Gebele Mein Guzra Aik Din
گبالا میں گزرا ایک دن
یہ 17 جولائی سوموار کا دن تھا، باکو میں ہلکی ہلکی بارش کی وجہ سے موسم انتہائی خوشگوار ہو چکا تھا۔ قریب 11 بجے ہم اٹلس ہوٹل سے گبالہ کا علاقہ دیکھنے کے لیے نکلے، باکو میں صفائی تو ویسے بھی کمال کی تھی لیکن بارش کے بعد یہ شہر اور بھی حسین دکھائی دے رہا تھا۔ کہیں رشین طرز کی سفید پرانی عمارتیں دھلی دھلی دکھائی دے رہی تھیں اور کہیں بلند و بالا جدید پلازے شہر کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔
باکو سے گبالہ کا فاصلہ تو تقریبا 217 کلومیٹر ہے لیکن پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ سفر تقریبا پانچ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ باکو اور گبالہ کو ہائی وے کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑا گیا ہے لیکن وہ ہائی وے ہماری موٹروے کا مقابلہ نہیں کرتی۔ جونہی ہم باکو سے نکل کر ہائی وے پر پہنچے تو دائیں جانب ہمیں بے شمار نیلے رنگ کے بڑے بڑے گودام دکھائی دیے۔
حسنین نے بتایا کہ یہ باکو شہر کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، دنیا بھر سے یہاں ہر طرح کی چیز درآمد کی جاتی ہے اور پھر ملک کے مختلف حصوں میں پہنچائی جاتی ہے۔ گزشتہ روز حسنین نے اپنی کمپنی کے لیے یو پی وی سی (uPVC) روف شیٹ خریدنے کی خاطر یہاں کا وزٹ کیا تھا۔ حسنین کے والد نے لاہور میں (uPVC) پلاسٹک پائپ کی ایک فیکٹری لگا رکھی ہے اور حسنین کے باکو کے وزٹ کا مقصد بھی اپنی کمپنی کے لیے یہاں سے کچھ مٹیریل دیکھنا ہی تھا۔
ہلکی ہلکی بارش جاری تھی اور ہماری گاڑی ہائی وے پر رواں دواں تھی۔ ہائی وے کے بائیں جانب بحرقزوین کا گہرا نیلا پانی تاحد نگاہ دکھائی دے رہا تھا، جگہ جگہ ہمیں سمندر سے تیل نکالنے کے لیے لگائے گئی مشینری دکھائی دے رہی تھی۔ آذربائجان میں تیل اور گیس چونکہ وافر مقدار میں ہے اس لیے ہمیں باکو اور اس کے ارد گرد جگہ جگہ تیل اور گیس کے پائپ دکھائی دیتے ہیں۔ باکو سے گبالہ جاتے ہوئے ہماری گاڑی ہائی وے پر مسلسل 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی جونہی ہماری گاڑی بحرہ قزوین سے دور ہوئی تو سرسبز و شاداب علاقہ شروع ہوگیا، جگہ جگہ ہمیں انگور کی بیلوں کے باغات دکھائی دیے۔
ہماری گائیڈ نے بتایا کہ یہاں انگور بڑی تعداد میں کاشت کیے جاتے ہیں جن سے عمدہ قسم کی وائن تیار کی جاتی ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں برآمد کی جاتی ہے۔ پنڈی بھٹیاں سے لاہور کی طرف نکلیں تو موٹروے کے دائیں بائیں ہمیں دور دور تک لہلہاتے کھیت دکھائی دیتے ہیں، اسی طرح اس ہائی وے کے ساتھ ساتھ ہر سو سبزہ ہی سبزہ تھا، کہیں چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں شروع ہو جاتی تو کہیں وسیع میدان۔ دو بجے کے قریب دن کےکھانے کے لیے ہم ایک تاریخی پارک میں رکے۔
مرواری نے ہمیں بتایا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران رشین افواج نے اتحادی فوجوں کے خلاف جوابی کاروائیوں کا آغاز اسی پارک سے کیا تھا اور یہیں سے آگے بڑھتے ہوئے انہوں نے اتحادی فوج کو شکست دی تھی۔ یہ پارک 1941ء سے بھی پہلے بنایا گیا تھا، اس پارک کے درمیان ایک بہت شاندار ریسٹورنٹ تھا جہاں ہم نے دن کا کھانا کھایا۔ لنچ کے بعد گاڑی کے ذریعے جب ہم اس پارک سے آگے نکلے تو پہاڑی علاقہ شروع ہوگیا اور ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے ہم مری کے علاقے میں آ گئے ہوں۔ جوں جوں ہم پہاڑ کے اوپر جا رہے تھے موسم سرد ہوتا جا رہا تھا۔
