Lock Your Limits
لوک یوور لِمٹس
نادر شاہ 22 اکتوبر 1688ء کو ایران کے علاقے خراسان میں پیدا ہوا اور 1736ء سے لے کر اپنی موت 1747ء تک ایران کا طاقتور بادشاہ رہا۔ وہ پہلا بادشاہ تھا جس کی اپنی چھ لاکھ کے قریب منظم فوج تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں بے تحاشا فتوحات حاصل کیں، ترک سلطنت کے کئی علاقے، موجودہ کرغستان، داغستان، آذربائجان، آرمینیا، افغانستان، بخارا، خیوہ، پشاور، لاہور اور برصغیر کے کئی علاقے فتح کیے، حتٰی کہ دلی میں محمد شاہ رنگیلا کو بھی شکست دے کر شاہجہاں کا مشہور تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرا تک لے گیا۔
اتنی فتوحات کے باوجود نادر شاہ مزید علاقے فتح کرنے کی حرص میں مبتلا رہا، داغستان کی شورش کو دبانے میں ناکامی پر وہ چڑچڑا اور شکی مزاج ہوگیا۔ اسی دوران اس کے ایرانی اور افغانی فوج پر مشتمل اس کے اپنے ہی جرنیل اس کے خلاف ہو گئے۔ وہ ہر رات اپنی حفاظت کے لیے اپنی تلوار پاس رکھتا اور لوہے کا لباس پہن کر اپنے خیمے میں سوتا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں 1747ء میں کوچن کے علاقے میں اپنے خیمے میں مارا گیا۔
اس کے مرنے کے صرف تین گھنٹے کے بعد ہی اس کی ساری فوج وہاں سے غائب ہو چکی تھی، اس کی لاش خیمے میں پڑی تھی۔ ایسا کیوں ہوا اور اس سارے اقتدار اور فتوحات سے اسے کیا ملا؟ وجہ بہت سادہ تھی اس نے اپنے اقتدار کی کوئی لمٹ مقرر نہیں کی تھی، لمٹ کو لاک نہیں کیا تھا۔ سکندر اعظم تھا یا امیر تیمور، ہٹلر تھا یا نپولین بونا پارٹ یہ سب بھی اپنے اقتدار اور فتوحات کو زیادہ سے زیادہ علاقوں تک پھیلانے کے خبط میں مبتلا رہے اور مارے گئے۔
انہوں نے بھی اپنی فتوحات کی کوئی لمٹ مقرر نہیں کی تھی۔ اسی طرح کوئی بھی انسان جو بھی کام کر رہا ہے اگر وہ اپنے کام کی کوئی لمٹ مقرر نہیں کرتا تو پھر کبھی پر سکون زندگی نہیں گزار سکتا۔ ملک کے نامور رائٹر اور سینئر تجزیہ کار جاوید چوہدری صاحب بہت ہی دھیمے لہجے میں ہم سب کو یہ باتیں بتا رہے تھے اور ہم 20 کے قریب لوگ بڑے انہماک سے ان کی باتوں کو سن رہے تھے۔
یہ 22 جولائی ہفتے کا دن تھا اور ہم مری میں ان کے گھر موجود تھے، باہر کبھی ہلکی ہلکی بارش شروع ہو جاتی اور کبھی پہاڑوں پر چیل کے درختوں کے اوپر سفید بادل ہوا میں تیرتے دکھائی دیتے، کھڑکی کھلی تھی، اس سے کسی کسی وقت ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بہت بھلا محسوس ہوتا ہے۔ چوہدری صاحب بولے! اگر آپ اپنی زندگی کو خوشگوار اور پرسکون بنانا چاہتے ہیں تو پھر 10 چیزوں کی لمٹ کو لاک کر لیں اور وہ دس چیزیں یہ ہیں خوراک، لباس، مکان، صحت، تعلیم، اپنی سواری اپنی سیونگ، لگثری لائف اسٹائل سیاحت، اور انٹرٹینمنٹ۔
جب تک ہم اپنی خوراک کی ایک حد مقرر نہیں کرتے اس وقت تک اگر 10 قسم کے کھانے بھی ہمارے سامنے پڑے ہوں تو ہمیں ناکافی محسوس ہوتے ہیں۔ ہماری وارڈروب (Wardrobe) میں کتنے کپڑے پڑے ہوتے ہیں ہم نے کبھی اس کا حساب نہیں کیا اور درجنوں کے حساب سے جو سوٹ رکھے ہوتے ہیں دوسری بار ان کے استعمال کی باری تک نہیں آتی، لیکن اس کے باوجود ہم نئے سے نیا سوٹ خریدتے رہتے ہیں۔
ہم نے کبھی اپنی زندگی میں یہ سوچا کہ ہمیں رہنے کے لیے مکان کیسا اور کتنا بڑا چاہیے؟ ہم اگر ایک مکان بنا لیں تو اس سے مطمئن نہیں ہوتے اور مزید گھر بنانے کے خبط میں مبتلا رہتے ہیں۔ ہمیں اپنی صحت کو کس حد تک برقرار رکھنا چاہیے اور اس کے لیے کس قسم کی کتنی خوراک چاہیے، ہمیں کتنی واک اور ایکسرسائز کرنی چاہیے، ہمیں تو اس بات کی لمٹ کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگوں نے چار چار، پانچ پانچ مضامین میں ماسٹرز کر رکھا ہوتا ہے، کون سی ڈگری سے انہوں نے کیا فائدہ اٹھانا ہے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا۔
ایف اے کی ڈگری ہو یا ماسٹرز کی، انجینئرنگ کی ڈگری ہو یا ڈاکٹریٹ کی، اس کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اگر کسی ڈگری کے حصول کا دورانیہ مقرر نہ ہو تو لوگ 20، 20 سال کوئی ڈگری نہ لے سکیں۔ یہی وجہ ہوتی ہیں کہ جو شخص پوری زندگی پڑھتا رہتا ہے اور کئی مضامین میں ایم۔ اے کرتا رہتا ہے وہ کبھی کامیاب زندگی نہیں گزار سکتا۔ جب چوہدری صاحب یہ بات بتا رہے تھے تو مجھے اپنے علاقے کے ایک 56 سالہ گورنمنٹ اسکول ٹیچر یاد آ گئے، جنہوں نے چند دن پہلے سوشل میڈیا پر اپنے رزلٹ کارڈ کی تصویر کے ساتھ لکھ رکھا تھا کہ الحمدللہ میں نے ایم۔ اے مطالعہ پاکستان کا امتحان پاس کر لیا۔
حالانکہ اس سے پہلے انہوں نے تین مضامین میں ایم اے کر رکھا تھا۔ اس لمحے بے اختیار میرے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی، اس لیے کہ ہم کمال لوگ ہیں کہ 56 سال کہ عمر میں اضافی ایم۔ اے کی ڈگری لینے پر خوش ہوتے رہتے ہیں حالانکہ علم کے حصول کا تعلق زیادہ ڈگریاں اکٹھے کرنے سے نہیں ہوتا۔ ذرائع آمدورفت کے لیے ہمارے پاس کون سی سواری ہونی چاہیے، اس کی بھی ہمیں کوئی نہ کوئی حد مقرر کرنی چاہیے ورنہ گھر میں کھڑی بے شمار گاڑیاں بھی نا کافی محسوس ہوتی ہیں۔
سید بابر علی جو پیکجز مال اور لمز جیسے ہی بڑی یونیورسٹی کے مالک اور پاکستان کے مشہور بزنس مین ہیں، 98 سال کی عمر میں بھی صحت مند اور خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں، چوہدری صاحب نے ان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے استعمال میں صرف ایک ہی گاڑی رکھتے ہیں اور ہر تین سال بعد اس گاڑی کا نیا ماڈل خرید لیتے ہیں یعنی انہوں نے گاڑی کی بھی ایک حد مقرر کر رکھی ہے۔ لہٰذا ہمارے پاس گاڑی کون سی اور کتنی ہونی چاہیے، اس کی حد مقرر کرنا بھی ضروری ہے۔
پیسہ انسان کی ضرورت ہے اگر کوئی انسان یہ کہے اسے پیسا نہیں چاہیے تو وہ یقیناََ جھوٹ بول رہا ہوگا۔ پیسہ برا نہیں کیونکہ آج کل ہم پیسے سے ہی اپنی خوشیاں اور کمفرٹس خریدتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس پیسہ ہونا کتنا چاہیے؟ لیکن یہ سوال ہم نے کبھی اپنے آپ سے نہیں پوچھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم میں ہر کوئی زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں ہے۔ میں نے بچپن سے یہ سن رکھا ہے کہ آپ کوئی بھی کام کر رہے ہوں تو کھانے کے وقت اپنے سارے کام چھوڑ دیں، آرام سے کھانا کھائیں، اس پیسے کا کیا فائدہ جس کے ہوتے ہوئے آپ کو سکون سے کھانا بھی نصیب نہ ہو۔
لیکن کچھ لوگ شیخ صاحب کی طرح ہوتے ہیں جو پچھلے ہفتے آذربائجان کے سفر میں میرے ساتھ تھے۔ پیسے کی قدروقیمت سمجھاتے ہوئے مجھے کہنے لگے الطاف بھائی! مجھے پیسے کمانے کا اتنا شوق ہے کہ کام کے وقت دو دو گھنٹے کھانا میرے سامنے پڑا رہتا ہے، میں کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگاتا جب تک گاہکوں کو ڈیل نہ کر لوں۔ شاید شیخ صاحب نے بھی پیسہ کمانے کی کوئی لمٹ مقرر نہیں کر رکھی، میں ان کی بات پر سوائے حیران ہونے کے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
