Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Batu Caves Of Kuala Lumpur

Batu Caves Of Kuala Lumpur

باتو کیوز کوالا المپور

باتو کیوز(Batu Caves) کوالا المپور میں ہندوؤں کا ایک مقدس مقام ہےجہاں پانچ، چھ مندروں کا کمپلیکس ہے۔ باتو کیوز ایک بہت بڑی گولڈن مورتی اور 300 سے زائد سیڑھیوں کی وجہ سے مشہور ہے اور یہ غاریں 440 ملین سال پرانی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 19ویں صدی میں یہ غاریں چائنیز نے دریافت کی تھیں۔ یہ غاریں جن میں ہندوؤں کے مندر ہیں یہ لائم سٹون سے بنی ہیں۔ یہ جگہ ہندوؤں کے لیے تو مقدس ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کوالاالمپور کا ایک مشہور سیاحتی مقام بھی ہے۔

دن 11 بجے ہم ان غاروں کے مرکزی دروازے پر پہنچے جہاں ہمیں (Lord Murugan) جو ہندوؤں کا ایک دیوتا ہے، اس کا ایک بہت بڑا گولڈن مجسمہ دکھائی دیا، اس کی بلندی 140 فٹ تھی اور اس مجسمے کے بالکل ساتھ بائیں جانب سیڑھیاں اوپر کی طرف چڑھ رہی تھیں جنکی تعداد 300 کے لگ بھگ ہوگی۔ لارڈ مارگن کا یہ گولڈن مجسمہ جنوری 2006ء میں یہاں نصب کیا گیا۔

باتو کیوز کا علاقہ تقریبا 155 ایکڑز پر مشتمل ہے یہاں مختلف ممالک سے بے شمار سیاح ان مندروں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں لیکن ان سیاحوں میں ذیادہ تعداد ہندوؤں کی ہوتی ہے۔ سری لنکا کی طرح ملائشیا میں بھی جگہ جگہ مندر، چرچ، مہاتما بدھ کے مجسمے اور مساجد نظر آتی ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کے ملائشیا ایک لبرل ملک ہے، یہاں بھی تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مکمل آزادی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوالاالمپور میں، بھارت سے باہر ہندوؤں کا اتنا بڑا مندر بنا ہوا ہے۔

باتو کیوز مندر، ہندوؤں کے پانچ بڑے مندروں میں سے ایک ہے اور ہندوؤں کی مشہور مذہبی عبادت گاہ تصور کی جاتی ہے۔ ہم گولڈن مورتی کے پاس سے گزرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگے، ہر 20-25 سیڑھیاں چڑھنے کے بعد چھوٹا سا ریسٹ پوائنٹ ہے جہاں آپ کچھ لمحوں کے لیے آرام کر سکتے ہیں لیکن بچوں اور بوڑھوں کے لیے یہ سیڑھیاں چڑھنا مشکل ھے۔ ان سیڑھیوں پر مختلف رنگوں سے پینٹ بھی کیا گیا، یہ سیڑھیاں چار حصوں میں بنائی گئی ہیں جو دور سے ایک سلائیڈ کی مانند محسوس ہوتی ہیں۔ چونکہ یہاں سیاح بہت زیادہ تعداد میں آتے ہیں اس لیے یہ سیڑھیاں چار حصوں میں بنائی گئی ہیں۔ ان غاروں میں جاتے ہوئے سیڑھیوں پر بہت سی جگہوں پر بندروں نے ہمارا استقبال کیا۔ اگر سیاح ان بندروں کو کچھ نہ کہیں تو یہ بندر بھی تنگ نہیں کرتے لیکن اگر وہ سیاحوں کی وجہ سے پریشان ہوں تو پھر وہ سیاحوں کو بھی سکون نہیں لینے دیتے۔ خیر میں بندروں سے آنکھ چرا کر آہستہ آہستہ اوپر چڑھتا رہا۔

300 سے زائد سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ہم ایک بہت بڑی غار میں آگئے جہاں ہندوؤں کے تین چار مندر الگ الگ جگہوں پر بنے ہوئے تھے اور ان مندروں میں ہندوؤں کے الگ الگ بھگوانوں کی مورتی رکھی گئی تھیں۔ اس غار کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے درمیان سے تھوڑی سی جگہ سے نیلا آسمان دکھائی دے رہا تھا اور اسی جگہ سے روشنی بھی اس غار میں آرہی تھی۔ اس غار میں مختلف مندروں پر ہندو اپنی اپنی عبادات میں مصروف تھے، کوئی اپنے بھگوان کے سامنے ماتھا ٹیک رہا تھا تو کوئی وہاں آگ جلا کر اپنے ہاتھوں سے کی تپش محسوس کر رہا تھا۔ ہندو آگ سے ہاتھ گرم کرکے اپنے جسم پر پھیر رہے تھے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اس طرح جسم کے اعضاء سے جو جو گناہ سرزد ہوئے ہیں، گرم ہاتھ لگانے سے وہ ختم ہو جاتے ہیں۔

علی عباس کا پسندیدہ موضوع مختلف مذاہب کے بارے میں جاننا اور مذہبی ہم آہنگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جس جس ملک کا بھی سفر کیا وہاں وہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں میں بھی ضرور گئے۔ اس گروپ میں چونکہ وہ ہمارے ساتھ تھے لہذا ان سے ہندوؤں کی مذہبی رسومات کے بارے میں کافی کچھ جاننے کا موقع ملا۔ وہ ایک مندر میں بالکل اسی طرح داخل ہوئے جس طرح ہندو اپنے مندر میں بڑی عقیدت سے گھنٹی بجا کر داخل ہوتے ہیں۔ انہوں نے وہاں لائن میں لگ کر پنڈت سے پرساد بھی لیا اور اپنے ماتھے پر ٹیکہ بھی لگوایا۔ میں نے وہاں ایک ہندو کو مٹی کے بہت سارے دیسی گھی کے دیے بناتے دیکھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سیاح یہاں پیسوں سے یہ دیے خریدتے ہیں اور مندر کے اندر جا کر یہ دیے جلاتے ہیں۔

اس بڑی غار میں سے مزید سیڑھیاں اوپر جا رہی تھیں۔ میں جب ان سیڑھیوں کے ذریعے اوپر آیا تو دیکھا وہاں بھی دو مندر بنے تھے اور ہندو اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے میں مصروف تھے۔ چونکہ یہ جگہ ہندوؤں کا مقدس ترین مقام ہے اس لیے میں نے یہاں ہندوؤں کو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی دیکھا، وہ کہیں ان بچوں کو آگ کے اوپر سے وار رہے تھے، کہیں مندر کی دہلیز پر ان کا ماتھا ٹیک رہے تھے اور کہیں وہ کسی پنڈت سے بچوں کے سروں پر ہاتھ لگوا رہے تھے۔

میں تقریبا 30 منٹ اس غار میں بنے مندروں کو دیکھنے کے بعد، انہی سیڑھیوں کے ذریعے بندروں سے بچتا بچاتا نیچے گولڈن مورتی کے پاس آگیا۔ ان سیڑھیوں کے بائیں جانب چلیں تو ہمیں چھوٹی چھوٹی دکانیں بنی دکھائی دیتی ہیں، جہاں سے لوگ خریداری کر رہے تھے۔ ان دکانوں کے بالکل سامنے چشمے بہہ رہے تھے، میں ان چشموں کے ساتھ چلتا ہوا تھوڑا مزید آگے بڑھا تو وہاں ہنومان کا ایک بہت بڑا مجسمہ نظر آیا اور اس مجسمے کے ساتھ ایک مندر بھی تھا۔ اس مندر کے ساتھ بھی بہت بڑی غار تھی جس میں بے شمار مورتیاں رکھی گئی تھیں، یہ مورتیاں دراصل مہا بھارت کے وہ تمام کردار تھے جن کے واقعات کو مورتیوں کی صورت میں دکھایا گیا تھا۔

ملائشیا چونکہ ایک سیاحتی ملک ہے اس لیے انہوں نے ہندو سیاحوں کے لیے یہاں خاص طور پر انتظامات کر رکھے ہیں۔ میں نے جتنے بھی مسلم ممالک کے سفر کیے ہیں وہاں میں نے ایک بات سب میں مشترک دیکھی کہ انہوں نے ہر مذہب کے ماننے والوں کو مکمل آزادی دے رکھی ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہیں بنا سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے لوگ اپنی مذہبی عقیدت کی وجہ سے ان جگہوں کو دیکھنے آتے ہیں جس کی بدولت یہ ممالک بہت سارا زر مبادلہ کما رہے ہیں۔

