کردیتا۔

مجھے اس کی باتیں ہمیشہ عجیب لگتی تھی، ایک دن اس نے مجھے کہا کہ "انار کلی میری ماں ہے"، میں نے پوچھا کیسے؟ تو بولا! یار یہ مجھے ماں کی طرح کھانا دیتی ہے، کپڑے دھلے دھلائے یہاں سے مل جاتے ہیں اور ضرورت کی ہر چیز مجھے یہ دیتی ہے تو پھر یہ میری ماں ہی ہوئی نا، اس کی ایسی باتوں پر میں اکثر کہتا یار ایسے نہیں کہتے۔

ایک بار گرمیوں کی چند چھٹیاں ہونے والی تھی، ہم سب نے اپنے اپنے گھر جانا تھا، احتشام مجھے کہنے لگا یار اس بار پرویز کے ساتھ بھی کام کرنا پڑے گا، میں نے پوچھا کیسا کام؟ تو کہنے لگا پرویز برف کا کاروبار کرتا ہے تو ان چھٹیوں میں اس کی ہیلپ کرنا پڑے گی، میں نے پوچھا یہ پرویز کون ہے جس کی ہیلپ تم کرو گے تو بولا! میرے ابا جان۔ میں نے اسے غصے سے دیکھا اور کہا یار عجیب آدمی ہو، سیدھا کہو کہ والد صاحب کے کام میں ان کا ہاتھ بٹانا ہے۔

ایک طرف اس کی باتیں ایسی ہی عجیب ہوتیں اور دوسری طرف وہ اپنے والدین کا بے حد احترام اور کیئر کرتا ہوں۔ گورنمنٹ کالج میں میں نے ٹیچرز سے بہت کچھ سیکھا لیکن احتشام سے دوستی بھی کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔ میں آج اکثر یہ سوچتا ہوں کہ اگر اس کا ساتھ نہ ہوتا تو میں شاید کبھی اچھی طرح ریسرچ ورک نہ سیکھ سکتا۔ امتحانات کے دنوں میں ساری ساری رات فوڈ اسٹریٹ کے اس کمرے میں پیپرز کی تیاری کرنا، صبح پانچ بجے فوڈ اسٹریٹ میں ناشتہ کرنا، کبھی رات گئے مزنگ میں آلو والے پراٹھے اور مچھلی کھانا، کبھی فوڈ سٹریٹ میں حاجی صاحب سے تکا کباب، کا بھی کلاس رومز، کبھی پروفیسرز روم اور کبھی کینٹین کے ساتھ لان میں سردیوں کی ٹھنڈی دھوپ میں لیکچرز لینا اور کبھی گرمیوں کے موسم میں گرمی سے بچنے کے لیے لائبریری میں سارا سارا دن گزار دینا، سب کچھ یادگار تھا۔

ایم فل کے بعد میں لاہور سے واپس ملک وال آ گیا اور احتشام نے گورنمنٹ کالج لاہور میں ہی بطور لیکچرار پڑھانا شروع کر دیا، اسی دوران اس نے سی ایس ایس کے طالب علموں کے لیے اکیڈمی بنائی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک استاد کی حیثیت سے اتنا مقبول ہوا کہ آج سی ایس ایس کے طالب علم تاریخ کے مضمون میں اسے اپنا گرو مانتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج میں تین سال تک پڑھانے کے بعد اس نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان دیا اور ڈائریکٹ 18 سکیل میں پنجاب گورنمنٹ میں بطور لیکچرار بھرتی ہوگیا۔ اسی دوران اس نے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور احتشام سے ڈاکٹر احتشام جان بٹ ہوگیا۔

میں گزشتہ برسوں میں لاہور کئی بار آیا لیکن احتشام سے ملاقات نہ ہو سکی، گزشتہ ماہ جب میرا لاہور آنا ہوا تو میرا احتشام سے رابطہ ہوا، اس نے مجھے گلبرگ سے پک کیا اور اپنے ساتھ شیخوپورہ کے علاقے فیروزپورہ اپنی رہائش گاہ پر لے آیا جہاں آج کل اس کی مسز بھی لیکچرار ہیں۔ احتشام چونکہ نیچرلسٹ ہے اس لیے اس نے چند گائے، بکریاں اور بھینسیں پال رکھی ہیں، مجھے وہ حویلی دیکھ کر بھی بہت اچھا لگا جہاں اس نے کھاد کے بغیر سبزیاں لگا رکھی تھیں۔ اس نے بہترین کھانے سے میری تواضع کی، کھانے کے دوران ہم نے اپنے یونیورسٹی کے کئی ٹیچرز کو یاد کیا۔

15 سال زیادہ عرصہ تو نہیں ہوتا لیکن ان 15 سالوں میں جہاں ہماری زندگی میں بہت سی تبدیلیاں آئیں وہیں شوگر کے مرض نے اسے کمزور کر دیا۔ میں جب اسے اس بار ملا تو یوں لگا جیسے ہمیں ملے ہوئے زمانہ گزر چکا ہو، انسان کی زندگی میں آنے والے سبھی رشتے انمول ہوتے ہیں لیکن کلاس فیلوز کا رشتہ سب سے یونیک ہوتا ہے اور کلاس فیلو بھی احتشام جیسا مخلص تو پھر کیا کہنے۔ شیخوپورہ سے واپسی پر ہم نے اپنے سب کلاس فیلوز کو یاد کیا۔ زندگی کے ان 15 سالوں میں بہت کچھ بدل گیا لیکن جو چیز نہ بدلی اور وہ تھی محبت اور اخلاص۔

Check Also

Biometric Aik Azab

By Umar Khan Jozvi