Colombo Mein Guzra Aik Din
کولمبو میں گزرا ایک دن
15 فروری کو جونہی ہم کولمبو ایئرپورٹ پر پہنچے تو وہاں کا موسم گرم محسوس ہوا جبکہ یہاں پاکستان میں اس وقت اچھی بھلی سردی تھی۔ سری لنکا کو میں اس کی کرکٹ ٹیم، چائے کے باغات اور ہاتھیوں کی وجہ سے جانتا تھا لیکن کولمبو ایئرپورٹ پر پہنچتے ہی اس کا ایک نیا تعارف ایئرپورٹ پر موجود امیگریشن کے عملے نے کروایا۔ کولمبو میں ہمارے گروپ کا 22 گھنٹے کا ٹرانزٹ تھا، اس لیے ہم ٹرانزٹ کے فارمز پر کرکے امیگریشن آفیسر کے پاس پہنچ گئے۔ اس نے ہمیں اس فارم کو کسی سیکیورٹی آفیسر کے دستخط کروانے کے لیے بھیج دیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ہم میں سے ہر بندہ وہاں اس سیکیورٹی آفیسر کو ڈھونڈ رہا تھا جبکہ وہ صاحب ایک طرف کونے میں کھڑا تھا اور وہیں کھڑے کھڑے ان فارمز پر دستخط کر رہا تھا۔ خیر دستخط کروانے کے بعد ہم واپس امیگریشن آفیسر کے پاس آئے اور وہ وہاں مینول سسٹم کے تحت چیکنگ کر رہا تھا۔
اس امیگریشن آفیسر کا رویہ آنے والے تمام سیاحوں کے ساتھ ایسا تھا جیسے وہ سری لنکا میں انٹری کی مہر لگا کر سب پر احسان کر رہا ہو۔ علی عباس پاکستان کے نامور ٹرینر اور سیاح ہیں، وہ بھی اس گروپ میں بحیثیت ٹرینر شامل تھے۔ امیگریشن کے لیے وہ مجھ سے پہلے اس آفیسر کے پاس گئے، انہوں نے اس آفیسر کو کہا کہ آپ انٹری کی مہر اس جگہ لگا دیں جہاں پہلے مہریں لگی ہیں تاکہ پاسپورٹ کے باقی صفحات خراب نہ ہوں اور میں مختلف ممالک کے ویزے ان صفحات پر لگوا سکوں۔ اس چھوٹی سی بات پر وہ آفیسر طیش میں آگیا اور کہنے لگا کہ آپ کو میں واپس پاکستان نہ بھیج دوں۔ اس بات سے آپ وہاں موجود عملے کی خوش اخلاقی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ خیر ہم امیگریشن کلیئر کروانے کے بعد ایئرپورٹ پر موجود ایک انتظار گاہ میں آ کر بس کا انتظار کرنے لگے جس نے ہمیں ایئرپورٹ سے ہوٹل لے کر جانا تھا۔
وہاں بیٹھے میں سوچ رہا تھا کہ ہر وہ ملک جہاں کرپشن ہے اور وہ قوم جو ترقی نہیں کرنا چاہتی وہاں تمام ادارے ابھی بھی مینول سسٹم پر ہی چل رہے ہیں، جبکہ ہر ترقی پسند ملک اب ہر جگہ مینول سے کمپیوٹرائز سسٹم اور سکیننگ پر آ چکا ہے۔ ہم جب بھی کسی اچھے ملک میں جاتے ہیں وہاں امیگریشن کے لیے صرف پاسپورٹ کو اسکین اور ہینڈ پرنٹس لیے جاتے ہیں۔ یہ پروسیس صرف دو منٹ کا ہوتا ہے لیکن ہر وہ ملک جہاں کرپشن ہے وہاں آنے والے ہر مسافر کو خوار کیا جاتا ہے۔ ویسے تو میں نے سن رکھا تھا کہ سری لنکا میں لٹریسی ریٹ بہت زیادہ ہے اور یہاں کے لوگ بہت ملنسار ہیں لیکن ایئرپورٹ پر موجود عملے کے رویے سے یہ تاثر بالکل زائل ہوگیا۔ خیر قریب دن 11 بجے ہم بس میں سوار ہوئے اور ایئرپورٹ سے ہوٹل کی طرف چل دیے۔
