Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ali Akbar Natiq/
  4. Sheb e Abi Talib Ka Dukh

Sheb e Abi Talib Ka Dukh

شعبِ ابی طالب کا دُکھ

آج مَیں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ شعبِ ابی طالب کو ڈھونڈ کر دم لوں گا۔ ایک دوست حسن صادق صاحب نے اِس معاملہ اصل میں کچھ معلومات دیں اگرچہ وہ درست نہیں تھیں لیکن یقین مانیے مَیں نے اُنھی معلومات کو بنیاد بنا کر تلاش شروع کی اور آخر کار شعبِ ابی طالب مل گیا۔ اصل میں یہ جگہ کوہِ ابی قبیس کے عین عقب میں ہے۔ چاروں طرف پہاڑ ہیں اور درمیان میں یہ گھاٹی نما وادی ہے جو زیادہ سے زیادہ ایک پنجاب کے چھوٹے دیہات جتنی ہے۔

اگر آپ کوہِ ابی قبیس پر چڑھیں تو شمال کی جانب نیچے یہ وادی ہے۔ اب یہاں ایک چوراہا بنا دیا گیا ہے اور چاروں طرف پہاڑوں سے سرنگیں نکال کر راستے بنا دیے ہیں۔ آجکل اَس علاقے کو عزیزیہ کہتے ہیں۔ کعبہ خانہ سے زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ اِس گھاٹی میں صرف ایک طرف سے ہی رستہ تھا اور وہ جنوب کی سمت تھی۔

قریش نے جب مقاطعہ کیا تو ایک دو سو بدمعاشوں کو گھاٹی اور حرم کے درمیان اُس چھوٹے سے راستے پر ننگی تلواریں دے کر بٹھا دیا۔ یہ مقاطع اول تو صرف بنی ہاشم سے تھا اور اُن میں بھی اُن سے جو مسلمان ہو چکے تھے اور رسولِ خدا کے حواری تھے۔ مثلاً، ابوطالب اور اُس کی ساری اولاد اور حمزہ اور شامل تھے۔ عباس اور ابولہب اگرچہ بنی ہاشم میں سے تھے لیکن وہ اپنے کفر کی بنیاد پر اِس مقاطعہ سے باہر ہو گئے تھے۔ عباس بھی تب مسلمان نہیں ہوا تھا۔

دوئم دیگر قبیلے والے جو اگرچہ مسلمان ہو چکے تھے لیکن اُن سے مقاطع نہیں کیا گیا تھا اور نہ وہ شعب میں گئے تھے۔ کوہِ ابی قبیس کو کافی زیادہ کاٹ دیا گیا ہے لیکن جو بچ گیا ہے مَیں گھاٹی کی طرف سے اُس ابوقبیس پر چڑھ گیا اور اُسے اوپر سے بغور دیکھا۔ چاروں طرف پہاڑ ہیں اور درمیان میں یہ ایک کنواں نما گھاٹی ہے۔ اصل میں یہ گھاٹی حضرت ابوطالب کی ذاتی جاگیر تھی جس میں اُن کے اونٹ چرتے تھے، غلہ جمع کیا جاتا تھا اور جانور باندھے جاتے تھے۔ آپ یوں سمجھ لیں شعبِ ابو طالب اصل میں حضرت ابوطالب کا مال مویشی کا احاطہ تھا اور چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا۔

یہ مقاطع اصولاً اُن کے ساتھ، مذہبی سماجی، معاشی اور سیاسی اور سماجی بنیادوں پر کیا گیا تھا۔ تاکہ اُنھیں کعبہ کے ذریعے اُن تجارتی سہولیات سے کاٹ دیا جائے جو سب اہلِ مکہ کو حاصل تھیں پھر یہ تنگ آ کر اپنے نظریات سے تائب ہو جائیں۔ یہ معاہدہ تین سال تک جاری رہا اور ابوطالب اپنے تمام کنبے سمیت اِس گھاٹی میں رہے۔ تین سال بعد معاہدہ ختم کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ مکہ کے کچھ لوگوں نے اِس کی مخالفت کی اور معاہدہ نامہ کو دیمک چاٹ گئی۔

جب آپ سعی کرکے مروہ سے نکلیں تو عین شمال مشرق کی طرف رسولِ خدا سے منسوب گھر نظر آتا ہے۔ دراصل وہ گھر اور اُس کا سارا صحن عبدالمطلب کا احاطہ تھا جس میں ابوطالب کا گھر بھی تھا، تو ظاہر ہے، وہیں رہے بسے۔ اُس گھر اور کھلے صحن کے عین عقب میں ابی قبیس کی پہاڑی ہے اور پہاڑی کے دوسری طرف گھاٹی ہے لیکن اُس میں جانے کے لیے آپ کو جنوب کی طرف سے کم و بیش دو کلومیٹر چل کر آنا پڑے گا۔ یہ جگہ عزیزیہ کہلاتی ہے۔ کسی سے پوچھ لیں۔

ہاں اگر آپ مکہ میں کسی سے بھی شعبِ ابی طالب کے نام سے پوچھیں گے تو وہ نہیں بتا سکے گا۔ مَیں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ لوگ یہاں صرف ثواب کمانے اور نیکیاں اکٹھی کرنے آتے ہیں تاکہ وآپس جا کر بتا سکیں کہ اب میں حاجی لقلق ہو آیا ہوں لہذا مجھ سے ڈرو۔ ہر وقت نمازیں اور نوافل میں غرق رہتے ہیں یا خریدو فروخت کرتے ہیں۔ اگر کوئی وہاں کھجوریں تقسیم کر رہا ہو تو کھجوریں اکٹھی کرتے ہیں، تاکہ واپس جا کر بتائیں کہ 50 ریال کلو آئی ہیں اور یہی اجوہ ہیں۔

خیر ابھی تک کوہِ ابی قبیس پر بنی امیہ کا قبضہ جاری ہے یعنی اُنھوں نے آدھے پہاڑ پر محل بنا لیا ہے اور باقی پر کام جاری ہے۔

Check Also

Zahiri Khubsurti

By Saira Kanwal