پاکستان میں ٹیکسلاء کے قریب اور دیگر جگہوں پر بھی مہاتمابدھ کی بے شمار باقیات موجود ہیں لیکن ہم ان جگہوں کو نا تو پروموٹ کر سکے اور نا ہی سیاحوں کو پاکستان لا سکے۔ اسی طرح کلرکہار کے نزدیک ہندوؤں کا مقدس ترین مقام کٹاس راج مندر ہے لیکن بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے نہ ہونے کے سبب یہاں بھی بیرونی سیاح نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ کرتار پور میں گردوارہ بنا کر کسی حد تک سکھوں کے لیے یہ سہولت دی گئی ہے مگر دیگر مذاہب کے مذہبی مقامات سے ہم مذہبی سیاحت بڑھانے میں ناکام رہے ہیں۔

کوالاالمپور سٹی ٹور کے لیے ہم نے صبح نو بجے نکلنا تھا لیکن کچھ دوستوں کی تاخیر کی وجہ سے ہوٹل سے نکلتے نکلتے 10 بج گئے جس پر ملائشیا میں ہمارا گائیڈ جو کہ ہندو تھا، نے کہا کہ آپ لوگ ایک گھنٹہ لیٹ ہو گئے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوگا کہ ہم گینتنگ ہائی لینڈ (Genting Highlands) میں کم وقت کے لیے رک پائیں گے۔

ڈاکٹر عبدالغفار فیصل آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ وہیں ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ وہ بھی اس سفر میں ہمارے ساتھ تھے، انہوں نے جب گائیڈ کی یہ بات سنی تو بولے! ترقی یافتہ قوموں اور ہم پاکستانیوں میں یہی فرق ہے کہ وہ وقت کی قدر کرتے ہیں جب کہ ہم لوگ وقت کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ ہم 30 لوگ ہیں، اگر ہم میں سے کوئی ایک بندہ 30 منٹ لیٹ ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم 30 منٹ لیٹ ہوئے ہیں بلکہ آپ 30 کو 30 سے ضرب کر دیں۔ ہم دراصل 900 منٹ لیٹ ہوئے ہیں۔ کیونکہ ہم سب 30 بندوں کے بھی 30-30 منٹ ضائع ہوئے ہیں۔ خیر انہوں نے بہت اچھے انداز سے گروپ کے تمام دوستوں کو سمجھایا کہ اگر ہم ایک ساتھ سفر کر رہے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کا خیال بھی رکھنا چاہیے اور وقت کی پابندی بھی کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر صاحب انتہائی شاندار انسان ہے، 65 سال کی عمر میں بھی انتہائی ہشاش بشاش دکھائی دیتے ہیں، اس عمر میں میں نے بہت کم لوگوں کو اتنا ایکٹو دیکھا۔ انہیں سفر کو انجوائے کرنا آتا ہے۔ ہم جب سری لنکا میں کولمبو کا سٹی ٹور کر رہے تھے تو ڈاکٹر صاحب نے اس وقت بھی تمام گروپ ممبرز کو مخاطب کرکے کہا کہ ہم میں سے ہر انسان کو اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی پریشانی ضرور ہوتی ہے لیکن میں جب لاہور ایئرپورٹ سے سری لنکا کے لیے نکلا تھا تو میں نے اپنی تمام پریشانیوں اور مسائل کی ایک گٹھڑی بنائی اور وہیں ایئرپورٹ پر ایک کونے میں رکھ دی، اس لیے کہ میں اگلے 10-11 دنوں میں زندگی کو صحیح معنوں میں انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔

میرا آپ سب کو بھی یہی مشورہ ہے کہ اگر آپ کو بھی اپنی زندگی میں کوئی مسائل یا پریشانیاں ہیں تو فکر مند ہونا چھوڑیں کیونکہ یہاں ابھی ان کا کوئی حل نہیں۔ اس لیے میرے دوستو آپ بھی اس سفر کو انجوائے کریں اور اپنی اپنی پریشانیوں کی گٹھڑیاں بنا کر یہیں رکھ دیں اور چار ملکوں کے سفر کے بعد واپسی پر یہیں سے اٹھا لیجئے گا جیسے میں اپنی وہ گٹھڑی لاہور ایئرپورٹ دوبارہ اپنے کندھوں پہ اٹھا لوں گا۔ کوالاالمپور کے سٹی ٹور میں ہم نے سب سے پہلے باتو کیوز مندر دیکھا اور یہ مندر دیکھنے کے بعد ہم تقریبا دو بجے گینتنگ ہائی لینڈ کی طرف چل دیے۔

Check Also

Aankh Jo Kuch Dekhti Hai (2)

By Prof. Riffat Mazhar