Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Asghar
  4. Do Mulaqatein

Do Mulaqatein

دو ملاقاتیں

جدہ سے جازان تقریباً سات سو کلومیٹر دور ہے۔ جدہ سے لے کر جازان تک تمام راستہ صحرائی ہے۔ ایک بار کام کے سلسلہ میں جازان جارہا تھا۔ دوست نے کہا گاڑی مجھے چلانے دو۔ میں ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھ گیا اور دوست ڈرائیو کرنے لگا۔ میں نے لیپ ٹاپ نکال لیا اور کام کرنے لگا۔ دوست چونکہ نیا ڈرائیور تھا اسے سعودیہ کی تیز رفتار ٹریفک کا علم نہ تھا۔ ہم اپنی سائیڈ پر 110 کی سپیڈ پر جارہے تھے کہ اچانک ایک سعودی لڑکا تیز رفتاری میں گاڑی کو ہمارے قریب لایا اور ہماری گاڑی کے ساتھ ٹکرانے کی کوشش کی۔ دوست گھبرا گیا اور اسی تیز رفتاری میں گاڑی سڑک سے نیچے اتار دی۔

گاڑی سڑک سے اترتے ہی کچی زمین اور ریت کے ٹیلوں میں لڑکھڑاتی ایک جگہ بڑی مشکل سے جا رُکی لیکن اتنے تک گاڑی کا اگلا اور پیچھے والا بمپر ٹوٹ کر الگ ہوگیا۔ اس دوران گھبراہٹ میں میرا لیپ ٹاپ گاڑی کی چھت سے ٹکرایا اور اس کی سکرین چُور چُور ہوگئی۔ شام کا وقت ہوچکا تھا سنسان جگہ پر ہم دونوں دوست پریشان کھڑے تھے۔ کچھ دیر میں ایک پانی کا ٹینکر آتا نظر آیا۔

خوش قسمتی سے ڈرائیور پاکستانی تھا اس نے ہمارے قریب رُک کر مدد کرنے کی پیشکش کی اور فوراً اپنی گاڑی سے زنجیر باندھ کر ہماری گاڑی سے جوڑا اور ریت سے گاڑی نکال کر سڑک پر لا کھڑی کی۔ ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور وہ چلا گیا۔ ہم ٹوٹے ہوئے بمپر گاڑی کی ڈِگی میں رکھ رہے تھے کہ دور سے ایک شخص ہاتھ ہلاتا نظر آیا جب وہ قریب آیا تو آتے ہی ہم سے سوال کیا آپ پاکستانی ہو۔ ہم نے ہاں میں جواب دیا تو وہ رونے لگا۔

اس نے بتایا کہ وہ پاکستان سے تین ماہ قبل ڈرائیور کے ویزہ پہ آیا تھا مگر یہاں اس مزرعہ میں کفیل نے بند کر رکھا ہے اور نہ اقامہ دیا اور موبائل بھی لے لیا۔ ہفتے بعد آتا ہے (خبز) روٹیاں دے جاتا ہے مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ میں ہوں کہاں پر، خیر ہم نے اسے حوصلہ دیا اور اس سے گھروالوں کا نمبر لیا اور پاکستان کال کرکے ساری بات بتائی انہوں نے کہا کہ ان کے رشتہ دار جدہ رہتے ہیں آپ کا نمبر ان کو نمبر دیتے ہیں آپ ان کو ساری بات بتاو۔

تھوڑی دیر بعد ان کے پاکستانی رشتہ دار کی کال آگئی۔ ہم نے ان کو وٹس اپ پر اس مقام کی لوکیشن بھیجی اور اس بندے سے بات کروائی۔ ہم نے اس شخص کو اپنا نمبر بھی لکھ کر دیا اسے کچھ رقم دی اور چل دئیے۔ تین دن بعد اس شخص کے جدہ والے رشتہ دار کی کال آئی کہ ہم نے پولیس میں شکایت کی اور کفیل کے خلاف کاروائی کروائی اور آج اپنے رشتہ دار سے ملنے آئے ہیں اور جلد اسے جدہ لے جائیں گے۔

