Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Asghar
  4. Badnuma Chehra

Badnuma Chehra

بدنما چہرہ

مجھے عربوں کی ایک بات بہت پسند ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، نہ بلاوجہ کسی کے گھر جھانکتے نہ کسی کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کرتے ہیں، میں یورپ یا کسی اور ملک نہیں گیا تو مجھے صرف عرب کے بارے ہی معلوم ہے۔ عرب خصوصاً جب کوئی لڑکا شادی کے قابل ہوتا ہے تو رشتہ طے ہونے کے بعد اس لڑکے کو الگ گھر دیا جاتا ہے جس میں ضروریاتِ زندگی کی تمام چیزیں موجودہوتی ہیں۔

رخصتی کے بعد دلہن کو سیدھا اس کے نئے گھر لے جایا جاتا ہے۔ شادی کے بعد پھر اس لڑکے کے باپ اور بھائیوں کا لڑکے کی غیر موجودگی میں اس کے گھر آنا سختی سے منع ہوتا ہے، اور اگر بمع فیملی آنا بھی ہوتو مردوں اور خواتین کے لئے الگ الگ بیٹھنے کا انتظام ہوتا ہے۔ ساس سسر نند ہمیشہ کے لئے ان کے ساتھ نہیں رہتے۔

مجھے ایک سعودی نے بتایا کہ اس کے بیٹے کے بیٹے بھی جوان ہوچکے ہیں پر اس نے آج تک اپنی بہو کا چہرہ نہیں دیکھا، اسی طرح اگر کوئی مرد یا خاتون اپنے شریک حیات سے خوش نہیں ہے تو خاندان کے بزرگ صلح کروانے کی کوشش کرتے ہیں اگر صلح ہوئی تو ٹھیک ورنہ مرد اور خاتون جو فیصلہ کرے وہ سب قبول کرتے ہیں، طلاق کے بعد دونوں خاندانوں کی طرف سے مکمل خاموشی رہتی ہے۔

ہر خاندان اپنے گھر میں اپنی زندگی میں مگن رہتا ہے۔ کوئی بے روزگار ہے، بے اولاد ہے، کوئی زانی ہے کوئی شرابی ہے کوئی بے نماز ہے کوئی رات دیر تک جاگتا ہے کوئی صبح جلدی اٹھتا ہے کوئی کیا کام کرتا ہے کسی سے کسی کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔ شائد وہاں قانون کی بالادستی کے بعد امن کی دوسری بڑی وجہ یہی ہے۔

اس کے برعکس اگر ہم اپنے ملک میں دیکھیں تو ہمیں اپنی زندگی سے زیادہ دوسروں کی فکر لاحق ہے، اپنے گھر کے تماشے نہیں دیکھتے بلکہ دوسروں کی دیوار کی اوٹ سے کان لگانے کا شوق زیادہ ہے۔ ایسے گھٹیا رشتہ دار بھی دیکھے ہیں جو نئی نویلی دلہن کے صبح سب سے پہلے اٹھ کر نہانے پر نظر رکھے ہوتے ہیں اور پھر سب ایک دوسرے کو بتاتے ہیں "وہ اتنی سردی میں بھی نہا رہی تھی" شادی کے چند ماہ بعد ہی ساس کو یہ بات بے چین کرنے لگتی ہے کہ کہیں اس کی بہو بانجھ تو نہیں چاہے اپنا بیٹے میں ہی کوئی فالٹ کیوں نہ ہو۔

ہمارے ہاں طلاق کی بڑی وجہ خود میاں بیوی کم اور دوسرے لوگ زیادہ ہوتے ہیں۔ میں نے ایسے کئی لوگ دیکھے ہیں کہ جب انہیں پتہ چلے کہ فلاں میاں بیوی میں جھگڑا چل رہا ہے تو صلح کی بات نہیں کریں گے بلکہ ان کی عیب جوئی کریں گے تاکہ جلتی بجھے نہ بلکہ مذید بھڑکے۔

آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اب لڑائیاں آمنے سامنے نہیں لڑی جاتیں بلکہ فریقین کو انباکس میں مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ فرض کیا کسی انسان کے ساتھ کسی شخص کو درینہ حسد تھا اب جیسے اسے معلوم ہوا کہ اس کے مخالف کے ساتھ یہ مسئلہ چل رہا ہے تو یہ اس کے مخالف کے انباکس میں جاکر دل کی بھڑاس نکالے گا اور پھر تب خود کو کامیاب تصور کرے گا جب اسے مطلوبہ ٹارگٹ اچیو ہوجائے گا۔

بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو بظاہر ہمارے ہوتے ہیں مگر دل کے کسی نہ کسی کونے میں وہ ہمارے لئے نفرت رکھے ہوتے ہیں جو وقت آنے پر ظاہر کرتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا بدنما چہرہ ہے جس میں ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے سے زیادہ دوسروں کی زندگیوں میں زہر گھولنے کی عادت ہے۔

کوئی بے روزگار ہے تو گھر والوں کے بعد محلہ والے اسے ایسے دیکھتے ہیں جیسے اسے چھوت کی بیماری ہو، کوئی بے اولاد ہو تو اس پہ ہم ترس کھاتے ہیں اور اسے بیچارہ سمجھ کر ڈھکے چھپے الفاظ میں مذید تکلیف دیتے ہیں، کوئی بے نماز ہے تو اس سے نفرت کرتے ہیں چاہے خود مسجد صرف جمعہ والے دن جاتے ہوں، کسی کے گھر لڑائی ہو تو چھت پر چڑھ کر ان کے گھر جھانکتے ہیں اور اندر اندر سے خوش ہوتے ہیں۔

کوئی انسان کسی مصیبت میں پھنس جائے تو بظاہر تو ہمدردی جتاتے ہیں مگر اپنے اندر ایک کمینی سے خوشی بھی محسوس کرتے ہیں، کسی کی بیٹی اگر گھر چھوڑ کر کسی کے ساتھ چلی جائے تو سپیشل پورے محلے میں اور رشتہ داروں کو کال کرکے بتاتے ہیں کہ فلاں کی بیٹی بھاگ گئی ہے تمہیں بتا رہے ہیں آگے کسی کو مت بتانا، کوئی مر جائے تو اس کے جنازے پر بیٹھ کر اس کی برائیاں کرتے ہیں، کہیں حادثہ ہوجائے زخمیوں کے خون صاف کرنے سے پہلے ان کی جیبیں صاف کرتے ہیں۔ ایسی تکلیف کسی کو مت دیں جو آپ اپنے لئے برداشت نہیں کرسکتے۔

ایسی بہت سی برائیاں اور غیر اخلاقی عادتیں ہیں جو ہم میں بری نہیں سمجھیں جاتیں اور نہ ہم نے ان پر کبھی توجہ دی، مگر یہ دنیا گول ہے آج ہم کسی کی عزت خراب کر رہے تو یہ گھومتے گھماتے ایک دن ہمارے اپنے سامنے آن کھڑی ہوگی۔ اپنے بچوں کو ابھی سے ایسی تربیت دینی ہوگی کہ ہماری اولاد ایک باشعور معاشرہ تعمیر کرنے میں معاون ثابت سکے۔

Check Also

Likhari

By Muhammad Umair Haidry