میاں قاسم نے ٹریول بار کے نام سے ایک ٹورسٹ کمپنی بنا رکھی ہے۔ وہ 32 لوگوں کا ایک گروپ لیکر چار ممالک سری لنکا، ملائشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ کی سیاحت کے لیے 15 فروری کو سری لنکا پہنچا۔ میں بھی اس گروپ میں شامل تھا، میاں قاسم کے ساتھ میں اس سے پہلے مصر کا ٹور کر چکا تھا۔ میاں صاحب جب بھی کسی ملک کے لیے گروپ ٹور کا بندوبست کرتے ہیں تو اس گروپ کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مثبت سوچ رکھنے والی بڑی شخصیت کو اپنے گروپ میں ضرور لے کر جاتے ہیں۔ تاکہ گروپ میں جانے والے باقی شرکاء ان سے بہت کچھ سیکھ سکیں۔ مصر کے گروپ میں نامور موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ ساتھ تھے جبکہ اس ٹور میں معروف اینکر پرسن اسد اللہ خان اور ٹرینر علی عباس شامل تھے۔ جونہی ہم ایئرپورٹ سے نکل کر ہوٹل کی طرف جانا شروع ہوئے تو سڑک کے ساتھ ساتھ مجھے ریلوے ٹریک دکھائی دیا۔
میں سمجھتا تھا کہ ہم نے پاکستان میں ہی ریلوے نظام کا بیڑا غرق کیا ہے جبکہ سری لنکا والے ہم سے اس میں آگے نکل گئے، اس ریلوے ٹریک کا حال بہت ہی برا تھا۔ مجھے اس ریلوے لائن پر ایک ٹرین بھی دکھائی دی جس کی بوگیاں انتہائی بوسیدہ حال تھی۔ راستے میں کہیں کہیں جو عمارتیں نظر آ رہی تھیں وہ بھی کچھ زیادہ اچھی نہ تھیں۔ تھوڑا سفر کرنے کے بعد ہم ایک گنجان آباد علاقے میں آگئے جسے دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ ملک ماضی قریب میں ڈیفالٹ رہا ہے، کیونکہ مجھے جو لوگ بھی دکھائی دیے ان کا لیونگ سٹائل کچھ زیادہ شاندار نہ تھا۔ البتہ مجھے کافی سکول دکھائی دیے، چھٹی کا وقت تھا اور جگہ جگہ بچے سکولوں سے نکل کر واپس گھروں کو جا رہے تھے، سکولوں کی تعداد سے میں نے اندازہ لگایا کہ واقعی یہاں کا لٹریسی ریٹ کافی زیادہ ہوگا۔ ایک اور بات جو میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ جگہ جگہ مندر، چرچ اور مہاتما بدھ کے مجسے دکھائی دے رہے تھے یعنی ایسا نہیں تھا کہ کوئی ایک علاقہ صرف ایک مذہب کے ماننے والوں کے لیے مخصوص تھا۔
ایک ہی جگہ مندر بھی تھا چرچ بھی اور ٹیمپل بھی۔ دن کے ایک بجے ہم ہوٹل پہنچے۔ یہ ہوٹل سمندر کے کنارے پر بنایا گیا تھا، دن کا کھانا ہم نے ہوٹل کے ریسٹورنٹ ایریا میں کھایا۔ ہوٹل سے چند قدموں کے فاصلے پر سمندر تھا، میں نے سامان کمرے میں رکھا اور چند لمحوں کے لیے سمندر کے کنارے آ گیا۔ اس وقت وہاں اتنی گرمی تھی کے کھڑے ہونا مشکل تھا لیکن پانچ منٹ بعد ہی بادل آ گئے اور موسم خوشگوار محسوس ہونے لگا۔ کولمبو کے موسم کی خاص بات یہی ہے کہ وہاں موسم زیادہ دیر گرم نہیں رہتا، خیر دن کے تین بجے ہمارا گروپ کولمبو کے سٹی ٹور کے لیے نکل پڑھا۔ ہمارا ٹور گائیڈ ایک سری لنکن تھا جس کی انگریزی بہت اچھی تھی۔ وہ چلتی بس میں ہمیں کولمبو کی مشہور جگہوں کے بارے میں بتا رہا تھا اور ساتھ ساتھ کولمبو اور سری لنکا کی تاریخ کے بارے میں۔