ایک بار فیملی کےساتھ ابھاء سے مکہ مکرمہ عمرہ کے لئے آرہا تھا۔ ابھاء سے مکہ مکرمہ تقریباً ساڑھ چھ سو کلو میٹر ہے۔ سارا راستہ پہاڑی ہے۔ شمران گاوں کے مقام پر گاڑی کا اے سی کام کرنا چھوڑ گیا۔ اس گاوں میں آبادی بہت کم تھی۔ جمعہ کا دن ہونے کی وجہ سے دکانیں بند تھیں۔ میں نے دور سے دیکھا کہ ایک پاکستانی بزرگ واٹر کولر سے پانی بھر رہا تھا، گاڑی اس کے پاس روکی اور پوچھا کہ یہاں کوئی مکینک ہے؟ انہوں نے بتایا وہ سامنے موڑ میں پاکستانی ہوٹل کے ساتھ ورکشاپ ہے اور مکینک بھی پاکستانی ہے۔

ہم وہاں پہنچے تو دکان بند تھی۔ ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک بندہ باہر نکلا۔ اس نے انتہائی خوش اخلاقی سے خوش آمدید کہا اور بتایا کہ وہ گوجرانوالہ سے ہے۔ اسے اپنا مسئلہ بتایا تو اس نے کہا کہ میری فیملی بھی یہیں رہتی ہے آپ اپنے اہلخانہ کو اندر اے سی روم میں بٹھا دیں کھانا کھائیں اتنے تک میں آپ کی گاڑی کا اے سی چیک کرتا ہوں۔ اے سی کی مرمت کے دوران اس بزرگ کا ذکر ہوا جس نے ہمیں مکینک کا پتہ بتایا تھا۔

اس مکینک نے کہا اس بزرگ کو پاکستان سے آئے بہت عرصہ ہوگیا اور ابھی تک عمرہ نہیں کرسکا بہت روتا ہے بے چارہ، پر کفیل بہت ظالم ہے۔ میں نے کہا اس بزرگ کو بلاو، وہ آیا تو میں نے کہا اپنے کفیل سے بات کراو اس سے آپ کے عمرہ کی اجازت لیتا ہوں وہ ہنسنے لگ پڑا کہ وہ بہت شیطان انسان ہے کبھی بھی نہیں مانے گا۔

میں نے کہا آپ اسکا نمبر تو دو نمبر ملا تو میں نے ڈائل کرنے سے پہلےوالیِ کربلاء کی جانب التجائی نظروں سے دیکھا اور اللہ اللہ کرکے کال ملا دی۔ دعا سلام کے بعد کہا کہ میں اس بزرگ کے علاقہ سے ہوں آج عمرہ پہ جانے لگا ہوں آپکی اجازت ہوتو ساتھ لیتا چلوں دو دن تک واپس چھوڑ دوں گا۔ اس نے کہا ہاں ٹھیک ہے چلے جاو اور فون بند کردیا۔ اس بزرگ کی خوشی کی انتہاء نہ تھی۔ جلدی سے کپڑے بدلے اور ہم مکہ مکرمہ کی جانب بڑھ گئے۔

یہ واقعات مجھے جاوید چوہدری صاحب کی ایک تحریر پڑھ کر یاد آئے جس میں انہوں نے استنبول میں برفانی طوفان کی وجہ سے پھنس جانے کی کہانی لکھی اور کیسے پھر انہیں ایک بھوکا بچہ ملا جسے انہوں نے کھانا کھلایا۔

ہم جتنا مرضی جدت پسند ہوجائیں۔ سائینسی باتیں کریں اور بات بات پر خدا کو پس پشت ڈال کر تاویلیں گھڑیں یہ ایک حقیقت ہے اس دنیا کا پورا نظام، ہر انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اس رب کے ہاتھ میں ہے۔ ہماری زندگی میں کب کس نے آنا اورکب کس نے چلے جانا یہ بھی طے ہوچکا ہے۔ ہم نے کب، کہاں اور کس لئے کسی کو ملنا یہ ہمیں بچھڑنے کے بعد پتہ چلتا ہے۔

ہماری زندگی میں کچھ حادثات اس لئے بھی ہوتے ہیں کہ کہیں خدا کے کسی بندے کو ہماری ضرورت ہوتی ہے اور ہم نے اس سے ملنا ہوتا ہے۔ کچھ تکالیف وقتی ہوتی ہیں مگر اس سے ملنے والی راحت ابدی ہوتی ہے۔ جیسے ہماری گاڑی کے ساتھ پیش آنے والا حادثہ کسی کی قید سے رہائی کا سبب بنا اور گاڑی کے اے سی کی خرابی کے سبب ایک شخص کو خدا کے گھر کی زیارت نصیب ہوئی۔

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra