Baku Main Guzra Aik Din
باکو میں گزرا ایک دن
چند ماہ قبل ہی میں نے گریجویشن مکمل کی ہے اور اس کے ساتھ میں نے ٹرانسلیٹر کا ڈپلومہ بھی کیا ہے۔ گریجویشن میں میرے مین مضامین پبلک ریلیشنز، آذربائجان اور انگلش زبان تھی۔ میری دو چھوٹی بہنیں ہیں اور ایک بھائی، والد فوت ہو چکے ہیں۔ میں اپنی والدہ اور نانی کے ساتھ رہتی ہوں اور ساتھ ہی ٹور گائیڈ کے طور پر جاب کرتی ہوں۔
میں نے پوچھا کہ آپ اتنی کم عمری میں نوکری کیوں کر رہی ہیں؟ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور بولی! کم عمری؟ میری عمر 20 سال ہے اور یہاں آذربائجان میں ہر 18 سال کا لڑکا اور لڑکی کوئی نہ کوئی کام ضرور کرتا ہے۔ مجھے پبلک ریلیشنز کا شعبہ اچھا لگتا ہے اس لیے میں نے ٹرانسلیٹر کا ڈپلومہ کیا۔ میں نے پوچھا آپ کو یہاں کتنے پیسے مل جاتے ہیں؟ آئس کریم کا کپ اس نے میز پر رکھا اور بولی! میں ڈیلی ویجز پر کام کرتی ہوں، اس ٹور پر مجھے ہر دن کے 75 منات ملتے ہیں اور اس کام کے ساتھ ساتھ میں پبلک ریلیشنز میں ماسٹرز کرکے لینگویج ٹرانسلیٹر بننا چاہتی ہوں، اس نے مسکراتے ہوئے کہا لہذا میری عمر کے تمام لڑکے اور لڑکیاں یہاں کام کرتے ہیں۔
میں ولید اور مرواری باکو کے ایک شاپنگ مال میں بیٹھے آئس کریم کھا رہے تھے۔ مرواری نے بتایا کہ وہ پچھلے دو سال سے ٹور گائیڈ کے طور پر کام کر رہی ہے، اس نے ان دو سالوں میں زیادہ تر انڈیا اور پاکستان سے آئے سیاحوں کو ہی آذربائجان کی سیر کروائی۔ انڈیا کے لوگ آپ کو اچھے لگے یا پاکستان کے؟ میرے اس سوال پر اس کا کہنا تھا کہ دونوں ہی اچھے ہیں لیکن پاکستان ہمارا برادر ملک ہے، اس لیے ہمیں پاکستانیوں سے زیادہ محبت ہے۔
آذربائجان اور آرمینیا کے درمیان کئی برسوں سے کارا باغ کے علاقے کی وجہ سے لڑائی چل رہی ہے، کارا باغ کا علاقہ آذربائجان کے لیے ایسے ہی ہے جیسے ہمارے لیے کشمیر، اس معاملے میں پاکستان نے ہمیشہ آذربائجان کے موقف کی حمایت کی اور ساتھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آذربائجان کے لوگ پاکستانیوں کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں۔ 17 جولائی کو آذربائجان میں ہمارا تیسرا دن تھا، ہم نے اسی ہوٹل میں ناشتہ کیا جہاں ہمارا قیام تھا۔ ناشتے کے بعد ہم باکو کی ایک مشہور جگہ آتش کدہ دیکھنےآگئے، یہ آتش کدہ انتہائی قدیم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پانچویں صدی قبل مسیح میں اس وقت بنایا گیا جب زرتش مذہب کے ماننے والوں کا عروج ایران اور اس کے قریبی علاقوں میں تھا۔
قدیم ایران کے لوگ آگ کی پوجا کرتے تھے اور یہ آتش کدہ ان کی مرکزی عبارت گاہ تھا۔ اس آتش کدہ کے سامنے ایک وسیع جگہ ہے، جونہی اس آتش کدہ کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں تو سامنے چبوترے پر آگ جلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، یہ آگ مصنوعی طور پر جلائی گئی ہے جو زرتش لوگوں کی اس قدیم عبادت گاہ کو ظاہر کرتی ہے۔ اس مرکزی چبوترے کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے کمرے بنائے گئے ہیں جہاں زرتش لوگوں کے کلچر، رہن سہن اور تہذیب و تمدن کو دکھایا گیا ہے، ازبکستان کی طرح آذربائجان میں بھی ٹورزم کو ڈیویلپ کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے مقامات کو بھی بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔
اس آتش کدہ کے ان کمروں میں قدیم لوگوں کے زیر استعمال رہنے والی اشیاء کو بڑی ترتیب سے رکھا گیا ہے اور ساتھ ہی جدید الیکٹرانک اسکرینز لگا کر اس دور کے لوگوں کی ایکٹیویٹیز دکھائی گئی ہیں۔ آتش کدہ کے ساتھ خوبصورت ریسٹورنٹ ایریا بھی ہے، ہم نے تقریبا ایک گھنٹہ آتش کدہ میں گزارا جہاں مختلف ممالک کے بے شمار سیاح آئے ہوئے تھے۔ آذربائجان کی زمین چونکہ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے، اس لیے جگہ جگہ ہم نے تیل اور قدرتی گیس کے کنویں دیکھے۔ آتش کدہ دیکھنے کے بعد ہم باکو کی سب سے مشہور جگہ فائر ماؤنٹینز پر آگئے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ پہیہ اور آگ انسان کی سب سے بڑی ایجادات ہیں، ایک وقت تھا جب لوگ گوشت کی ایک بوٹی کو چبانے کے لیے دس دس گھنٹے لگا دیتے تھے لیکن آگ کی ایجاد کے بعد وہی گوشت ہم چند منٹوں میں آسانی سے کھا سکتے ہیں۔
ہر دور میں امارت کے مختلف پیمانے رہے ہیں، کبھی بھیڑ بکریاں اور مویشیوں کا مالک امیر رہا تو کبھی سونا چاندی اور جواہرات رکھنے والا، کبھی کوئی زیادہ کرنسی رکھنے والا امیر کہلایا تو کبھی کوئی زیادہ زمین رکھنے والا۔ قدیم دور میں جس کے پاس آگ ہوتی تھی یا جو آگ جلانے کا فن جانتا تھا وہ امیر کہلاتا تھا۔ لوگ دور دور سے پیدل سفر کرکے اس شخص کے پاس آتے تھے جس کے پاس اپنا آتش کدہ ہوتا تھا۔ باکو کے اس پہاڑی علاقے پر 10 میٹر کی رینج میں پچھلے تین ہزار سال سے آگ جل رہی ہے۔
قدیم دور میں جب لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ یہ آگ یہاں موجود گیس کے ذخائر کی وجہ سے ہے تو اس وقت وہ اس آگ کو معجزہ سمجھتے تھے، اس کی پوجا کرتے تھے اور اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے تھے کیونکہ یہ آگ دنیا میں صرف اسی جگہ جل رہی تھی اور کہیں بھی نہیں۔ ہم تین بجے کے قریب فائر ماؤنٹینز پر پہنچے، مقامی زبان میں اس جگہ کو "ینار داغ" کہا جاتا ہے، سردی، گرمی، برف باری ہو یا بارش، حیران کن طور پر ہزاروں سالوں سے یہ آگ اس پہاڑ پر جل رہی ہے۔ فائر ماؤنٹنز پر مقامی لوگوں نے سیاحوں کی دلچسپی کے لیے چھوٹی چھوٹی موٹر گاڑیاں بنا رکھی ہیں، جن پر اکثر سیاح اس پہاڑی کی سیر کرتے ہیں۔
اس جلتی آگ کو دیکھ کر میں پیدل چلتا ہوا اس پہاڑی کی چوٹی پر آگیا جہاں سے ارد گرد کا علاقہ صاف دکھائی دے رہا تھا، اس پہاڑی کے قریب نیچے بے شمار کنویں دکھائی دے رہے تھے جہاں سے خام تیل اور گیس نکالا جا رہا تھا۔ آذربائجان میں تیل چونکہ وافر مقدار میں موجود ہے اس لیے وہاں ایک لیٹر تیل کی قیمت صرف ایک منات ہے، ایک منات پاکستانی 170 روپے کے برابر ہے، اس سیاحتی مقام پر بھی سیاحوں کے لیے چھوٹے چھوٹے ریستورنٹ اور دکانیں بنائی گئی ہیں۔ دن کے وقت یہاں موسم نسبتا گرم تھا، جس کی وجہ سے پیاس محسوس ہونے لگی۔ ایک ریسٹورنٹ میں جب ہم پانی پی رہے تھے تو مرواری نے بتایا کہ یہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر آپ اس جلتی ہوئی آگ میں سکے پھینکیں اور جو دعا مانگیں وہ قبول ہو جاتی ہے۔
مجھے اس کی بات سن کر ہنسی آ گئی کیونکہ دنیا کے ہر ملک میں اکثر لوگوں کے ایسے ہی عقائد ہوتے ہیں، کہیں لوگ ٹاورز کی بلندی پر تالے لگا کر دعائیں مانگتے ہیں اور کہیں کسی پل پر دھاگہ باندھ کر، کہیں کسی تالاب میں کرنسی پھینک کر دعا مانگتے ہیں اور کہیں آگ میں سکے پھینک کر۔ دینے والی ذات تو صرف اللہ کی ہے، بس لوگ ایسی ایکٹیوٹی سے شاید خود کو مطمئن کر لیتے ہیں۔ فائر ماؤنٹینز کو دیکھنے کے بعد ہم نے دن کا کھانا ایک انتہائی شاندار فائیو اسٹار ہوٹل میں کھایا، سینٹرل ایشیا کے تمام ممالک اپنے کھانوں کی وجہ سے بہت مشہور ہیں، یہاں کا کھانا بھی انتہائی شاندار تھا۔
اس سے اگلے دن چونکہ ہم نے واپس پاکستان آنا تھا اس لیے لنچ کے بعد ہماری گائیڈ ہمیں شاپنگ کے لیے باکو کے سب سے بڑے مال میں لے آئی اور یہ سب سے بڑا شاپنگ مال بھی لاہور کے شاپنگ مالز کے مقابلے میں انتہائی چھوٹا تھا۔ بہرحال گروپ کے تمام شرکاء نے اپنی اپنی منشا کے مطابق وہاں سے خریداری کی۔ چونکہ وہاں ہمارے پاس کافی وقت تھا اس لیے وہاں مرواری سے آذربائجان کے رسم و رواج، رہن سہن، کلچر، تعلیمی نظام اور دیگر موضوعات پر سیرحاصل گفتگو ہوئی۔
کسی بھی علاقے اور ملک کے لوگوں کی اچھی عادات اور قوانین پر پابندی ہی اس قوم کو عظیم بناتی ہے۔ کہنے کو آ ذربائجان ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر وہاں کے لوگوں کو میں نے انتہائی ایماندار، دیانت دار، نفیس، صاف گو، ملنسار اور مہمان نواز پایا۔ وہ کس قدر ایماندار ہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ اگلے دن شام پانچ بجے کی ہماری فلائٹ تھی، ہم نے ایئرپورٹ پر دو بجے پہنچنا تھا لیکن ہوٹل سے نکلتے ہوئے ہمیں دیر ہوگئی۔ دن کا کھانا پلان کے مطابق جہاں ہم نے کھانا تھا نہ کھا سکے اور سیدھا ایئرپورٹ پر آ گئے۔
ہماری آذربائجانی گائیڈ مرواری ہمارے ساتھ ایئرپورٹ پر آئی، بورڈنگ کے بعد اس نے ہمارے گروپ کو میکڈولنڈ کھلایا، دنیا میں ہر جگہ ایئرپورٹس پر چیزوں کے ریٹس تقریبا ڈبل ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس نے تمام گروپ کے لوگوں کے لیے ڈبل پیسے دے کر بھی کھانے کا اہتمام کیا جو ان کے ذمہ تھا۔ لیکن اگر یہی صورتحال ہمارے ہاں ہوتی تو یقینا یہ ساٹھ، ستر ہزار روپے تو وہ ٹورسٹ کمپنی ضرور بچا ہی لیتی۔ قومیں ہمیشہ اپنے کردار سے پہچانی جاتی ہیں، ہمارے ایک دوست کی گھڑی نظامی اسٹریٹ میں ایک دکان پر رہ گئی، دو دن گزر جانے کے بعد جب وہ اس دکان پر گھڑی کا پوچھنے کے لیے گئے تو اس دکاندار نے وہ گھڑی سنبھال کر رکھی ہوئی تھی اور انہیں واپس کر دی۔
شاید یہ ایمانداری ہی ہے کہ پچھلے چھ سات سالوں میں دنیا کے بہت سے ممالک کے سیاحوں نے یہاں کا رخ کیا اور آذربائجان نے اس سیاحت کی انڈسٹری سے بلین ڈالرز کا ذرمبادلہ کمایا۔ بورڈنگ کے بعد ایک کرسی پر بیٹھے میں یہ بار بار سوچ رہا تھا کہ کیا ہم بھی آذربائیجان کی طرح سیاحتی ملک بن سکتے ہیں؟ کیا دنیا ہم پر بھی ایسے ہی اعتماد کر سکتی ہے؟ کیا ہم بھی پاکستان میں آنے والے سیاحوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کر سکیں گے؟ اور اگلے کتنے سالوں تک ہم باکو کی طرح کوئی ایک شہر بسا سکیں گے؟ مجھے دیر تک اس سوال کا جواب نہ مل سکا۔