Akhir Behissi Kyon?
آخر بے حسی کیوں؟
ایک ٹی وی چینل کا اینکر ایدھی اولڈ ہاؤس میں رہائش پزیر لوگوں کا انٹرویو کر رہا تھا، ایک ستر سال کے بزرگ سے جب پوچھا کہ آپ یہاں کب سے ہو تو انہوں نے بتایا کہ میں دس سال سے رہ رہا ہوں، پھر اس اینکر نے پوچھا آپکو یہاں کون چھوڑ گیا تھا تو انہوں نے کہا کہ چھوٹا بھائی چھوڑ گیا تھا کیوں کہ جس گھر کے پورشن میں رہتا تھا وہ حصہ اس نے کرایہ پہ دے دیا اور میرے رہنے کی اور کوئی جگہ نا تھی اس لئے وہ مجھے یہاں چھوڑ گیا، اگلا سوال اینکر نے پوچھا کہ بابا جی آپ کے بھائی کیا کام کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اپنی فیملی سمیت انگلینڈ رہتا ہے اور یہاں اس کی بہت بڑی کوٹھی ہے، اگلے سوال کا جواب سن کر اینکر کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے، جب اس نے پوچھا بابا جی آپ کے بچے ہیں تو انہوں نے کہا جی ہاں تین بیٹے ہیں اور تینوں انگلینڈ میں ہی مقیم ہیں، اور ایک بیٹی ہے وہ شادی شدہ ہے۔ اینکر نے پوچھا بابا جی تو بیٹے ملنے آتے ہیں تو بابا جی نے اپنے آنسوں پہ قابو پاتے ہوئے نفی میں جواب دیا۔
ہم لوگ جتنے دین دار ہیں اس سے زیادہ منافق بھی ہیں، چار پانچ لاکھ والا حج کا مہنگا پیکج لے کر حج پہ نکل جاتے ہیں جبکہ اپنے ہی خاندان میں کئی ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو دو وقت کی روٹی کے لئے ترستے ہیں یا پھر بستر بیماری پہ پڑے رہتے ہیں لیکن دوائی نہیں خرید سکتے۔ ہم بڑی بڑی مسجدیں بنوا لیتے ہیں ان میں دو ٹن کے اے سی بھی فِٹ کروا لیتے ہیں اور پھر مسجد کے باہر مسجد کے نام کے نیچے اپنا نام لکھنا نہیں بھولتے لیکن اسی محلے کے کئی خاندان ایسے ہیں جن کے پاس اپنے بچوں کو پہنانے کے لئے کپڑے نہیں ہوتے۔ ہمیں سوشل میڈیا پہ بہنیں بنانے کا شوق کھائے جارہا ہوتا ہے لیکن اپنی سگی بہنیں ہماری راہیں تکتی رہتی ہیں، ہم نماز نہایت ہی خشو خضو کے ساتھ پڑھتے ہیں لیکن اگر بوڑھے والدین میں سے کوئی پانی کا گلاس مانگ لے توانہیں آنکھیں دکھانے لگتے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ پانچ ہزار دوست لیکن اپنے سگے بھائی سے دو سال سے بول چال بند ہے۔
آج معاشرے میں یہ بے حسی، یہ خود غرضی، یہ سنگدلی آخر کیوں؟ یہ ہم نے کبھی نہیں سوچا، آخر ایسا کیوں ہے کہ جو والدین ساری زندگی اپنی اولاد کو خون پسینہ بہا کر پالتے ہیں پھر انکو پڑھاتے لکھاتے ہیں، انکی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہیں، خود بھوکا رہ لیتے ہیں لیکن اپنی اولاد کو بھوکا نہیں دیکھ سکتے، آخر کیوں اکثر والدین اولاد کے جوان ہونے کے بعد لاوارثوں کی طرح زندگیاں گزارتے نظر آتے ہیں؟ آخر کیوں ہم بہت زیادہ عبادات کر کے بھی سنگدل ہیں؟ آخر کیوں ہم حج و زیارات پہ کثرت سے جانے کے باوجود بھی معاشرے میں موجود ضرورت مند افراد کے لئے بے حِس ہیں؟
امام حسینؑ نے یذیدی فوج کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ایک جملہ بولا تھا جو کہ شائد ہماری پوری زندگی کی مشکلات کا نچوڑ ہےاس جملے کا مفہوم یہ تھا کہ تم کیسے حق کو پہچانو جب کے تمہارے شکموں میں حرام بھراہوا ہے۔
جب ہم اپنی اولاد کو حرام حلال کی تمیز کئے بغیر خوراک کھلائیں گے، انکی خواہشات پوری کرنے لئے ناجائز طریقہ سے آئی رقم خرچ کریں گےتو ہمارا کیا خیال ہے ہماری اولاد جوان ہوکر معاشرے کا ایک اچھا فرد ثابت ہوگی؟ کیا وہ ہماری عزت کرے گی؟ کیا وہ دوسروں کا درد بانٹے گی؟ کبھی بھی نہیں جس چیز کی بنیاد ہی حرام سے ہو اس کا انجام حلال کیسے ہوسکتاہے؟
ہم روکھی سوکھی کھا لیں لیکن اپنی اولاد کو رزقِ حلال کھلائیں ورنہ یہ نا ہو بوڑھاپے میں ہم بھی کسی اولڈ ہاوس میں پڑے گل سڑ رہے ہوں۔