چوھدری صاحب نے یہ بات بھی سمجھائی کہ ہمیں کس حد تک شاہانہ زندگی گزارنی چاہیے، اس بات کی بھی ایک حد مقرر کر لینی چاہیے ورنہ آپ اپنی سیونگ کو یوں ہی برباد کر دیں گے۔ کتابوں کے علاوہ سیاحت بھی علم حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے، ایک چینی کہاوت ہے کہ اگر آپ علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو کم از کم ایک ہزار کتابیں پڑھنی چاہیے اور 10 ہزار میل کا سفر طے کرنا چاہیے۔
ظاہر ہے یہ اس زمانے کی بات ہے جب کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھی اور سفر گھوڑوں، گدھوں اور خچروں پر کیے جاتے تھے لیکن آج پرنٹنگ پریس اور کمپیوٹر کا دور ہے اور ذرائع آمدورفت بھی بدل چکے ہیں، آج کتابوں اور میل کو ہمیں 10 سے ضرب کر لینی چاہیے۔ ہم نے کون سی اور کتنی کتابیں پڑھنی ہیں اور کہاں کہاں کی سیاحت کرنی ہے اس کی بھی ایک لمٹ ضرور مقرر کرنی چاہیے ورنہ "جہاں گرد" کہلوا کے اپنے آپ کو مشہور تو کر سکتے ہیں لیکن دل کا سکون میسر نہیں آئے گا۔
چوہدری صاحب نے جو دسویں اور آخری چیز بتائی وہ انٹرٹینمنٹ تھی، ہمیں کن باتوں سے خوشی ملتی ہے اور ہماری زندگی میں انٹرٹینمنٹ کا عنصر کس حد تک ہونا چاہیے یہ طے کرنا بھی ضروری ہے۔ جاوید چوہدری صاحب کو اللہ نے بے انتہا علم سے نواز رکھا ہے، انہیں چلتا پھرتا علم کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ وہ ہر اگلے لمحے ہمیں کوئی نہ کوئی نئی بات بتا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ہر انسان کو تین چیزوں کی خواہش ہوتی ہے امارت، اقتدار اور شہرت۔
ہم ساری زندگی مذکورہ بالا 10 چیزوں کے علاوہ ان تین خواہشات کے گرد گھومتی ہے۔ لیکن پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جن کے پاس خوشحالی، اقتدار اور شہرت سب کچھ ہو، پھر بھی وہ جہانگیر ترین کے بھائی عالمگیر ترین کی طرح اپنی زندگی کا خاتمہ خود کر لیتے ہیں۔ درحقیقت یہ خواہشات پوری ہو بھی جائیں تو یہ ہمیں وقتی خوشی تو دے سکتی ہیں لیکن دائمی راحت نہیں۔ دل کا سکون تو ہمیشہ خدا پر یقین، ضرورت کی حد تک دولت، سادگی اور عاجزی میں ہے۔
میں بڑے انہماک سے چوہدری صاحب کی باتیں سن رہا تھا اور دل ہی دل میں اللہ کا بے شمار شکر ادا کر رہا تھا۔ مری میں ہونے والے اس سیشن کا موضوع تھا کہ ہم اپنے کاروبار اور اپنی اچیومنٹس کو کیسے بچا سکتے ہیں۔ موضوع کے حوالے سے تو یہ سیشن کمال تھا ہی لیکن اس کے علاوہ زندگی کے مختلف پہلوؤں پر چوہدری صاحب کی زندگی بدل دینے والی حکمت بھری باتیں کمال تھیں۔ میں کئی برسوں سے شکر گزاری کے موضوع پر جاوید چوہدری صاحب کی تحریروں سے بے شمار باتیں سیکھ رہا ہوں۔ بے شک ہم سب پر اللہ کا خاص رحم اور کرم ہے جس نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔
ہمیں ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ہمیں ان لوگوں کا ہمیشہ شکر گزار ہونا چاہیے جن لوگوں نے ہماری زندگی میں کسی نہ کسی حوالے سے کوئی مثبت کردار ادا کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں چوہدری صاحب کو مل کر ان کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا تھا جنہوں نے اپنی متاثر کن تحریروں اور اپنے لائف اسٹائل سے مجھے کالج اور یونیورسٹی کے زمانے سے ہی متاثر کیا۔ جاوید چوہدری صاحب اور سب دوستوں کے ساتھ مری میں گزرے یہ دو دن ہمیں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ میری دعا ہے کہ اللہ کریم چوہدری صاحب کو صحت والی لمبی زندگی دے اور ہمیشہ آباد شاد رکھے۔ آمین