Waris Shah
وارث شاہ
بہت سال پہلے جب یوٹیوب اور فیس بک کا وجود نا تھا، انٹر نیٹ تک رسائی عام نا تھی لیکن ویڈیو کیسٹ، وی سی آر کا دور گزر چکا تھا اور سی ڈی پلئیر ہر گھر تک پہنچ چکا تھا، پڑھائی کے علاوہ اور کوئی مصروفیات نا ہوا کرتی تھیں تب ہم دوست مشترکہ پیسے ڈال کر سرگودھا شہر سے ریڑھی پہ فلمیں بیچنے والوں سے سستی سی ڈیز خریدا کرتے تھے، ایک دن کمپیوٹر کلاس ختم کرکے واپس آرہا تھا تو سی ڈی خریدنے کی غرض سے ریڑھی پہ سٹال لگائے شخص کی طرف بڑھ گیا، سامنے ایک سی ڈی کا پیکٹ نظر آیا جس پہ لکھا تھا "وارث شاہ" چونکہ پنجابی گلوکار گرداس مان مجھے پہلے ہی پسند تھے تو اس وارث شاہ میں ہیرو بھی وہی تھے، بس فلم خرید لی، گھر آتے ہی سی ڈی پلئیر آن کرکے فلم دیکھنے لگا، جوں جوں فلم میں وارث شاہ کا کردار سامنے آتا گیا ویسے ویسے مجھے وارث شاہ سے ایک انس بڑھتا گیا، سحر انگیز شخصیت اور پھر میری اپنی پنجابی زبان میں "ہیر" پڑھنا بہت ہی کمال تھا، گرداس مان نے واقعی وارث شاہ بن کے دکھا دیا، میں شروع سے صوفی شعراء اور فقیر شخصیات سے متاثر رہا ہوں تو وارث شاہ دیکھ کر مجھے فقراء سے مزید محبت ہوگئی۔
وارث شاہ شیخوپورہ سے چودہ کلومیٹر دور جنڈیالہ شیر خان میں 1722 میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام سید گل شیر شاہ تھا، کمسنی میں ہی ابتدائی تعلیم کے لئے قصور روانہ ہوگئے اور اپنے استاد مولانا غلام مرتضیٰ کی خدمت میں حاضر ہوگئے، بابا بلھے شاہ اور وارث شاہ نے ایک ہی استاد سے دنیاوی تعلیم حاصل کی، استاد کے حکم سے باطنی تعلیم کے لئے نکل گئے وارث شاہ بابا فرید گنج شکر کے خاندان میں بیعت ہوئے اور روحانی علوم سے مستفید ہوئے، وارث شاہ ہیر رانجھا کے عشق پہ مبنی مشہور زمانہ تصنیف "ہیر" کے خالق بھی ہیں، دنیادار اور اس وقت کے مولویوں نے "ہیر" پہ خاصہ شور شرابا مچایا اور اسے ایک دنیاوی عشق کا کلام کہا، سید وارث شاہ ؒ در حقیقت ایک درویش، فقیر، عارف، صوفی اور ولی اللہ ہیں جنھوں نے "ہیر رانجھا"کے اس رومانوی قصے کو سامنے رکھتے ہوئے عرفان الہٰی کی منازل طے کرنے کی کوشش کی ہے اور حوالہ کے طور پر ان کے کلام سے بہت سے ایسے اشعار پیش کرتے ہیں جو حقیقتاً ان کے ولی اللہ ہونے کی دلالت کرتے ہیں۔ بعض لوگ" کیدو"کے کردار کو پنجاب کا با غیرت کردار سمجھتے ہیں جس نے پنجاب کے ایک شریف گھرانے کی عزت بچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو ہیر کے کلام کو ایسے موتی قراردیتا ہے جو منج کی رسی میں پرویا گیا ہے۔ وارث شاہ کو پنجابی زبان کا شیکسپئیر بھی کہا جاتا ہے۔ وارث شاہ کے کلام سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بحیثیت ماں بولی پنجابی زبان کا ہماری معاشرتی زندگی، رسم ورواج، روایت اور مذہبی عقیدتوں سے اٹوٹ رشتہ ہے۔ سید وارث شاہؒ پنجاب کی معاشی، اقتصادی صورت حال اور احساسات و جذبات کے ایک بہترین مصور کے روپ میں سامنے آتا ہے جس نے پانچ دریاؤں کی سوہنی دھرتی میں بسنے والے لوگوں کے سُچے، سچے اور کھرے جذبوں کا اپنے شعروں کے ذریعے اظہار کیا ہے اور پنجاب کی ثقافت معاشرت، تہذیب، رسم رواج، احساسات و جذبات اور سوچوں کو نئے زاویے بخشے۔
وارث شاہ محمد شاہ رنگیلا کے دور سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک رہے، اورنگیزیب نے اپنے دور میں موسیقی پہ پابندی عائد کردی جو اس کے بعد بھی قائم رہی، درباری مولویوں نے عارفانہ کلام کو کفر قرار دیا اور صوفی شخصیات کو پھانسی پہ لٹکواتے رہے، وارث شاہ پہ بھی کفر کے فتوے لگتے رہے، جھوٹے الزام عائد ہوتے رہے مگر وارث شاہ کے عشق خدا و رسولؐ اور اہل بیتؑ میں کمی نا آئی، وارث شاہ 1798 میں 76 سال کی زندگی گزارنے کے بعد محبوبِ حقیقی کے دربار میں حاضر ہوگئے اور آج اپنے آبائی گاوں جنڈیالہ شیر خان میں آرام فرما رہے ہیں، انجمن وارث شاہ کے زیر انتظام مزار کے قریب ہی ایک لائبریری بھی واقع ہے جبکہ وہاں موجود فقراء اور درویش وارث شاہ کی "ہیر" زائرین کو ایک مخصوص انداز میں سناتے ہیں۔
عشق کو ہمیشہ سے دبانے کی کوشش کی جاتی رہی، عشق کو ہمیشہ سے مزاحمت کا سامنا رہا ہے، عشق پہ ہمیشہ سے باغی کے فتوے لگتے رہے ہیں، مگر عشق کا سر ہمیشہ سر بلند ہی رہا ہے چاہے عشق کا سر نیزے پہ سوار کیوں نا کر دیا گیا ہو، عشقِ حقیقی پہ جب جب بھی جس جس نے فتوے لگائے ان کی آج قبروں کے نشان تک نہیں ملتے جبکہ عاشقوں نے کہیں کربلائے مُعلیٰ بسا لی اور کہیں وارث شاہ کا تُنبہہ آج بھی اللہ ھو اللہ ھو پُکار رہا ہے۔