Book Corner Jhelum Ki 50 Sala Taqreeb
بک کارنر جہلم کی 50 سالہ تقریب
واصف علی واصفؒ نے فرمایا تھا کہ "بڑا انسان وہ ہوتا ہے جس کی محفل میں بیٹھ کر کوئی بھی شخص اپنے آپ کو چھوٹا محسوس نہ کرے"۔ شاید حمید صاحب بھی ایک ایسی ہی شخصیت تھے جن سے مل کر ہر کوئی اپنے آپ کو بڑا محسوس کرتا تھا۔ شاہد حمید مرحوم سے میری پہلی اور آخری ملاقات دسمبر 2018ء میں جہلم میں امجد اسلام امجد کی کتاب "امجد فہمی" کی تقریب رونمائی میں ہوئی تھی۔
سچ کہوں تو یہ میری کم علمی تھی کہ اس وقت مجھے اندازہ نہ تھا کہ میں کتنے عظیم انسان سے مل رہا ہوں۔ ان کی طبیعت میں اتنی عاجزی اور انکساری تھی کہ ہر ملنے والا یوں سمجھتا تھا جیسے کئی سالوں سے وہ اسے جانتے ہوں۔ 13 نومبر پیر کے دن مجھے "بک کارنر جہلم" کے 50 سال مکمل ہونے کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا، یہ جہاں ادارے کی گولڈن جوبلی کی تقریب تھی وہیں اس تقریب میں اس عظیم شخصیت کو خراج تحسین بھی پیش کیا گیا جنہوں نے 1973ء میں"آنہ لائبریری" سے آغاز کرکے اس ادارے کو ملک کا ایک عظیم پبلشنگ ادارہ بنا دیا۔ اس تقریب میں ملک کے نامور ادیبوں، لکھاریوں اور شعراء نے شرکت کی اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
سب سے پہلے عامر خاکوانی نے بک کارنر جہلم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہو جو اتنی خوبصورتی سے کتاب شائع کرتا ہو۔ ایک لکھنے والے کا کام تو اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب وہ اپنا مسودہ پبلشر تک پہنچا دیتا ہے لیکن جس اہتمام سے گگن شاہد اور امر شاہد کتاب کو مرتب کرتے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔
نامور ایجوکیشنسٹ جناب شاہد صدیقی نے کہا کہ سٹیو جابز کا کمال یہ تھا کہ وہ کمپیوٹر کے ظاہری حسن کو ہی نہیں بلکہ اس کمپیوٹر کے اندر لگے ہوئے چھوٹے چھوٹے پرزوں کو بھی دیکھتا، حالانکہ وہ چھوٹے سے پرزے دکھائی تو نہیں دیتے لیکن اس کے باوجود سٹیو جابز ان کی نفاست اور پائداری کا خیال رکھتا، اسی معیار نے اس کے بنائے ایپل فون کو دنیا کا مقبول ترین برانڈ بنا دیا۔ آپ اگر بک کارنر سے چھپنے والی کوئی بھی کتاب دیکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ شاہد حمید بھی اپنے شعبے کے سٹیو جابز ہی تھے۔ کیونکہ کتاب کی پرنٹنگ کے لیے کاغذ کی کوالٹی سے لے کر کتاب کی لکھائی تک، اور سرورق سے لے کر کتاب کی بائنڈنگ تک آپ کو ایک خاص معیار نظر آتا ہے جو شاید حمید کا ہی خاصہ تھا۔
اس تقریب میں نامور کالم نگار اور مصنف جناب اظہار الحق بھی موجود تھے۔ اظہار الحق صاحب سے میرا پہلا تعارف ان کے ایک کالم "میری وفات" پڑھ کر ہوا تھا۔ جسے پڑھنے کا شوق ہے اور اس نے اگر وہ کالم نہیں پڑا تو یقین جانیے اس نے کچھ نہیں پڑھا۔ تقریب میں ملاقات کے دوران میری اظہار الحق صاحب سے ان کی کتاب "عاشق مست جلالی" اور ان کے کالموں پر گفتگو ہوئی۔ اظہار الحق صاحب نے حاضرین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں امر شاہد اور گگن شاہد پبلشر نہیں ہیں، کیونکہ یہ ہمارے ہاں کے پبلشرز کی کسی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔
