Ana Parasti Rishton Ki Qatil
انا پرستی رشتوں کی قاتل
مرد اور عورت کو اللہ رب العزت نے خاص مقام عطاء کیا ہے۔ جیسے مرد کو عزت و احترام سے نوازا ہے ویسے ہی عورت کو ایک ماں، بہن، بیوی اور بیٹی جیسے مناصب دے کر دنیا میں محترم کردیا ہے۔ ایک ماں صرف ایک عورت ہی نہیں بلکہ ایک نسل کی تربیت کرنے والی ہستی ہوتی ہے۔ ماں کی تربیت معاشرے کو ایک اچھا یا برا مرد تیار کر کے دیتی ہے۔ اور اس تربیت کا اثر اس مرد کی پوری نسل میں ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
عورتوں کے بارے میں تو رسولِ اعظم ﷺ کی کئی احادیث ملتی ہیں جن میں خواتین کے ساتھ نرمی برتنے اور انہیں محبت و عزت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک ماں ہی وہ عورت تھی جن کے بطن سے نبی پاک ﷺ جیسی ہستی نے جنم لیا اور پھر دنیا پر انقلاب برپا کرڈالا۔ یہ حسن و خلق سیدہ آمنہؑ جیسی ماں کی ہی تربیت تھی جس وجہ سے عرب جیسے معاشرے میں آپ ص کو صادق و امین کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
یہ عورت ہی تھی جسے ملکیۃ العرب کہا جاتا تھا مگر اپنے شوہر کے گھر آکر اپنے تن من دھن تک اپنے شوہر کی نعلین پہ قربان کردیا۔ یہ وہی خدیجہ تھیں جن کے اونٹوں کی قطاریں مکہ سے شام تک چلتی تھیں مگرجب شوہر پہ زمانے کی سختیاں آئیں تو اف تک نہ کی اور شعب ابی طالبؑ میں درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کیا۔ جنت کی عورتوں کی سردار اسی عظیم ماں کی بیٹی کو کہا گیا ہے۔
خود جنت کی عورتوں کی سردار تھیں مگر یہ وہ زوجہ تھیں جو شوہر کی آسانی کے لئے خود چکی پیستی تھیں۔ یہ عورت ہی تھی جو بیٹی ہونے کے باوجود اپنے باپ رحمت للعالمین ﷺ کے لئے باعث تکریم تھیں۔ آپ آتیں تو آقا کریم ﷺ کھڑے ہوکر استقبال کرتے تھے۔ سیدہ کائنات کی تربیت کا ہی اثر ہے کہ خود بھوکے رہ کر بھوکوں کو کھانا کھلانے والے حسنین کریمین ؑ کے دستر خوان آج تک جاری و ساری ہیں۔ اولادِ فاطمہؑ میں سیدہ زینبؑ نے اپنے کردار و گفتار سے ثابت کیا کہ واقعی ایک عورت کس قدر عظیم المرتبہ ہے۔
بے شک عورت خالق اکبر کی خوبصورت ترین تخلیقات میں سے ایک ہے۔
جیسے اللہ تعالیٰ نے ایک عورت کے ساتھ حسن خلق اور محبت کے ساتھ پیش آنے کا مرد کو حکم دیا ہے ویسے ہی ایک عورت کو مرد کی اطاعت اور احترام کا بھی سختی سے حکم دیا ہے اور مرد کو عورت کا حاکم کہا گیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہے مرد یا عورت صرف اپنے لئے تو عزت و احترام چاہے مگر خود وہ نہ عزت دے اور نہ ہی محبت سے پیش آئے۔ ایک بیوی ہونے کے ناطے عورت اپنے حقوق تو مانگتی رہے مگر خود وہ اپنے شوہر کو پاوں کی جوتی سمجھے تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا کہ بدلے میں مرد بھی اس کے ساتھ حسن و اخلاق سے پیش آئے۔ ایک دوسرے کے حقوق دونوں پہ واجب ہیں نہ کہ صرف ایک پر۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ایک ہاتھ سے صرف تھپڑ ہی لگتا ہے۔
میں نے بہت سے مرد دیکھے ہیں جو اپنی بیوی کے حقوق پورے نہیں کرتے مگر باہر کئی خواتین کے لئے ہمدریاں لوٹاتے پھرتے ہیں۔ ایک بیوی کے ہوتے ہوئے مرد کی باہر کئی خواتین سے دوستیاں بھی دیکھی ہیں کچھ لوگ تو برملا اس بات کا اعتراف سوشل میڈیا پر کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی بیوی کے ہوتے ہوئے ان کی کئی فرینڈز بھی ہیں۔ یہ برائی صرف مرد میں ہی نہیں ہے بلکہ کئی ایسی خواتین بھی دیکھی ہیں جو شوہر کے ہوتے ہوئے باہر غیر مردوں سے مراسم رکھتی ہیں اور جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ شوہر کےہوتے ہوئے دوسرے مرد کے ساتھ کیوں ریلیشن میں ہو تو جواب ملتا ہے میرا شوہر مجھ پہ توجہ نہیں دیتا اس لئے بدلے میں یہ کر رہی ہوں یعنی وہاں بھی عورت ایک مرد کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے اور خود کو مظلوم بنا کر پیش کرتی ہے۔
