Land Of Fire (1)
لینڈ آف فائر (1)
شام کے پانچ بج چکے تھے، جونہی ہم باکو ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو سامنے ایک آذربائجان کی لڑکی ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑی تھی۔ اس کا نام مرواری تھا اور وہ اگلے پانچ دنوں کے لیے ہماری ٹؤر گائیڈ تھی۔ ہم ایئرپورٹ سے سیدھا ہوٹل پہنچے، تھوڑا آرام کیا اور وہ انگلش گائیڈ ہمیں کیسپین سی (بحرہ قزوین) کے کنارے آزادی چوک لے آئی۔ رات کے آٹھ بج چکے تھے اور یہاں سے اس وقت باکو کے بلند و بالا "فلیم ٹاورز" کا نظارہ دیکھنے کے قابل تھا۔
اگر یہ کہا جائے کہ یہ فلیم ٹاورز دراصل باکو کی اصل پہچان ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ یہاں رات کے وقت کبھی ان ٹاورز پر رنگ برنگی روشنی پھیلتی یوں محسوس ہوتی ہے جیسے آگ کے شعلے اوپر ہوا میں اٹھ رہے ہوں تو کبھی ان ٹاورز پر آذربائجان کا جھنڈا بنا دکھائی دیتا۔ فلیم ٹاورز کا یہ حسین نظارہ دیکھنے کے بعد ہم شہداء سٹریٹ میں آ گئے جہاں کافی زیادہ تعداد میں شہداء کی قبریں تھیں جو آزادی کی جنگ میں روس کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
شہداء کی یہ قبریں بڑی ترتیب سے کالے سنگ مرمر کے پتھروں سے بنائی گئی ہیں۔ ہر شہید کی تصویر اور شہید ہونے کی تاریخ بھی سنگ مرمر کے کتبوں پر درج ہے۔ چلتے چلتے ہم شہداء سٹریٹ کے آخر میں اس بلند مقام پر آ گئے جہاں یادگار شہداء بنائی گئی تھی اور ایک چبوترے پر آگ جل رہی تھی۔ اس یادگار کے سامنے پھول پڑے تھے جن پر (Ministry of defens of Israil) لکھا تھا۔ یقیناََ وہ پھول اس دن اسرائیل کی گورنمنٹ کی جانب سے شہداء کی یادگار پر چڑھائے گئے ہوں گے۔
ساتھ ہی شہداء کی یاد میں ایک بڑا چبوترا بھی بنایا گیا ہے جس کے پیچھے مختلف قسم کے جھنڈے بڑی ترتیب سے لگائے گئے ہیں۔ عظیم قومیں ایسے ہی اپنے شہداء کو یاد رکھتی ہیں جیسے آذربائجان کی گورنمنٹ نے شہداء کی یادگار بنا رکھی ہے۔ باکو آنے والا ہر سیاح شہداء کی اس یادگار پر لازمی آتا ہے۔ یہ یادگار کافی اونچائی پر بنائی گئی ہے، رات کے اس پہر یادگار شہداء کے جنوب کی جانب کیسپین سی کا نظارہ دیکھنے کے قابل تھا۔ ہم دیر تک اس بلندی پر کھڑے ہو کر بحرہ قزوین اور اس کے ساحل کو دیکھتے رہے جہاں باکو شہر روشنیوں میں ڈوبا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔
دنیا کے چند ممالک اپنے ملک کے نام سے کم اور اپنے دارالحکومت کے نام سے زیادہ پہچان رکھتے ہیں۔ آذربائجان کا دارالحکومت باکو ہے اور زیادہ تر سیاح آذربائجان کو باکو کے حوالے سے ہی جانتے ہیں۔ آذربائجان دو براعظم مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کی سرحد پر واقع ایک خوبصورت ملک ہے، اس کے مشرق میں کیسپین سی اور مغرب میں Caucasus Mountains ہیں۔ یہ یوریشیا کا سب سے بڑا آبادی والا ملک ہے۔ اس کے شمال میں روس اور شمال مغرب میں جارجیا ہے، مغرب میں آرمینیا اور ترکی ہے جبکہ جنوب میں ایران واقع ہے۔
آذربائجان کی کل آبادی تقریباََ 11 ملین ہے اور آذربائجان زبان بولی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دے رکھے ہیں۔ باکو شہر کے باہر سمندر کے کنارے بے شمار تیل کے کنویں لگے ہیں جن سے خام تیل نکالا جا رہا ہے، اسی طرح وہاں ایسے پہاڑ بھی موجود ہیں جس میں بے تحاشا گیس کے ذخائر موجود ہیں اور ان پہاڑوں کو "فائر ماؤنٹینز" کہا جاتا ہے۔ تیل اور گیس کہ ان ذخائر کی بدولت ہی آذربائجان کو آگ کی زمین یعنی (Land of fire) کہا جاتا ہے۔
آذربائجان کے لوگ اپنے تیسرے صدر علی حیدر علیفوف کو اپنی قوم کا حقیقی بانی سمجھتے ہیں۔ علی حیدر علیفوف اکتوبر 1973 سے اکتوبر 2003 تک آذربائجان کا صدر رہا۔ باکو شہر میں ہم نے جگہ جگہ علی حیدر علیفوف کی بڑی بڑی تصاویر اور آذربائجان کے جھنڈے دیکھے۔ آذربائجان کے علاقے کی تاریخ تو بہت پرانی ہے لیکن ہم اگر بیسویں صدی کی بات کریں تو پہلی جنگ عظیم میں جب روس کا زوال آیا تو آذربائجان، آرمینیا اور جارجیا نے مل کر ایک الگ ریاست قائم کر لی۔
