Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Genting Highlands Main Khubsurat Chinese Temple

Genting Highlands Main Khubsurat Chinese Temple

گینتنگ ہائی لینڈ میں خوبصورت چائنیز ٹیمپل

یہ چائنیز ٹیمپل کوالاالمپور کے شمال میں ایک پرفضا مقام پر اس وقت بنا، جب بیسویں صدی کے آخر میں گینتنگ ہائی لینڈ (Genting Highlands)کو بطور ایک تفریحی پہاڑی علاقہ بنایا گیا۔ چونکہ گینتنگ ہائی لینڈ کو بنانے والے زیادہ تر چائنیز ہی تھے اس لیے انہیں یہاں اپنی عبادت گاہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ لہذا انہوں نے اس خوبصورت علاقے میں چائنیز کلچر کے مطابق یہ ٹیمپل بنایا۔

شروع میں تو صرف چائنیز ہی اس ٹیمپل میں آتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی اور یوں یہ ٹیمپل ایک عبادت گاہ کے علاوہ سیاحتی مقام کے طور پر بھی مشہور ہوگیا۔ چینی باشندے چونکہ زیادہ تر مہاتما بدھ کے پیروکار ہیں اس لیے انہوں نے اتنی بلند چوٹی پر بھی بدھا کا ایک شاندار مجسمہ اور خوبصورت ٹیمپل بنا کر کمال کر دیا۔

مہاتما بدھ کا تعلق ہندوستان کی ان تاریخی شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا کو اخلاقی اصولوں پر مبنی ایک نیا فلسفہ اور روشنی کی راہ دکھائی۔ بدھا کی پیدائش 563 قبل مسیح میں"لمبنی پورو" جو کہ نیپال کا شہر ہے، میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی زندگی بہت شاہانہ گزاری لیکن پھر اس زندگی کو ترک کرکے روحانی روشنی کی تلاش میں نکل پڑے۔ سالوں کی مسلسل محنت، مشکلات اور تھکاوٹ کے بعد انہیں زندگی کا اصل فلسفہ سمجھ آیا اور اپنی باقی زندگی اسی فلسفے کی تبلیغ کرتے گزار دی۔

مہاتما بدھ کی بنیادی تعلیمات دراصل عملی اصولوں پر مبنی تھی جس میں رحم دلی، دائمی شکر گزاری، اخلاقیات اور دوسروں کی خوشی کی فکر شامل تھی۔ بدھا کا انتقال 483 قبل مسیح میں ہوا لیکن ان کی تعلیمات نے بے شمار لوگوں کو متاثر کیا۔ آج بھی دنیا میں 520 ملین سے زائد لوگ مہاتما بدھ کے پیروکار ہیں اور بدھ ازم دنیا کا چوتھا بڑا مذہب ہے۔

ہم تقریبا تین بجے کیبل کار کے ذریعے گینتنگ ہائی لینڈ سے چائنیز ٹیمپل پر پہنچے۔ چینیوں نے اپنے ملک میں ترقی کرکے تو دنیا کو حیران کیا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ چائنیز نے دنیا کے جس خطے میں بھی قدم رکھا کمال کر دیا۔ اس پہاڑی راستے پر جہاں سڑک کے ذریعے اس ٹیمپل تک پہنچنا مشکل تھا وہاں انہوں نے نہ صرف کیبل کار نصب کر دی بلکہ جہاں وہ چیئر لفٹ ختم ہوتی ہے اس سے اگے سیاحوں کی آسانی کے لیے ایکسیویٹرز لگا دیے۔ ہم انہی ایکسٹیویٹرز کے ذریعے ہی اس ٹیمپل تک پہنچے۔

پہاڑ کے دامن میں وہ چائنیز ٹیمپل طرز تعمیر کا عظیم شاہکار ہے۔ ایک طرف مندر ہے اور دوسری طرف پہاڑ کے بالکل ساتھ مہاتما بدھ کا بہت بڑا مجسمہ۔ اس مجسمے کے بالکل ساتھ بدھ مت کے عقیدے کے مطابق جنت اور دوزخ کا تصور بھی مورتیوں کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ بدھا کی تعلیمات کے مطابق اگر کوئی چوری کرے گا تو اسے جو سزا ملے گی، کوئی جھوٹ بولے گا، خیانت کرے گا، جو کوئی قتل کا مجرم ہوگا! انہیں کون کون سی سزائیں ملیں گی، ان تمام برے اعمال کی سزائیں وہاں مورتیوں کی صورت میں دکھائی گئی تھیں۔ اسی طرح اچھے کام کرنے کے نتیجے میں انسان کو جو انعامات ملیں گے انہیں بھی وہاں دکھایا گیا تھا۔

دوسرے لفظوں میں وہاں جنت اور جہنم کا تصویری خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ ساجد خان بطور بہت نفیس اور اور با علم شخصیت ہیں، وہ پاکستان میں ڈیوو کمپنی میں بطور سی ای او کام کر رہے ہیں۔ اس ٹور میں وہ بھی ہمارے ساتھ تھے جن کا تفصیلا ذکر میں اگلے کسی کالم میں کروں گا۔ وہ وہاں موجود ایک دوست کو کہنے لگے کہ اب آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ایک دوست کی وجہ سے جہنم دیکھنا پڑی۔ وہاں کا موسم بہت اچھا تھا، یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم مری جیسے کسی علاقے میں گھوم رہے ہوں۔ کبھی وہ ٹیمپل بادلوں میں چھپ جاتا تو کبھی چمکتی دھوپ نکل آتی۔

میں تھوڑی دیر کے لیے وہاں بدھا کے مجسمے کے قریب ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ اس کے بالکل سامنے ایک بہت بڑی گھٹی نصب تھی جہاں بدھ مت کے ماننے والے پیروکار آتے، رسے کو کھینچ کر گھنٹی بجاتے اور ہاتھ جوڑ کر دعا کرتے۔ اس گھنٹی سے ذرا فاصلے پر وہ ٹیمپل تھا جہاں چائنیز اپنی عبارت میں مصروف تھے۔ ان کے ہاتھوں میں اگر بتیوں کی طرح لمبی لمبی اسٹکس تھیں جن سے دھواں نکلتا نظر آ رہا تھا۔ وہ ان اسٹکس کو ٹیمپل میں ایک مخصوص جگہ پر لگاتے اور پھر ہاتھ باندھ کر دعا کرنے لگتے۔

گینتنگ ہائی لینڈ کو دیکھنے کے لیے ہم باتو کیوز سے تقریبا دن 11 بجے نکلے اور بس کے ذریعے 12 بجے کوالاالمپور کے شمال میں اس پرفضا مقام پر چیئر لفٹ کے مین اسٹیشن پہنچے۔ گروپ کے تمام شرکاء کے چیئر لفٹ کے ٹکٹس گائیڈ پہلے ہی لے چکا تھا۔ ہم جس کیبل کار کے ذریعے گینتنگ ہائی لینڈ پر جا رہے تھے وہ تقریبا ساڑھے تین کلومیٹر لمبی تھی۔ کیبل کار دنیا کے اکثر ممالک کے پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہیں لیکن ملائشیا کی یہ چیئر لفٹ اپنی زیادہ لمبائی کی وجہ سے بھی منفرد تھی۔ ہم جب کیبل کار کے ذریعے اونچائی پر جا رہے تھے تو اس کے نیچے ہر طرف گھنا جنگل دکھائی دے رہا تھا۔

ہماری اس کیبن میں علی عباس، وسیم نور اور مزید دو دوستوں کے علاوہ علی عباس کے بھائی بھی تھے جو ملائشیا میں ہی کئی سالوں سے سیٹل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گینتنگ ہائی لینڈ کا سارا علاقہ چائنیز نے ہی بنایا اور پہاڑ کی چوٹی پر دنیا کا سب سے بڑا ہوٹل بنا کر انہوں نے کمال کر دیا۔ یہ بات واقعی حیران کن تھی کہ پہاڑ کی چوٹی پر اتنا بڑا ہوٹل کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ خیر 15-20 منٹ کی مسافت کے بعد ہم سیدھا اس شاپنگ مال میں آ کر رکے جو پہاڑ کی چوٹی کے کنارے پر بنایا گیا تھا۔ یہ بھی ایک حیران کن تجربہ تھا، یہ شاپنگ مال اتنا بڑا تھا کہ دنیا کا ہر برانڈ وہاں موجود تھا۔

گینتنگ ہائی لینڈ پر پہنچنے تو سب سے پہلے ہم نے کے ایف سی سے لنچ کیا۔ میرا یہ خیال تھا کہ دنیا میں ہر جگہ کسی بھی فوڈ برانڈ کا ٹیسٹ ایک جیسا ہی ہوتا ہے لیکن یہاں کے ایف سی کا ذائقہ مجھے پاکستان میں موجود برانڈ سے بالکل مختلف محسوس ہوا۔ خیر ہم لنچ کرکے اللہ کا شکر ادا کیا۔ وہ گائیڈ ہمیں اس شاپنگ مال کے مختلف حصے گھماتا ہوا سب سے اوپر والے فلور میں لے آیا جہاں دنیا کا سب سے بڑا ہوٹل ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ گائیڈ نے بتایا کہ اس ہوٹل کے کل 7400 کمرے ہیں جس میں ہر کمرے کا کرایہ تقریبا پاکستانی 60 لاکھ روپے ہے۔ لیکن حیرانی کی بات یہ تھی کہ اس کے باوجود وہاں کمرہ لینے کے لیے آپ کو پہلے بکنگ کروانی پڑتی ہے ورنہ رش زیادہ ہونے کی وجہ سے کمرہ نہیں ملتا۔

ہم نے صرف اس ہوٹل کے سامنے کھڑے ہو کر ایک تصویر بنانے پر ہی اکتفا کیا۔ اس ہوٹل کے بالکل سامنے کچھ فاصلے پر وہ چیئر لفٹ دکھائی دے رہی تھی جس کے ذریعے ہم یہاں پہنچے تھے اور اس سے لفٹ کے بالکل پیچھے وہ بلند پہاڑ دکھائی دے رہا تھا جس کی چوٹی پر برف جمی تھی۔ گائیڈ نے بتایا کہ گنتنگ ہائی لینڈ میں سب سے پہلے ایک بہت بڑا کیسینو بنایا گیا جہاں دنیا بھر کے جواری جوا کھیلنے کے لیے آتے تھے۔ اس وقت یہاں صرف ہیلی کاپٹر کے ذریعے امیر لوگ ہی آتے تھے۔

بیسویں صدی کے آخر میں چائنیز کی مدد سے جب ملائشیا کی حکومت نے یہاں یہ ریزارٹ اور بڑا شاپنگ مال بنایا تو سیاحوں کی آسانی کے لیے سڑک کے ساتھ ساتھ ایشیا کی سب سے لمبی کیبل کار بھی نصب کر دی گئی، تاکہ دنیا بھر سے آنے والے سیاح آسانی سے یہاں پہنچ سکیں اور قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ملائشیا میں گینتنگ ہائی لینڈ وہ واحد جگہ ہے جہاں جوا قانونی قرار دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا بھر کے جواری جوا کھیلنے یہیں آتے ہیں۔

سٹار بکس جیسے بڑے برانڈ سے لے کر ملائشیا کی لوکل پروڈکٹ تک یہاں سب کچھ ملتا ہے۔ ہم نے تین گھنٹوں میں شاپنگ مال کا بمشکل کچھ ہی حصہ دیکھا، اسے مکمل دیکھنے کے لیے ایک دن بھی کم تھا۔ اس شاپنگ مال کی ایک دیوار کے ساتھ کیبل کار کا چھوٹا سا اسٹیشن تھا اور وہیں سے ہم کیبل کار کے ذریعے چائنیز ٹیمپل پہنچے تھے۔ جوں جوں شام کا وقت قریب ہو رہا تھا ٹیمپل میں بھی ٹھنڈ بڑھتی محسوس ہو رہی تھی۔ لہذا ہم نے واپسی کا راستہ لیا اور سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ہی ہوٹل پہنچ گئے۔ ملائشیا میں پہلے دن ہم نے صدیوں پرانی باتو کیوز اور گینتنگ ہائی لینڈ دیکھا اور یہ دونوں جگہیں واقعی دیکھنے کے قابل تھی۔

Check Also

Masjid e Aqsa Aur Deewar e Girya

By Mubashir Ali Zaidi