سب سے پہلے وہ ہمیں کولمبو کا لوٹس ٹاور دکھانے لے آیا، لوٹس ٹاور کو کولمبو کی علامتی عمارت بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ٹاور تقریبا 350 میٹر بلند ہے جو ساؤتھ ایشیا کی بلند ترین عمارت سمجھا جاتا ہے۔ اس کا ڈیزائن لوٹس کے کھلے ہوئے پھول کی مانند ہے، یہ سیاحوں کے لیے بہت مشہور سیاحتی مقام ہے جو 2019 میں مکمل ہوا۔ اس ٹاور سے پورے کولمبو شہر کو 360 کے زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی بڑے شہر میں چلے جائیں وہاں کوئی نہ کوئی ایسی بلند عمارت ضرور دکھائی ہوتی ہے جس سے اس سارے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس ٹاور کو دیکھانے کے بعد ہمارا گائیڈ ہمیں ملکہ وکٹوریہ کے نام پر بنائے گئے ایک پارک میں لے آیا، اس پارک کی خاص بات یہ تھی کہ تو وہاں بدھا کا سنہری رنگ کا ایک بہت بڑا مجسمہ نصب تھا۔ اس مجسمے کے سامنے ایک چبوترا تھا جہاں ایک بوڑھی عورت دیے روشن کر رہی تھی، عبادت گاہوں یا درگاہوں میں دیے روشن کرنے کا تصور شاید دنیا کے ہر مذہب میں کسی نہ کسی طرح موجود ہے۔
مہاتما بدھ کے مجسمے کے سامنے بھی کچھ لوگ دیے روشن کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں پھول بھی چڑھا رہے تھے۔ وہ پارک انتہائی خوبصورت تھا، اس پارک کے بالکل سامنے ایک سفید رنگ کی عمارت تھی جو بالکل وانشنگٹن کے وائٹ ہاؤس کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ کولمبو شہر کی بلدیہ کی عمارت ہے اور اسے کولمبو کا وائٹ ہاؤس کہا جاتا ہے۔ سری لنکا چونکہ کرکٹ لور نیشن ہے اس لیے کولمبو شہر میں جگہ جگہ کرکٹ کے گراؤنڈ اباد دکھائی دی ہے۔ گائیڈ نے ہمیں کولمبو کا انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم بھی دکھایا، آرمی، نیول اور ایئر چیف کے ہاؤسز بھی۔ وہاں کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم سمندر کے کنارے ایک چائے کی بہت بڑی دکان کی طرف چل دیے۔ سری لنکا چائے پیدا کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے، یہاں چائے کی 300 ملین کلو گرام سے زیادہ سالانہ پیداوار ہے۔ سری لنکا چائے کی پیداوار کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ انیسویں صدی میں جیمز ٹیلر نامی شخص نے پہلی بار انگریزوں کے دور میں سری لنکا میں چائے کی فصل کاشت کرنا شروع کی اور آج وہی سری لنکا دنیا بھر میں چائے کی فروخت کے حوالے سے بہت اہم ملک ہے۔
