Mulk O Qaum Ka Kya Bane Ga?
ملک و قوم کا بنے گا کیا؟
ایک قریبی دوست جو سرکاری ملازم بھی ہیں، اکثر افسردہ اور مایوس رہتے ہیں، ایک دن میں نے ان سے وجہ پوچھی کہ آپ کیوں ہر وقت افسردہ رہتے ہیں، ماشاءاللہ خدا نے آپکو دنیا کی ہر نعمت سے نواز رکھا ہےاس مشکل ترین دور میں اتنی اچھی سرکاری نوکری ہے، گھر ہے، اولاد ہے، گھر میں ضروریاتِ زندگی کی ہر سہولت موجود ہے پھر کس بات نے آپکو پریشان کر رکھا ہے، انہوں نے بتایا یار میں اپنی ذاتی زندگی کی وجہ سے ہر گز پریشان نہیں رہتا بلکہ میں اس ملک کو لُٹتا ہوا دیکھ کر غمگین ہوجاتا ہوں کہ آخر اس ملک و قوم کا بنے گا کیا؟
میں نے تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ دفتر کا سارا حساب کتاب میرے پاس ہے، یہاں افسران کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے، ان کے ٹیبل پہ ڈرائی فروٹس تک حکومتی خزانے سے خریدے جاتے ہیں، دو ٹن کے اے سی سے کم تو ان کو ٹھنڈی ہوا نہیں چاہیے، اور وہ دفتر موجود ہوں نا ہوں اے سی کو ہر وقت آن ہونا چاہیے، یہی حال سردیوں میں ہیٹرز کا ہے، انہوں نے اپنے ذاتی گھر جانا ہوتو گاڑی کی ٹنکی حکومتی پیسوں سے بھراوائی جاتی ہے، حتیٰ کے ان کے سرکاری بنگلہ پہ جب کوئی قریبی مہمان آئے اس کو بھی واپسی پہ بطور ہدیہ ٹنکی پٹرول کی بھروا کر دی جاتی ہے اور اس کے پیسے عوام کے پیسہ سے ادا کئیے جاتے ہیں، رمضان میں دفاتر میں اسی فیصد ملازمین روزہ نہیں رکھتے ان کے لئے لذید اور مصالہ دار کھانے بھی حکومتی پیسوں سے منگوائے جاتے ہیں، اور جب بل بنوانے کی باری آتی ہے تو ذاتی گاڑی کے پٹرول، ڈرائی فروٹس، گھر کا بجلی کے بل کا کھاتا، دفتری اشیاء کی خریداری کا جعلی کھاتا کھول کر اس میں ڈال دیا جاتاہے۔
میں نے پوچھا کہ جب آڈٹ ہوتا ہے تب آڈیٹرز یہ چوریاں نہیں پکڑتے تو انہوں نے جواب دیا وہ چوری پکڑیں یا نا پکڑیں انہوں نے اپنا مال پانی پھر بھی لینا ہوتاہے، رمضان میں غرباء و مساکین میں جو افسرانِ بالا کی طرف سے راشن تقسیم کا ڈرامہ دکھایا جاتا ہے اس راشن کے پیسے افسران کی جیب سے نہیں جاتے بلکہ مہینہ بھر کی لوٹ مار کے پیسے اکھٹے کر کے ان سے خیرات کی جاتی ہے۔
یہ تو حال احوال تھا ہمارے لوکل سطح پہ سرکاری افسران کی عیاشیوں کا، اب ذرا خود اندازہ لگائیے صدرِ پاکستان سے لے کر ایم پی اے تک کے دفاتر کا کیا حال ہوگا اور وہاں سرکاری خزانے کی جیب کس طرح کُتری جاتی ہوگی؟ میں صبح پڑھ رہا تھا کہ جرمنی جو دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے اس کی سربراہ خاتون اینجلا مرکل بتا رہی تھیں کے ان کے ہاں نوکر نہیں ہیں وہ دو میاں بیوی ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے ہیں، وہ کھانہ خود بناتی ہیں اور رات کو شوہر آکر کپڑے واشنگ مشین میں ڈال دیتے ہیں میں صبح پریس کرلیتی ہیں، دونوں میاں بیوی نے اگر ہوائی سفر کرنا ہوتو سستی ترین ائیر لائن کا استعمال کرتے ہیں، اور جس فلیٹ میں رہ رہے ہیں وہ دونوں میاں بیوی نے ذاتی کمائی سے خریدا تھا، اس کے مقابلے میں اگر اپنے ملک پاکستان کے سیاستدان اور حکمرانوں کے لائف سٹائل پر نظر دوڑائی جائے تو یہ لوگ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگتے ہیں، موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کے کئی کنال پہ محیط بنگلے اور کئی ہزار مربع جائیدادیں، بنک بیلنس، قیمتی گاڑیاں، لاکھوں روپے کے ہینڈ بیگز، سونے کی گھڑیاں اور پھر اپنے چہرے کو خوبصورت بنانے کے لیے کروڑوں روپے کی سرجریاں، یہ سب کہاں سے آگئے؟ کس نے دئیے ان کو؟ یہ راز ہم سب کو معلوم ہے مگر ہم اگر بولیں گے تو شائد مار دئیے جائیں یا اٹھا لئے جائیں گے۔
یاد آیا کل اسی غریب ملک کے امیر حکمرانوں کی رعایا میں سے ایک باپ نے عید کے کپڑے مانگنے پر اپنے چار معصوم بچوں کو نہر میں پھینک دیا، اور ایک شہر میں باپ نے بچوں کو گولیاں مار کر غربت سے جان چھڑوا لی، اگر آپ کہیں کہ دونوں واقعات کے پس پردہ کہانی غربت نا تھی بلکہ میاں بیوی کی آپسی رنجش تھی اگر یہ واقعی شوہر اور بیوی کی لڑائی تھی تو انوسٹیگیشن کے بعد نتیجہ یہی نکلے گا کہ اس خاندان پہ غربت کے سائے تھے، قرض کا بوجھ تھا، یا بے روزگاری تھی، یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے کئی والدین نے پہلے بچوں کو مارا پھر خود کو اگلی دنیا اس امید سے پہنچا دیا کہ شاید وہاں عیاش حکمران نا ہوں گے۔
ہم لوگ اس امید پہ غربت کی چکی میں پِس رہے ہیں کہ روزِ محشر میدانِ عدل سجے گا تو اللہ ہمیں ان ظالموں سے انصاف لے کر دے گا اور ہم جنت میں جائیں گے لیکن یاد رہے ہم اس ظلم پہ خاموشی کے بعد بھی جہنم میں ہی جائیں گے۔