میں نے کئی گھر صرف اس وجہ سے ٹوٹتے دیکھے کیوں کہ مرد و عورت میں سے کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرنا چاہتا تھا اور نہ ہی جھکنا گوارہ کرتا تھا۔ جہاں رشتے رکھنا ہوں وہاں تھوڑا سا جھک جانے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی لیکن اگر مرد یا عورت کی تربیت ہی ایک انا پرست اور متکبر گھرانے میں کی گئی ہوجہاں والدین بچوں کو صرف یہ کہتے ہوں کہ ہم کیوں اپنے رشتہ داروں کے سامنے جھکیں، ہم کیوں ہار مانیں اور ہم کیوں کسی کی پرواہ رکھیں تو پھر وہاں بچوں کے گھروں میں کبھی سکون نہیں آسکتا۔
ہمارے پنجاب میں بزرگ عورتیں کہتی ہیں کہ بیٹے کا گھر ماں بناتی ہے اور بیٹی کا گھر بھی ماں ہی خراب کرواتی ہے۔ جو مائیں اپنی اولاد کے کان بھرتی رہیں اور انہیں صرف شر کی ہی تربیت دیں وہاں خیر کی امید رکھنا محال ہے اور جو باپ اپنی بیٹیوں کو یہ کہتے رہیں کہ بیٹا کبھی شوہر کے سامنے جھکنا نہیں ڈٹ کر مقابلہ کرنا پھر وہاں بیٹیاں طلاق لے کر ہی واپس آتی دیکھی ہیں۔
عرب معاشرے میں طلاق ہوجانا ایک عام بات ہے اور طلاق کے بعد مرد و عورت کا آگے شادی کرلینا برا نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی وہاں طلاق کے بعد مرد عورت ایک دوسرے کو ذلیل کرتے ہیں مگر پاکستان میں حالات اس کے برعکس ہیں۔ یہاں مرد اگر بیوی کو طلاق دے دے تو کہا جاتا ہے بیچاری پہ ظلم کرڈالا۔ اور مرد کو ایک بدکردار مرد ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے اور اگر عورت نے اپنی مرضی سے طلاق لی تو کہا جاتا ہے کہ ضرور اس کا کردار ایسا ہوگا جس وجہ سے مرد نے چھوڑ دیا۔ حالانکہ حقیقت اس کے یکسر مختلف بھی ہوسکتی ہے۔ مگر چونکہ ہمارے معاشرے میں منفی ہی سوچ پروان چڑھتی ہے تو یہاں مثبت کو ہمیشہ منفی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
یہاں طلاق کے بعد مرد اور عورت ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کی کمزوریوں کو بڑے زور و شور سے دوسروں کو بتاتے ہیں لیکن اس چیز کا نقصان صرف اسی مرد و عورت کو ہی ہوتا ہے لوگ تو صرف مزے لیتے ہیں۔ لوگوں کو دوسروں کی ذاتی زندگیوں کے راز سننے میں مزا آتا ہے۔ میں ایسے مرد حضرات کو بھی جانتا ہوں جن کی اپنی بیویاں ایک وقت میں کئی مردوں کے ساتھ تعلقات رکھے ہوئے ہیں مگر وہ مرد حضرات دوسرے افراد کی ذاتی زندگیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ عورت کو ایک استعمال شدہ چیز کے طور پہ لیا جاتا ہےکئی مرد ایسی عورتوں کا سہارا بننے کے لئے آگے بڑھتے ہیں مگر پس پردہ ان کے مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔ انہیں صرف عورت کے جسم سے مطلب ہوتا ہے چاہے وہ اس عورت کا ہمدرد بن کر حاصل کرلے یا کوئی بھی رشتہ بنا لے ایسی طلاق یافتہ عورتیں بھی ہر مرد کو اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھ کر اپنی تمام تر کمزوریاں بتا دیتی ہیں اور پھر عمر بھر بلیک میل ہوتی ہیں۔
میرے خیال سے جہاں تک ممکن ہو رشتہ نبھانا چاہیے جھک جانے میں کوئی عیب نہیں ہوتا کوئی آپ کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے پہ راضی ہو اور آپ کو حاصل کرکے آپ کی ہر طرح کی خوشیاں پوری کرنے کی کوشش کرتا ہو آپ کو عزت احترام اور محبت دیتا ہو لیکن بعض وجوہات کی بنا پر وہ کہیں آپ کی امید پر پورا نہیں اتر سکا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہم اپنی انا پرستی کو نبھانے کے چکر میں زمانے میں اسے ذلیل کرنے لگیں حالانکہ عزت و ذلت تو رب کے ہاتھ میں ہے ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ دوسروں کے لئے برا سوچنے والے خود ذلیل و رسواہوجاتےہیں۔
اپنے شریک حیات کے متعلق اگر کوئی شکایت ہے تو اسے اسی کے ساتھ شئیر کریں یا اسی سے جواب طلب کریں نہ کہ آپ غیروں کے سامنے بیان کریں۔ غیر کبھی بھی آپ کے اپنے ہمدرد نہیں بن سکتے وہ تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح آپ کو تکلیف میں دیکھیں۔
زندگی بہت مختصر ہے اسے لوگوں کے کہنے پہ نہ جئیں بلکہ ویسے جئیں جس میں آپ کو سکون میسر ہو۔ وقتی سہارے بہت ہی کمزور ہوتے ہیں جن کے ٹوٹنے کے بعد انسان عمر بھر پچھتاتا ہے۔