یہ ریاست مختصر عرصہ ہی قائم رہی، 1918ء میں آذربائجان نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور اپنا نام "عوامی جمہوریہ آذربائجان" رکھ لیا۔ یہ دنیا کی پہلی پارلیمانی مسلمان ریاست تھی لیکن دو سال بعد روس نے دوبارہ قبضہ کر لیا اور دوبارہ مارچ 1922ء میں جارجیا اور آرمینیا کے ساتھ مل کر ایک نئی تنظیم بنائی جو "روس فیڈریشن" کے تحت تھی۔ 1936ء میں آذربائجان بطور سوویت سوشلسٹ ریپبلک کے سوویت یونین میں شامل ہوگیا لیکن 1990ء میں سویت یونین سے آزادی کے بعد سے آذربائجان کے لوگ 28 مئی کو آزادی کا دن مناتے ہیں۔
آذربائجان میں پارلیمانی نظام ہے اور صدر کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ ملک کو 76 صوبوں جن میں 65 دیہاتی 11 شہری اور ایک خود مختار علاقہ شامل ہے۔ آذربائجان قدرتی وسائل سے کتنا مالا مال ہے، اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کے ملک کا دو تہائی حصہ تیل اور گیس کے ذخائر پر مشتمل ہے۔ ملک کی 97 فیصد آبادی مسلمان ہے، تین فیصد روسی اور باقی دیگر اقلیتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ آذربائجان کے لوگ انتہائی ملنسار، خوش شکل، مہذب اور صفائی پسند ہیں۔
آپ صفائی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ پانچ دنوں کے قیام کے دوران میں نے کہیں کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دیکھا، لوگ مہمان نواز ہیں اور پاکستانیوں کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آذربائجان زبان کے کافی الفاظ وہی ہیں جو ہم اردو زبان میں بھی بولتے ہیں۔ مثلا درزی، حمام پردے، رنگ ساز، ہوا، خالہ، تایا، آتش وغیرہ۔ باکو شہر میں زیادہ تر عمارتیں سویت یونین کے دور کی ہیں لیکن نئی ہائی رائزنگ بلڈنگز جدید طرز پر بنائی گئی ہیں۔
پچھلے سال دبئی میں میں نے بے شمار ہائی رائزنگ بلڈنگ دیکھیں جو زیادہ تر ایک ہی طرز پر بنائی گئی ہیں لیکن باکو شہر میں منفرد بات یہ ہے ہر نئی جدید عمارت دوسری بلڈنگ سے مختلف نظر آتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں باکو قدیم اور جدید طرز تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ کتابیں پڑھنا اور زیادہ سے زیادہ سفر کرنا علم حاصل کرنے کا بہت بڑا سورس ہے کیونکہ سفر ہمارے اندر صحیح معنوں میں تحمل، برداشت، تجسس، دوسروں کے رسم و رواج، تہذیب و تمدن اور کلچر کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل بناتا ہے، یہ سب کچھ سیکھنے کا شوق ہی مجھے آذربائجان لے آیا۔
آذربائجان کی سیاحت کے پہلے دن میں باکو میں یادگار شہداء پر کھڑے ہو کر کیسپین سی کا نظارہ کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ہم اپنے گوادر یا کراچی کو باکو کیوں نہیں بنا سکے؟ آخر ایسی کون سی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہیں دے رکھی؟ ہم چاہتے تو گوادر آج دوسرا باکو یا دبئی ہوتا اور ہمارے ملک میں بے شمار سیاح آتے اور ہم اس سے ڈھیروں زرمبادلہ کما سکتے تھے۔ یہ سوچنے کے ساتھ ہی مجھے یہ خیال بھی آیا کہ ہم اگر اپنے کسی شہر کو ایسا سیاحتی مقام بنا بھی لیں تو ہم یہ اخلاقیات کہاں سے لائیں گے جو ان لوگوں میں ہیں۔
ملک کے قوانین کی پابندی یہ لوگ یوں کرتے ہیں جیسے کوئی مذہبی احکام ہوں جبکہ ہم قانون کو توڑنے اور ان کا مذاق اڑانے والے لوگ ہیں۔ ہم جب بھی کسی ملک میں جاتے ہیں تو ایک ایک بندہ اپنے ملک کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے، کسی بھی ملک کے لوگوں کی عادات، اخلاقیات، صفائی، ڈسپلن، اور ملک کے قوانین پر عمل کرنا ہی اس قوم کی اخلاقیات کو ظاہر کرتا ہے۔ اور پہلے ہی دن اس آذربائجانی گائیڈ میواری جس نے اپنا مختصر نام "میرا" رکھا ہوا تھا نے اپنے اخلاق، کردار، تحمل مزاجی اور عاجزی سے اپنی قوم کا تعارف کروا دیا۔
ہم 25 لوگ جو آذربائجان کی سیاحت کے لیے ولید کی قیادت میں باکو آئے، اس ٹور کا اہتمام Tripsbuilder کمپنی نے کر رکھا تھا۔ جونہی رات کے دس بجے تو ہم سب ڈنر کے لیے ایک ریسٹورنٹ "لاہوری ڈھابہ" پر آ گئے جو باکو میں ایک لاہورے نے بنا رکھا تھا۔ وہ کھانا تو شاندار تھا ہی لیکن ایک اجنبی شہر میں اپنے ملک کا کوئی بندہ یا "لاہوری ڈھابہ" جیسا لفظ دیکھنے کو مل جائے تو اس کی خوشی الگ ہی ہوتی ہے۔ (جاری ہے)