Qasoor Kis Ka?
قصور کس کا؟
میری اہلیہ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں، اور ایک ایسے سکول میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں جو شہر کے مرکز میں واقع ہے، اس سکول میں شہر کے قریب ترین مختلف گاوں سے بھی بچیاں پڑھنے آتی ہیں۔
میری اہلیہ اکثر سکول سے آکر بتاتی ہیں کہ آج فلاں کلاس کی بچی کے بیگ سے موبائل فون نکلا، کبھی بتاتی ہیں آج اس عمر کی بچی کے پاس سے ٹچ سکرین والا موبائل برآمد ہوا ہے، ایک دفعہ بتایا کہ ایک بچی بار بار واش روم جاتی تھی جب اس کی تحقیق کی گئی تو اس کے پاس سے بھی موبائل نکلا جس میں نازیبا مواد تھا۔
ایک دفعہ بچی گھر سے سکول کی وردی پہن کر آئی مگر وہ سکول آئی ہی نہیں سکول کے گیٹ سے ہی کسی لڑکے کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چلی گئی اور عین چھٹی کے وقت واپس آگئی اور گھر چلی گئی۔ کئی بچیاں ایسی بھی ہیں جو گئیں اور واپس کبھی نہ آئیں۔ ایسے کئی واقعات ہر شہر اور ہر گاوں میں ہورہے ہیں۔
ہم جس دور میں جی رہے ہیں یہ جدید اور تیز ترین دور ہے اب خطوط لکھنے کا وقت گیا، اب بس لڑکی یا لڑکے کو چھوٹی سی چِٹ پر نمبر لکھ کر پھینکنا ہوتا ہے بس پھر کہانی ٹیکسٹ میسجز سے شروع ہوکر وٹس اپ اور وٹس اپ سے ویڈیو کالز اور ویڈیو کالز سے تنہائی میں ملاقات اور پھر برہنہ ویڈیو یا تصاویر پر جاکر ختم ہوتی ہے۔ بعض کہانیوں میں ایک کردار کو خودکشی بھی کرنی پڑ جاتی ہے۔
ہماری وہ بچیاں جو ابھی میچیور نہیں ہیں اور چھوٹی کلاسز میں زیر تعلیم ہیں ان کو والدین موبائل کیوں لے دیتے ہیں؟ آخر ایسی بھی کیا مجبوری کہ بچوں اور بچیوں کو ہائی سپیڈ انٹرنیٹ چلانے والے فونز تحفہ کے طور پہ دے دئیے جاتے ہیں؟ اب آپ اگر یہ کہیں کہ آن لائن کلاسز ہوتی ہیں تو ایسے کئی والدین دیکھے ہیں جو آن لائن تعلیم کے لئے بچوں کو اپنا موبائل دے دیتے ہیں اور ضرورت پوری ہونے کے بعد واپس لے لیتے ہیں۔
اگر آپ نے بچے یا بچی کو موبائل لے کر دے دیا ہے تو کیا آپ نے کبھی ان کے موبائل کی گیلری چیک کی؟ کبھی ان کے سوشل میڈیا اکاونٹس کے انباکسز چیک کئیے؟ کبھی ان کی گوگل سرچ ہسٹری چیک کی؟ کبھی ان سے یہ سوال پوچھا کہ اتنا زیادہ بیلنس تمہارے پاس کہاں سے آیا؟
اگر ہم والدین اپنے بچوں کو مکمل ڈھیل دے کر انہیں مکمل آزادی دیتے رہیں گے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بچے بھی ویسے ہی گھر سے بھاگ نکلیں اور ویسا ہی ہوگا جو دعا زہراء یا اس جیسی دوسری بچیوں کے ساتھ ہورہا ہے۔
سوشل میڈیا پر تمام لکھنے والے دوستوں کو چاہیے کہ وہ اپنے فالورز کو ڈارک ویب کے بارے بتائیں اور انہیں آگاہی دیں کہ ڈارک ویب پر جو وحشت ناک اور خونی کھیل کھیلا جارہا ہے وہ دراصل کون کھیلتے ہیں؟
چھوٹے اور معصوم بچے اور بچیوں سے جنسی زیادتی کے بعد ان کے ہاتھ پیر کیوں کاٹ دئیے جاتے ہیں؟ ایسا معاشرہ جہاں جنسی تسکین کے لئے پانچ سو روپے میں پارٹنر آسانی سے دستیاب ہو وہاں ایسی کیا مجبوری پڑ جاتی ہے کہ جنسی درندے معصوم بچوں کو نشانہ بناتے ہیں؟
دعا زہراء اور اس جیسی اغواء ہونے والی بچیوں کے پیچھے بھی ڈارک ویب کا ہاتھ ہے آج نہیں تو کل یہ اصل کہانی سب کے سامنے آجائے گی۔
ہم سوشل میڈیا کے لکھاری جہاں تک ہو سکے عوامی آگاہی مہم میں حصہ لے کر لکھتے رہیں گے مگر خود والدین کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیں انہیں بھی اپنے اپنے موبائل کی سکرینز سے نظریں ہٹا کر اپنے بچوں کے موبائل فونز پر توجہ دینی چاہیے۔