Kuch Yadgar Lamhe
کچھ یادگار لمحے
مجھے زیادہ دلچسپی اس گھوڑے میں تھی جو عربی النسل تھا اور جس کی نسبت آپ ﷺ کے پالے ہوئے گھوڑوں کے ساتھ تھی۔ ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے 11 گھوڑے پال رکھے تھے، ایک مرتبہ جب وہ پانی پی رہے تھے تو آپ ﷺ نے ان میں سے چار گھوڑوں کو ان کے ناموں سے پکارا، وہ قریب آئے تو آپ ﷺ نے پیار سے ان کی گردن پر انگوٹھا رکھا اور اس کے بعد اس نسل کے گھوڑوں میں آج تک ان کی گردن پر انگوٹھے کا نشان چلا آ رہا ہے، اور یہاں ہر تیسری اور چوتھی نسل میں ایک گھوڑا ایسا لازمی ہوتا ہے، یہ سنتے ہی میرے منہ سے بے اختیار سبحان اللہ نکلا۔ ہمارے سامنے وہ عربی النسل گھوڑا تھا جس کی گردن پر انگوٹھے کا نشان صاف دکھائی دے رہا تھا۔ عربی نسل کا ایسا گھوڑا دراصل جنرل ضیاء الحق کو تحفے میں دیا گیا تھا۔
جولائی کی 9 تاریخ تھی لیکن موسم اس کے باوجود انتہائی خوشگوار تھا۔ میں اپنے بیٹوں اور تین دوستوں کے ساتھ مونہ ریماؤنٹ ڈپو دیکھنے دوپہر چار بجے وہاں پہنچا۔ یہ ریماؤنٹ ڈپو، برٹش راج میں 1902ء میں ضلع منڈی بہاؤدین کے علاقے مونہ سیداں کے قریب بنایا گیا۔ کئی ایکڑز پر مشتمل گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کی بریڈنگ کے لیے بنایا جانے والا یہ ڈپو بہت ہی خوبصورت ہے، یہاں اعلی نسل کے گھوڑے بہت زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔ جتنی خوبصورتی سے ان گھوڑوں کے باڑے اور گھر بنائے گئے ہیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ابتدا سے ہی جس جانور نے انسان کے لیے سب سے زیادہ آسانیاں پیدا کیں وہ گھوڑا ہی ہے۔ دنیا کے جس خطے کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں وہ گھوڑوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ سکندر اعظم کا لشکر پوری دنیا فتح کرنے نکلا یا پھر امیر تیمور کا، مغلیہ سلطنت کی فوج تھی یا سلطنت عثمانیہ کی، ہر کسی کو اپنے ذرائع آمد و رفت کے لیے گھوڑوں کی ضرورت پڑی۔ ماضی کے اوراق کو پلٹا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر اس قبیلے کو مضبوط تصور کیا جاتا تھا جس کے پاس اچھی نسل کے گھوڑے اور مویشی زیادہ تعداد میں ہوتے تھے۔
سلطنت عثمانیہ کے بانی ارطغرل کا قبیلہ بھی گھوڑے پالنے میں مشہور تھا لہذا کسی بھی مذہب کی تاریخ گھوڑوں کے ذکرکے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ انسان نے بے شک بہت ترقی کر لی ہے لیکن ان جانوروں کی اہمیت آج بھی کم نہیں ہوئی۔ آج بھی پہاڑی علاقوں میں ہر قسم کا سازو سامان لے جانے کے لیے گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
ہم چار بجے کے قریب مونہ ڈپو پہنچے تو ارشد صاحب، آفیسرز میس میں ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے ہائی ٹی سے ہماری تواضع کی، یہ خوبصورت آفیسرز میس 1902ء میں بنایا گیا۔ اس کے مین دروازے کے بالکل سامنے انتہائی خوبصورت لان ہے۔ لان کا گہرا سبزہ، اونچے اونچے سایہ دار درخت اور درختوں کے اوپر صاف شفاف نیلا آسمان اس منظر کو اور بھی زیادہ خوبصورت بنا رہا تھا۔ ارشد صاحب نے چائے کا گھونٹ لیا، کپ میز پر رکھا اور لان کے اس پار سنبل کے چار درختوں کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ درخت 1902ء میں اسی وقت لگائے گئے جب یہ آفیسرز مس بنایا گیا۔ یعنی وہ درخت تقریبا 120 سال پرانے تھے، ان درختوں کے پائے کا ڈایا میٹر بہت بڑا تھا۔
ان درختوں کو دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ جب یہ درخت لگائے گئے ہوں گے تو لگانے والوں کو کیا خبر تھی کہ ان درختوں کے سائے سے کتنے سینکڑوں، ہزاروں لوگ مستفید ہوں گے۔ آج وہ ہر درخت اتنا بڑا ہے کہ سینکڑوں لوگ اس کے سائے میں بیٹھ سکتے ہیں۔ ہم بھی اگر اپنی آنے والی نسلوں کو ایسی گھنی چھاؤں دینا چاہتے ہیں تو آج ہمیں بھی ایسے درخت ضرور لگانے ہوں گے کیونکہ یہ بہت بڑا صدقہ جاریہ ہے۔ ارشد صاحب نے ہمارے ریماؤنٹ ڈپو کے وزٹ کے لیے بگھی کا اہتمام کر رکھا تھا۔ جو نہی ہم بگھی پر بیٹھے تو مجھے پی ٹی وی کا ڈرامہ الفا برائیو چارلی یاد آ گیا۔ اس ڈرامہ کی چند اقساط ریماؤنٹ ڈپو میں بنائی گئیں۔ بابا محمد اکرم جو بگھی چلا رہا تھے، میرے پوچھنے پر بتایا کہ وہ 23 سالوں سے یہ بگھی چلا رہے ہیں۔ جس بگھی پر ہم سوار تھے اس کے آگے چار گھوڑے تھے۔