قریب چار بجے ہم گبالہ کے پرفضا مقام پر پہنچ گئے۔ یہ علاقہ بلند و بالا پہاڑوں اور درختوں سے بھرا پڑا تھا، ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ پہاڑوں پر سفید بادل ہوا میں تیرتے دکھائی دے رہے تھے، اس پرفضا مقام پر سیاحوں کے لیےچھوٹے چھوٹے خوبصورت ریسٹورنٹ بنائے گئے ہیں۔ پیدل چلتے ہوئے ہم اس مقام پر آگئے جہاں سے ہم نے چیئر لفٹ کے ذریعے پہاڑی کی بلندی تک جانا تھا۔ ہم چونکہ پہلے ہی لیٹ ہو چکے تھے اس لیے وقت ضائع کیے بغیر ہم نے ٹکٹ لیے اور چیئر لفٹ میں سوار ہو گئے۔ عدیل آذربائجان میں ہمارے ہمسفر تھے جو 50 ممالک سے زائد کا سفر کر چکے ہیں، بتانے لگے کہ اس طرح کی کیبل کار میں نے یورپ میں بھی نہیں دیکھی، یہ واقعی شاندار تھی۔ ہم پہاڑ پر اس کیبل کار کے درمیانی اسٹیشن پر اترے، باہر ہلکی ہلکی پھوار ہو رہی تھی، وہاں سے علاقے کا نظارہ دیدنی تھا۔ کچھ دیر وہاں کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد اور ہم دوبارہ چیئر لفٹ کے ذریعے پہاڑ کے آخری اسٹیشن پر آ گئے، وہاں اتنی دھند تھی کے قریب کے پہاڑ بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
پہاڑ کی اس چوٹی پر ایک چھوٹا سا کیفیٹیریا بنا ہوا تھا یہاں ہم دوست کافی سے لطف اندوز ہوئے۔ شام پانچ کا وقت ہو چکا تھا، ایک زوردار گھنٹی بجی جس کا مطلب تھا کہ جتنے بھی ٹورسٹ کیبل کار کے ذریعے نیچے جانا چاہتے ہیں وہ جلدی آ جائیں، ہم نے کافی کے کپ اٹھائے اور تیزی سے کیبل کار کی طرف چل دیے۔ اس چیئر لفٹ کے عملے کے تین لڑکے (ورکر) بھی ہمارے ساتھ سوار ہو گئے اور اس کیبل کار کے ذریعے نیچےکی طرف چل پڑے۔ دھند کے باعث ہم ٹھیک طرح بلندی سے اس علاقے کا نظارہ نہ کر سکے۔ آذربائجان کا علاقہ گبالہ واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا۔
کیبل کار سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم گباکہ سے پانچ کلومیٹر دور مشرق کی جانب ایک جھیل دیکھے آ گئے جو انتہائی خوبصورت تھی۔ اس کا نام نوہار لیک (Nohur Lake) ہے، یہ جھیل بڑے بڑے پہاڑوں کے گرد گھیری ہے۔ اس جھیل کی گہرائی 24 میٹر ہے۔ نوہار لیک میں سیاحوں کی تفریح کے لیے چھوٹی چھوٹی موٹر بورڈز تھیں جن سے وہ لطف اندوز ہو رہے تھے۔ پہاڑوں کے درمیان جھیل کا سبز پانی اور ڈوبتے ہوئے سورج کا نظارہ اس منظر کو اور بھی خوبصورت بنا رہا تھا۔ اس جھیل کے آس پاس بھی چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹس بنے تھے۔
ہمارے گروپ کے کچھ دوست جب نوہار لیک میں بوٹنگ کر رہے تھے تو ہم اس وقت جھیل کے کنارے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے آذربائجان کی مشہور سوغات بکھلاوا سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ہم جب بھی کسی نئی جگہ جاتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت رک سا گیا ہو، ہمیں وہ لمحے، وہ دن، وہ عرصہ عام دنوں سے لمبا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے ہمارے بچپن کے دن ختم ہی نہیں ہوتے تھے اور راتیں بھی لمبی محسوس ہوتی تھیں۔ سکول میں ایک پیریڈ کا دورانیہ بھی بہت لمبا لگتا تھا، ایسے ہی گراؤنڈ میں کھیل کے دوران گزرا وقت بھی ختم نہیں ہوتا تھا۔ سکول سے چھٹیوں کے دوران اپنے کسی رشتہ دار کے گھر گزارے ہوئے وہ چند دن یا کسی گاؤں کی شادی میں شرکت کے دوران گزارے وہ تین چار دن بھی بہت لمبا عرصہ محسوس ہوتا تھا۔
ایسا کیوں ہوتا تھا؟ شاید اس کی وجہ ایک نیا تجربہ، نئی جگہ کا دیکھنا، تجسس اور نئے نئے واقعات کا ہونا تھا لیکن جب ہم بڑے ہو کر ایک روٹین کا کام کرنے لگتے ہیں تو وہی وقت ہمیں بھاگتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔ صبح کب ہوتی ہے اور شام کب پتا ہی نہیں چلتا۔ حالانکہ دن تو وہی 24 گھنٹے کا ہوتا ہے، گھنٹے میں بھی 60 منٹ ہی ہوتے ہیں لیکن شاید ہم بڑے ہو کر اس تجسس سے چیزوں کو نہیں دیکھتے، کچھ نیا نہیں سیکھتے، بس ایک روٹین ورک ہوتا ہے، اس لیے وقت ہمیں تیزی سے گزرتا محسوس ہوتا ہے۔
میرا بھی روٹین کا دن کام میں بہت تیزی سے گزرتا ہے لیکن مجھے کسی نئے سفر میں گزرا ایک دن ایک ہفتہ اور ایک ہفتہ ایک مہینہ محسوس ہوتا ہے شاید یہی وجہ تھی کے گبالہ میں گزرا ایک دن بہت بڑا تھا۔ گباکہ کے پارک میں کیا گیا لنچ، کیبل کار سے علاقے کا نظارہ، پہاڑ کی بلندی پر شدید دھند میں وہ کافی، نوہار لیک کی خوبصورتی اور گبالہ کی وہ شام ہمیشہ یاد رہے گی۔