سمندر کے ساتھ ساتھ کوسٹل ہائی وے ہے، جس پر ہم سفر کر رہے تھے، شام کا وقت تھا اور سورج سمندر کے پانی میں ڈوبتا ہوا دکھائی دے رہا تھا، وہ منظر دیکھنے کے قابل تھا۔ سمندر اور سڑک کے درمیان میں نے ریلوے کا ایک ٹریک اور ریلوے اسٹیشن بھی دیکھا، جہاں مسافروں کا کافی ہجوم تھا۔ یقینا وہ سب کسی ٹرین کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ وہ ریلوے اسٹیشن جہاں ختم ہوا اس کے قریب جا کر ہماری بس رکی اور وہیں وہ چائے کی بڑی دکان تھی جہاں خریداری کے لیے ہمارا گائیڈ ہمیں لے کر آیا تھا۔ دنیا کے ہر ملک میں جب بھی سیاحوں کو سٹی ٹور کروایا جاتا ہے تو وہاں کے لوکل گائیڈز اپنے ملک کی کسی مشہور پروڈکٹ کی خریداری کے لیے ضرور کسی نہ کسی دکان پر لے کر جاتے ہیں تاکہ ان کے ملک کا زر مبادلہ بڑھے۔ سری لنکا چونکہ چائے کی پیداوار کی وجہ سے مشہور ہے اس لیے وہ گائیڈ ہمیں یہاں لایا۔
یہاں چائے کی بے شمار اقسام شیشے کے چھوٹے چھوٹے مرتبانوں میں رکھی گئی تھیں، گائیڈ نے وہاں گروپ کے تمام شرکاء کو اپنی طرف سے چائے پلائی۔ ہم پاکستانی جب تک چائے میں دودھ شامل نہ کریں ہماری چائے نہیں بنتی، لیکن ترکی، سینٹرل ایشیا، عرب ممالک اور سری لنکا کے لوگ چاہے ہمیشہ دودھ کے بغیر ہی پیتے ہیں۔ ہم جو دودھ کی چائے پینے کے عادی ہوتے ہیں ہمیں وہ چاہے کڑوی محسوس ہوتی ہے لیکن اصل چاہے تو وہی ہے جو وہ لوگ پیتے ہیں۔ ہم میں سے کچھ دوستوں نے وہاں سے خریداری کی۔ ڈیفالٹ کے بعد سری لنکا میں مہنگائی بہت زیادہ ہے اس لیے چائے کے ریٹ بھی وہاں بہت ہی زیادہ تھے۔ وہاں آدھا گھنٹہ گزارنے کے بعد ہم کولمبو کی ایک جم مارکیٹ میں آ گئے، جہاں مختلف قیمتی پتھروں سے بنے بے شمار زیورات رکھے گئے تھے۔
اس مصنوعی جیولری کی قیمت سن کر میں حیران رہ گیا، ریٹ اتنے زیادہ تھے کہ شاید ہی ہم میں سے کسی نے وہاں سے کچھ خریدا۔ وہاں سے ہم سیدھا ہوٹل آ گئے اور رات کا کھانا وہیں کھایا۔ کولمبو میں چونکہ سردیاں ختم ہو رہی تھیں اور بہار کی آمد آمد تھی اس لیے وہاں کا موسم شام کے وقت انتہائی خوشگوار تھا لیکن مچھر بھی بے شمار تھے۔ ہم ایک اچھے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود وہاں مچھر اپنا کام پوری ایمانداری سے سر انجام دے رہے تھے۔ میں اپنے کمرے سے نکلا اور ایک دوست کے ساتھ ہوٹل کے قریب ہی ایک دکان سے مچھروں کا لوشن خریدا جو پاکستانی 1400 روپے میں ملا جبکہ وہی لوشن پاکستان میں 200 روپے میں باآسانی مل جاتا ہے۔ اسی طرح وہاں ایک چاکلیٹ بھی پاکستانی 1200 روپے میں ملی، اس سے آپ سری لنکا میں مہنگائی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
ہمارے چار ممالک کے ٹور میں سری لنکا میں یہ ہمارا پہلا دن تھا، اگلی صبح آٹھ بجے ہماری ملائشیا کے لیے فلائٹ تھی۔ سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ ہمارا پاکستان کس قدر خوبصورت ملک ہے۔ ہمارے لوگوں کا لیونگ سٹینڈرڈ بھی سری لنکا جیسے ممالک سے کئی گنا زیادہ اچھا ہے لیکن ہم بحیثیت قوم بس ناشکری میں مبتلا ہیں۔ ہم اکثر اپنے ملک میں بری چیزوں کا رونا تو روتے رہتے ہیں لیکن کسی اچھائی کا ذکر کم کم ہی کرتے ہیں۔ جب ہم سری لنکا جیسا کوئی ملک دیکھ لیں تب ہی ہمیں اپنے ملک کی قدر محسوس ہوتی ہے۔