بابا نے بتایا کہ یہاں اس طرح سیر کروانے کے لیے چھ یا زیادہ سے زیادہ آٹھ گھوڑے بگھی کے آگے لگائے جاتے ہیں۔ بگھی چلی تو دائیں بائیں کہیں گھوڑوں کے باڑے دکھائی دیے تو کہیں بھاگتے ہوئے گھوڑے، کہیں وہ ورک شاپس جہاں گھوڑوں کے استعمال کا سامان بنایا جاتا ہے تو کہیں سر سبز و شاداب وسیع میدان۔ خوبصورت سڑک پر چلتے ہوئے گھوڑوں کی ٹپ ٹپ کی آواز اس منظر کو اور بھی حسین بنا رہی تھی۔ بگھی پر سفر کرتے ہوئے مجھے پرنسز آئی لینڈ (استنبول) میں کیا گیا سفر بھی یاد آ گیا جہاں دنیا بھر سے آۓ سیاح بگھیوں کے سفر سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن بگھی کا یہ سفر اس سے کہیں زیادہ اچھا تھا۔
بگھی کی سیر کے بعد ہم نے ایک درخت کے ساتھ بنایا گیا بہت بڑا خوبصورت برڈ ہاؤس (Bird House) دیکھا۔ برڈ ہاؤس دیکھنے کے بعد خوبصورت رستے سے ہوتے ہوئے ہم چند گھوڑوں کے قریب آئے اور ہاتھ پر گڑ رکھ کر انہیں کھلایا یہ بھی ایک شاندار تجربہ تھا۔ ریماؤنٹ ڈپو میں بنایا گیا واہو (WAHO) پارک انتہائی خوبصورت ہے، اس پارک کے بالکل سامنے ہارس (Horse Mesium) میوزیم بنایا گیا ہے، جو دیکھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے درختوں کو کاٹ کر بنایا گیا ہو۔ اس میوزیم پر لکڑی سے کیا گیا کام انتہائی خوبصورت ہے۔ میوزیم میں ایک تاریخی تصویر بھی آویزاں ہے جس میں قائد اعظم محمد علی جناح، خان لیاقت علی خان اور فاطمہ جناح گھوڑوں پر بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تصویر ان کے ریماؤنٹ ڈپو کے وزٹ پر بنائی گئی۔
ایک ایسی بگھی بھی موجود ہے جس پر یہاں ملکہ الزبتھ اور قائد اعظم محمد علی جناح نے سواری کی۔ WAHO ورلڈ عریبین ہارس آرگنائزیشن کا مخفف ہے، یہ واہو پارک اور واہو میوزیم دور سے دیکھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ سویٹزر لینڈ کے کسی علاقے میں موجود ہوں۔ اس پارک کے بالکل ساتھ مختلف انواع کے پودوں کی نرسری موجود ہے۔ ریماؤنٹ ڈپو میں دیہاتی کلچر کو اجاگر کرنے کے لیے مٹی کا ایک گھر بھی بنایا گیا ہے، گھر اور دیہات میں استعمال ہونے والی وہ تمام اشیاء بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں جو وہاں رکھی گئی ہیں۔
ریماؤنٹ ڈپو کے پولو گراؤنڈ کو دیکھ کر انسان اس کی خوبصورتی کے سحر میں گم ہو جاتا ہے۔ پویلین کے چھت پر کھڑے ہو کر میں نے خوبصورت پولو گراؤنڈ کا نظارہ کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے اپنی آنکھیں بند کیں اور اس منظر کو ہمیشہ کے لیے اپنے دماغ کے ایک کونے میں محفوظ کر لیا۔ جونہی ہم پویلین کی سیڑھیاں اتر رہے تھے تو مسجد کے اسپیکر سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی اور ہم مغرب کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں آ گئے۔ مسجد کی خوبصورتی اور صفائی کا انتظام بھی حیران کن تھا۔
ریماؤٹ ڈپو کے گردونوح میں چونکہ عیسائی اور ہندو کمیونٹی بھی موجود ہے لہذا مسجد سے کچھ فاصلے پر ان کی عبارت گاہیں بھی موجود ہیں جہاں وہ اپنی بھی مذہبی رسومات اپنے عقائد کے مطابق مکمل آزادی کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں۔ جب آسمان پر سیاہی چھانے لگی تو ریماؤنٹ ڈپو کی حسین یادوں کے ساتھ ہم نے ارشد صاحب سے اجازت لی اور گھر کی طرف چل دی ہے۔ ریماؤنٹ ڈپو کی خوبصورتی کو ہم اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک ہم اسے خود نہیں دیکھ لیتے۔