Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. 40 Ka Chilla

40 Ka Chilla

40 کا چلا

"واہ اوئے! بڑی تقریر کی ہے! آج تو ببر شاہ کم اور قاسم علی شاہ زیادہ لگ رہے ہو" 10 دسمبر کی صبح میں نے سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو کلپ دیکھا جو ایک نجی چینل کے ڈرامے "جیون نگر" میں اداکار سہیل احمد کو جو "ببر شاہ" کا کردار نبھا رہا ہے، کہا گیا۔ میں اس فقرے پر کافی دیر غور کرتا رہا، پھر مجھے ہر وہ شخص ذہن میں آیا، جسے کوئی دانش کی بات کرتے ہوئے کہا جاتا ہے۔ آج تو تم بڑے سقراط بنے ہوئے ہو۔ یعنی سقراط کو ہمیشہ علم و حکمت اور دانش کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

آج ہمارے معاشرے میں قاسم علی شاہ بھی اپنے کردار، علم و حکمت اور دانش کی وجہ سے وہ شخصیت بن چکے ہیں جن کے وزڈم کی مثالیں ہر پلیٹ فارم پر دی جاتی ہیں۔ شاہ جی سے میری پہلی ملاقات جنوری 2018ء میں ہوئی تھی، تب سے اب تک ان پانچ سالوں میں میں نے انہیں 50 سالوں کا کام کرتے دیکھا۔ نوجوان نسل میں جہاں انہوں نے اپنے لیکچرز کے ذریعے موٹیویشن پیدا کی، وہیں بے شمار قابل طلباء و طالبات جو ملک کے نامور کالجز اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں، ان کے لیے وظائف کا اہتمام کیا اور قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن میں بے شمار موضوعات پر نوجوانوں کے لیے ٹریننگ کا بندوبست کیا۔

گزشتہ پانچ برسوں میں انہوں نے پی سی ہوٹل لاہور اور الحمراء آرٹ کونسل میں بڑے بڑے سیمینار کرواۓ۔ اسی سلسلے میں"اپنا کاروبار کریں" کے نام سے قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن اور اے بی ایس ڈیویلپرز کے سی ای او ڈاکٹر سوبیل اکرام نے الحمراء آرٹ کونسل لاہور میں 10 دسمبر اتوار کے دن ایک شاندار سیمینار کا اہتمام کیا۔ اس سیمینار کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس میں شرکت کرنے والے ہر شخص کو قاسم علی شاہ کی نئی کتاب "40 کا چلہ" تحفے میں دی گئی۔

میں اپنے بیٹوں اور دوست جمشید کے ساتھ اس پروگرام میں شرکت کے لیے الحمراء پہنچا۔ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن سے وابستہ جناب عابد ایوب ہوں یا شبیر خان صاحب، شمس صاحب ہوں یا عبدالسلام صاحب، وہ تمام شرکاء کو بہت محبت سے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ قاسم علی شاہ کی نئی کتاب "40 کا چلا" نئی سوچ پبلشرز نے چھاپی ہے۔ یہ کتاب جتنی کمال ہے اتنی ہی محبت سے کاشان چوہدری جو نئی سوچ کے پبلشر ہیں، نے یہ کتاب پبلش کی ہے۔ قاسم علی شاہ صاحب نے اس کتاب میں ان سو باتوں کا ذکر کیا ہے۔ جو کسی بھی انسان کو 40 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے پوری کر لینی چاہیں۔ وہ سو باتیں کون سی ہیں؟ اس کے لیے تو آپ کو کتاب پڑھنا پڑے گی، لیکن میں یہاں شاہ جی کو ضرور خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا کہ جنہوں نے ہر وہ کام پاکستان کی نوجوان نسل کے لیے کیا، جس کی انہیں آج کے دور میں ضرورت تھی۔

مختلف شعبوں میں ٹریننگ، ملک کی ان نامور شخصیات کے انٹرویوز جنہوں نے اپنے اپنے شعبے میں نمایاں کام سرانجام دے رکھا ہے، پڑھائی کے ساتھ سکلز سیکھنے پر توجہ، لکھنے، پڑھنے، اچھا سوچنے کی صلاحیتوں کو کس طرح سے بڑھایا جا سکتا ہے، سیاحت سے کس طرح انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے، سیر و سیاحت سے آپ کس طرح علم حاصل کر سکتے ہیں، ہمیں کس طرح کی تعلیم کی ضرورت ہے اور ہم کس طرح پاکستان کو ایک عظیم ملک بنا سکتے ہیں؟ غرض شاہ جی نے ہر موضوع پر ایک منفرد انداز سے کام کرکے سب کو حیران کر دیا۔ یہی وجہ ہے کے ملک کی نامور شخصیات سید سرفراز شاہ صاحب، سلیم صافی، جاوید چوہدری، عطا الحق قاسمی، امجد اسلام امجد (مرحوم)، بابا عرفان الحق، مجیب الرحمن شامی اور سہیل وڑائچ جیسی بے شمار دیگر شخصیات آپ کی معترف نظر آتی ہیں۔

ہر نئے سال کے آغاز پر شاہ جی نے ٹریننگ بھی کروائیں کہ ہمیں اگلا سال کس طرح گزارنا ہے؟ ایسی ٹریننگ سے ہزاروں لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ "40 کا چلا" کتاب بھی مجھے اسی سلسلے کی ایک کڑی لگی۔ میرا خیال ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے۔ جس میں نوجوان نسل کو ایک ایسی راہ دکھائی گئی ہے کہ آپ اپنے کیریئر کے ساتھ ساتھ 40 سال کی عمر تک پہنچنے تک ان سو کاموں کو ضرور کریں تاکہ آپ کو عمر گزرنے کے بعد کسی بات کا پچھتاوا نہ رہے۔

یہاں میں عبدالسلام چوہدری جو "چیمپین طالب علم" کتاب کے مصنف بھی ہیں، کا ضرور ذکر کرنا چاہوں گا، جنہوں نے بڑی محنت سے کام کیا اور اس کتاب میں شاہ جی کی معاونت کی۔ الحمراء میں منعقد سیمینار "اپنا کاروبار کریں" میں اے بی ایس کے سی ای او ڈاکٹر سوبیل اکرام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ صرف اپنی ضروریات پوری کرنا چاہتے ہیں تو نوکری کریں، لیکن اگر آپ اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں تو پھر کاروبار۔ لیکن کاروبار کرنا کیسے ہے؟ اصل سوال یہ ہے۔ اگر آپ کسی بھی کاروبار میں کامیابی چاہتے ہیں تو تقوی اختیار کریں۔ صرف اللہ سے مدد مانگیں، دنیا کی کوئی طاقت نہ تو آپ کا کوئی نقصان کر سکتی ہے اور نہ ہی فائدہ دے سکتی ہے۔ صرف اللہ کی ذات ہی ہے جو اپ کو ہر پریشانی سے نکالتی ہے۔

اپنی کہانی سناتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک وقت ایسا تھا جب پراپرٹی کے کام میں مجھے 40 ملین کا نقصان ہوگیا یعنی لوگ میرا پیسہ لے کر بھاگ گئے۔ میں نے انصاف کے لیے پاکستان میں ہر ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن مجھے کہیں سے بھی انصاف نہیں ملا۔ تھک ہار کر جب میں نے تہجد پڑھ کے اللہ سے مدد مانگی تو آپ یقین کریں میری ہر مشکل آسان ہوگئی۔ اللہ نے ایسی مدد کی کہ میری ساری ڈوبی ہوئی رقم مجھے واپس مل گئی۔ میں ہر فکر سے آزاد ہوگیا اور آج اللہ کے کرم سے میں بڑے پیمانے پر ریل اسٹیٹ کا کام کر رہا ہوں۔

الحمراء میں بیٹھے تقریبا ایک ہزار نوجوانوں سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ دنیا کے ہر انسان کو تین چیزوں کی خواہش ہے دولت، عزت اور شہرت۔ اگر آپ بھی یہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو کامیابی کا یہ گر پلے باندھ لیں، آپ کبھی ناکام نہیں ہوں گے۔ سب سے پہلے اپنے والدین کی خدمت کریں، آپ دنیا کے بڑے سے بڑے بندے کو لے لیں، ان کی کامیابی کے پیچھے جو چیز سب سے زیادہ کامن ہوگی وہ یہی ہے کہ وہ اپنے والدین کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ والدین کا نافرمان کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ وہ کسی نے کیا کمال وزڈم کی بات کی ہے۔ جو اکثر رکشوں پہ لکھا ہوتا ہے کہ "جس نے ماں باپ کو ستایا، اس نے رکشہ ہی چلایا"۔

دوسری بات لوگوں کو معاف کرنا سیکھیں، کیونکہ جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔ کبھی کسی کی دل آزاری نہ کریں۔ کامیابی کا تیسرا گر یہ ہے کہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کریں۔ بے شک اس میں تمہارا یہ لالچ ہی کیوں نہ ہو کہ تم امیر بننا چاہتے ہو، اس میں کچھ برا نہیں لیکن اللہ کی راہ میں خرچ ضرور کرتے رہیں۔

چوتھی بات جو بھی کام کریں وہ اللہ کی رضا کی خاطر کریں۔ ایک اچھا کام کرکے لوگوں سے بدلے کی توقع نہ رکھیں۔ پانچویں بات! فحاشی سے دور ہو جاؤ۔ اگر تم اپنے کاروبار میں عروج دیکھنا چاہتے ہو تو فحش کاموں کے قریب تک نہ جاؤ ورنہ جتنی بھی محنت کر لو کبھی کامیاب نہیں ہو سکو گے۔ چھٹی اور آخری بات اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق نہ کرو۔ ہماری کامیابیوں میں جیسے ہماری فیملی کا حصہ ہوتا ہے، بالکل اسی طرح اس میں ہمارے دوستوں اور رشتہ داروں کا بھی حصہ ہوتا ہے، جو انسان اپنی کامیابی میں اپنے رشتہ داروں کو بھول جاتا ہے۔ وہ بھی کبھی حقیقی معنوں میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ میں اس وقت تک لگزری لائف گزارنے کا حقدار نہیں جب تک میرا کوئی بھی رشتہ دار غربت کی وجہ سے اپنی ضروریات پوری نہیں کر پا رہا۔ لہذا اپنا کاروبار شروع کرو لیکن میرے اس آزمائے ہوئے گر کو بھی ذہن میں ضرور رکھو۔ دیگر مقررین میں جناب شرجیل اکبر، ملک خالد یعقوب اور کاشف جاوید صاحب نے بھی اپنے تجربات کی روشنی میں شرکاء کی رہنمائی کی۔ آخر میں قاسم علی شاہ صاحب نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں ہر شعبے میں دو نمبر کام ہو رہا ہے، ہر چیز میں ملاوٹ ہے تو اس صورتحال میں آپ سب کے لیے بہترین موقع ہے کہ کوئی بھی فیلڈ چنیں اور اس میں پوری ایمانداری کے ساتھ کام شروع کر دیں، آپ ہر صورت کامیاب ہو جائیں گے۔

پاکستان میں ایک نمبر کام کرنے والوں کے لیے بہت سکوپ ہے۔ دوسرا اپنے آپ میں برداشت پیدا کریں، ہماری سوسائٹی کا سب سے بڑا المیہ برداشت کی کمی ہے۔ تحمل مزاجی اور برداشت آپ کو اس وقت ملے گی، جب آپ کی دوستی میں بھی ورائٹی ہوگی۔ یعنی آپ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنا دوست بنائیں۔ سیاحت کے لیے وقت نکالیں، اس سے بھی آپ کی برداشت بڑھ جائے گی۔

الحمراء میں منعقدہ اس پروگرام میں یہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، وہیں فاؤنڈیشن سے وابستہ کئی محبت کرنے والے دوستوں سے ملاقات ہوگئی۔ قاسم علی شاہ صاحب جہاں نوجوان نسل کے لیے بے شمار خیر کے کام کر رہے ہیں۔ اس میں یہ سیمینار "اپنا کاروبار کریں" بھی ایک شاندار چیپٹر تھا۔

Check Also

Biometric Aik Azab

By Umar Khan Jozvi