جہاں توایک مصنف کو اپنی کتاب شائع کروانے کے لیے بہت خواری اٹھانا پڑتی ہے جبکہ لکھاری کو معاوضہ بھی بڑا کم دیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں تو معاملہ ہی کچھ الٹ ہے۔ اگر کوئی لکھاری جب اپنا مسودہ ان دونوں بھائیوں کے پاس لے کر آتا ہے تو آپ یقین کیجئے کہ یہ اس قدر محنت اور لگن سے کتاب کو مرتب کرتے ہیں اور مصنف کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں، گمان ہونے لگتا ہے کہ یہ کہیں مصنف کی جگہ اپنا نام ہی نہ لکھ دیں، کیونکہ اتنی محنت تو کوئی پبلشر کسی مصنف کی کتاب کے لیے نہیں کرتا۔ پھر یہ دونوں بھائی جتنے مہمان نواز ہیں یہ بھی پبلشرز کی خوبیوں کے خلاف ہے، لہذا میرے خیال میں یہ پبلشر نہیں۔ اظہار الحق نے بڑی خوبصورتی سے اس ادارے کے روح رواں گگن شاہد اور امر شاہد کے کام کو سراہا۔
بک کارنر جہلم کی اس 50 سالہ تقریب میں جہلم کی معروف اور مذہبی شخصیت جناب بابا عرفان الحق نے بھی شرکت کی۔ آپ کی شخصیت یقینا کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ بابا عرفان الحق 24 کتابوں کے مصنف ہیں اور ان میں سے ان کی سات کتابیں بک کارنر سے شائع ہوئیں اور مزید تین پر کام جاری ہے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ آج اس تقریب میں جس شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے انہیں میں اپنے جوانی کے زمانے جانتا ہوں۔ وہ اس قدر محنتی انسان تھے کہ انہوں نے ایک چھوٹی سی لائبریری سے کام شروع کرکے، اسے ملک کا سب سے بڑا پبلشنگ ادارہ بنا دیا۔ انہوں نے اپنے کام کے ساتھ ساتھ اپنا ہر رشتہ خوب نبھایا۔ وہ کیسے باپ تھے؟ اور انہوں نے کس طرح اپنی اولاد کی تربیت کی، اس کا اندازہ آپ گگن شاہد اور امر شاہد کو دیکھ کر لگا سکتے ہیں۔ وہ ایک بیٹے، شوہر اور بھائی کی حیثیت سے کمال انسان تھے۔
اس تقریب میں جناب عرفان جاوید بھی موجود تھے، عرفان جاوید ہمارے ملک کے نامور محقق اور لکھاری ہیں۔ جاوید چوہدری صاحب اکثر اپنے کالموں میں ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ دو سال قبل جب میں"بک کارنر جہلم" پر گیا تو گگن بھائی نے مجھے عرفان جاوید کی دو کتابیں"عجائب خانہ" اور "دروازے" دیں۔ عجائب خانہ کتاب پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کی جاوید چوہدری جیسا بڑا لکھاری اپنی تحریروں میں عرفان جاوید کا اکثر ذکر کیوں کرتا ہے۔ بہت ہی کم مصنف ایسے ہوتے ہیں جو اس طرح کا تحقیقی کام کرتے ہیں جیسے عرفان جاوید نے کیا۔ عرفان جاوید صاحب نے اپنا مضمون "سخی" پڑھ کر حاضرین کو سنایا، جس میں انہوں نے جناب شاہد حمید کو اپنے منفرد انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا یہ مضمون جناب شاہد حمید پر لکھے جانے والی نئی کتاب "اے عشق جنوں پیشہ" میں شامل ہے۔
اس تقریب میں ملک کے نامور صحافی وکالم نگار جناب ہارون رشید نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر اس شخص نے اس دنیا میں اپنا نام پیدا کیا جس نے اپنے شعبے میں دوسروں سے منفرد کام کیا۔ بک کانر جہلم بھی اپنے معیاری کام کی وجہ سے اپنا ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ اس ادارے کو یہاں تک پہنچانے میں شاید حمید مرحوم نے بہت محنت کی اور آج گگن شاہد اور امر شاہد جدید تقاضوں کے مطابق اسے بہتر سے بہتر بنا رہے ہیں۔
جسٹس ریٹائرڈ انوار الحق صاحب "قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن" میں"آؤ صلح کروائیں" کے نام سے ایک شاندار کام کر رہے ہیں۔ وہ ان شادی شدہ جوڑوں کی صلح کروانے کی کوشش کرتے ہیں جن کے مقدمات آپس میں ناچاقی کی وجہ سے عدالتوں میں چل رہے ہوتے ہیں۔ جسٹس صاحب کے اس خیر کے کام کی وجہ سے کئی خاندان بکھرنے سے بچ گئے۔ بک کارنر جہلم کی 50 سالہ تقریبات میں انہوں نے اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شاید حمید مرحوم کو میں لڑکپن کے دنوں سے جانتا ہوں۔ وہ بہت ہی نفیس اور باکمال انسان تھے۔ پرنٹنگ پریس چونکہ اسمال انڈسٹریز میں آتا ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب شاید حمید نے جہلم میں پریس لگانے کا ارادہ کیا تو اس کے لیے ابتدائی قانونی پیچیدگیوں کو میں نے ہی دیکھا اور آج اس ادارے کو اس عروج پر دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ یہاں میں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ یہ میرے لیے بھی بہت اعزاز کی بات ہے کہ 2018ء میں میری کتاب "تاشقند سےاستنبول" بھی بک کارنرجہلم سے ہی شائع ہوئی تھی۔ شاید حمید صاحب کیونکہ ہر کتاب کا مسودہ خود پڑھتے تھے اس لیے میری کتاب بھی ان کی نظر سے گزر کر شائع ہوئی۔
اس تقریب میں نامور شاعر جناب شہزاد نیر صاحب بھی موجود تھے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2018ء میں جب میری پوسٹنگ جہاں جہلم میں ہوئی تو دوسرے ہی دن میں"بک کارنر" پہنچ گیا۔ کہنے لگے کہ میں ان خوش نصیب لوگوں میں شمار ہوتا ہوں جن کی جناب شاہد حمید صاحب سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ مجھے اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب میری دوسری ملاقات میں ہی انہوں نے مجھے کہا کہ آپ اچھی شاعری کرتے ہیں۔ دراصل میری پہلی ملاقات کے بعد ہی انہوں نے میری شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ تب مجھے معلوم ہوا جناب شاید حمید نہ صرف بہت زیادہ مطالعہ کرتے ہیں بلکہ وہ یہاں سے چھپنے والی ہر کتاب کا مسودہ بھی خود پڑھتے ہیں۔
اس تقریب میں جناب اسامہ صدیق نے انگریزی میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بک کارنر جہلم کی خدمات کو سراہا۔ دیگر مقررین میں محترمہ حنا جمشید، سلمہ اعوان، یاسمین حمید اور جناب افتخار عارف بھی شامل تھے۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی ملک کے نامور مزاح نگار اور شاعر جناب انور مسعود تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے جناب شاہد حمید مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا اور آخر میں حاضرین کی فرمائش پر اپنی مشہور نظمیں سنائی۔
میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی ادارہ بنانا اتنا کمال نہیں ہوتا جتنا بڑا کمال اس ادارے کے معیار کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ یہ امر شاہد اور گگن شاہد دونوں بھائیوں کی محنت کا ثمر ہے کہ جنہوں نے اپنے والد صاحب کے لگائے اس پودے کو اتنا تناور درخت بنا دیا ہے، جس کی چھاؤں سے لاکھوں لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ جس طرح اس ادارے نے اپنے کامیاب 50 سال مکمل کیے ہیں، میری دعا ہے کہ بک کارنر جہلم ہمیشہ ایسے ہی قائم و دائم رہے اور اپنی کتابوں کے ذریعے علم کی روشنی ملک کے کونے کونے تک پہنچاتا رہے۔