Koshish Raigan Nahi Jati
کوشش رائیگاں نہیں جاتی
آپ میں سے KFC کے بارے کون نہیں جانتا ہوگا؟ زندگی میں کبھی نہ کبھی آپ نے KFC سے فاسٹ فوڈ کھایا ہی ہوگا۔ KFC کے ڈبوں پہ اور ان کی فرنچائز پہ ایک بوڑھے شخص کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ اس بوڑھے شخص کا نام کرنل ہارلینڈ ڈیوڈ سینڈرز ہے اور یہ کے ایف سی کا بانی ہے۔ کرنل سینڈرز کی مسلسل ناکامیوں کے بعد کامیابی کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ اس پہ کئی لوگوں نے لکھا اور یوٹیوب پر کافی ویڈیوز بھی ہیں۔
کرنل سینڈرز 1890 میں امریکہ کے ایک شہر میں پیدا ہوا۔ یہ چھ سال کا تھا کہ اس کے والد کی وفات ہوگئی۔ اس کی والدہ نے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے ایک فیکڑی میں نوکری شروع کردی زیادہ پیسے کمانے کے لئے وہ اوور ٹائم لگاتی تھیں اس وجہ سے کرنل سینڈرز بچپن سے ہی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے کھانا پکانا سیکھ گیا۔ جب کرنل سینڈرز بارہ سال کا ہوا تو اس کی ماں نے دوسری شادی کرلی سوتیلے باپ کا رویہ بہت برا ہونے کی وجہ سے وہ گھر سے بھاگ گیا۔
ایک فارم ہاوس پہ نوکری کرنے لگا مگر وہاں سے اسے نکال دیا گیا پھر سولہ سال کی عمر میں اپنی عمر زیادہ بتا کر فوج میں بھرتی ہوگیا مگر جب فوج کو اس کی عمر کا پتہ چلا تو اسے فوج سے نکال دیا گیا۔ کرنل سینڈرز نے ریلوے جوائن کی مگر سینئیر سے لڑائی کرنے کی وجہ سے اسے وہاں سے بھی نکال دیا گیا۔ کرنل سینڈر نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کا فیصلہ کیا مگر عین امتحان والے نگران سے لڑائی ہوگئی اور اس پہ امتحان دینے پر پابندی لگا دی گئی۔
کرنل سینڈر نے ادھر ادھر سے پیسے پکڑ کر کشتیوں کی چھوٹی سے کمپنی کھولی جو جلد ہی بند ہوگئی پھر اس نے لیمپ بنانے والی کمپنی کھولی مگر بدقسمتی نے اس کا یہاں بھی پیچھا کیا اور اس سے اچھے لیمپ ایک اور کمپنی پہلے سے بنا رہی تھی آخر یہ کمپنی بھی بند کرنا پڑی۔ کرنل سینڈرز اتنی ناکامیوں کے بعد واپس اپنی ماں کے گھر آگیا۔ یہاں آکر اس نے اپنی ہی شہر کے ایک گیس اسٹیشن پر چکن فرائیڈ کاسٹال لگا لیا۔
چند ہی دن میں اس کا فاسٹ فوڈ پورے شہر میں کامیاب ہونے لگا یہ کرنل سینڈرز کی پہلی کامیابی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے گیس اسٹیشن کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ بنا لیا مگر ابھی تک اس نے ریسٹورنٹ کا نام نہیں رکھا تھا۔ ایک دن ریسٹورنٹ کو رنگ کرنے والا آیا تو اس نے مشورہ دیا کہ اس کا نام Kentucky Fried Chicken رکھا جائے۔ Kentucky اس ریاست کا نام تھا جہاں کرنل سینڈرز رہتا تھا مگر نام ذرا لمبا ہوجاتا تھا اس لئے اس کا نام مختصر کرکے KFC رکھ دیا گیا۔
بدقسمتی سے چند دن بعد ہوٹل کو آگ لگ گئی اور سب کچھ تباہ ہوگیا مگر کرنل سینڈرز نے جلد نیا ہوٹل بنا لیا مگر ان دنوں دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی کرنل سینڈرز کو ہوٹل بند کرنا پڑا۔ جنگ کے بعد KFC کو دوبارہ کھولا گیا۔ چکن فرائیڈ کی ریسپی کرنل سینڈرز کی اپنی تھی اور کمال ذائقہ رکھتی تھی۔ بہت جلد کے ایف سی کامیاب ہونے لگا۔ کرنل سینڈرز نے کوشش کی کہ اس کے ریسٹورنٹ کی فرنچائز مختلف شہروں میں لوگ لیں اور چلائیں اس نے کئی لوگوں سے بات کی مگر کسی نے دلچسپی نہ دکھائی۔
سینڈرز کے بقول اس کی یہ آفر 1009 بار ریجکٹ کی گئی آخر ایک شخص نے اس کی ایک فرنچائز لی اور دیکھتے ہی دیکھتے پھر پورے امریکہ میں KFC کی دھوم مچ گئی اور چند ہی سالوں میں چھ سو فرنچائز کھل گئیں۔ جب KFC عروج پہ پہنچا تو کرنل سینڈرز بوڑھا ہوچکا تھا اور اس نے بیس ملین ڈالر میں اسے فروخت کردیا۔ چونکہ کرنل سینڈرز مشہور ہوچکا تھا اس لئے نئے مالکان نے اس کی تصویر کو نہ ہٹایا اور کرنل سینڈرز کئی سال تک ان کے ساتھ ایڈوائزر کے طور پہ کام بھی کرتا رہا۔ آج پوری دنیا میں KFC کی لاکھوں فرنچائز ہیں۔کرنل سینڈرز واقعی کرنل نہیں تھا بلکہ اسے کرنل کا خطاب اس کی ریاست کے گورنر نے دیا تھا۔
دوستو اس دنیا میں جتنے بھی لوگوں نے بڑے کام کئیے ہیں اگر ان کی کامیابی کے اس سفر کو دیکھا جائے تو اس کے پیچھے ناکامیوں اور مایوسیوں کی ایک دردناک کہانی ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کو تھوڑی محنت کے بعد منزل مل جاتی ہے اور کچھ لوگوں کو بہت دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ بعض اوقات ہم مشکلات سے مقابلہ کرتے ہوئے تھک بھی جاتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں ہماری مسلسل ناکامیوں کی وجہ کو ہماری بری نیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ہمیں لوگوں کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ ہمارے کردار پہ کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ ہمیں جھوٹا، دھوکے باز اور پتہ نہیں کیا کچھ کہا جاتا ہے مگر باہمت لوگ ہار نہیں مانتے وہ حالات سے لڑتے رہتے ہیں اور پھر ایک دن ایسے کامیاب ہوتے ہیں کہ رہتی دنیا تک ان کانام زندہ رہ جاتا ہے۔
آپ ایک کامیاب انسان ہیں یا ناکام ترین یہ اہم موضوع نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کی مشکلات میں آپ کے ساتھ کون کھڑا رہا اور آپ کے حالات خراب ہوتے ہی بھاگ جانے والوں میں کون شامل تھا؟