Shahi Ewano Ki Ghulam Gardishon Ka Safar
شاہی ایوانوں کی غلام گردشوں کا سفر
یہ کل کا قصہ ہے، ہم نے فرقان میاں کے کان میں کھجلی کی کہ بھائی اٹھو ذرا اپنی گاڑی کا پیڈل گھماو، اُن بزرگانِ دین و ادب سے ہو کے مل آئیں جو شاعر بھی ہیں اور اپنی طبیعت میں افسری مزاج بھی رکھتے ہیں۔ اور بستے اُن فقیرانہ عدن کی بستیوں میں ہیں جنھیں ہم آپ ڈی ایچ اے اور بحریہ کا نام دیتے ہیں۔ یوں بھی پاکستان (اپنے گاوں) سے امریکہ یعنی اسلام آباد آئے ہوئے ہمیں آٹھ ماہ نکل لیے تھے اور اِس عرصے میں کچھ ایسی تندرستانہ اور بیمارانہ کل ملا کے مصروفیات رہیں کہ یاران ِ دیرینہ سے ملاقاتیں نہ ہو پائیں۔ اب طے کیا کہ جو اپنے اپنے ہیں، اُن سے تو ضرور ہی مل لیا جائے اور جو این جی اوز کے دوست ہیں۔ اُن سے نہ ہی ملا جائے تو اچھا ہے۔
لیجیے بھائی پہلے دورہ ڈی ایچ اے کا فرمایا اور اظہار الحق صاحب کو اُن کے دیوان خانے میں جا کر سلامی کا مجرا کیا۔ اظہار صاحب سے دیرینہ یاد رہی کہ جب ہم آئی ایٹ میں کتابیں چلاتے تھے۔ شاعری اُن کی پڑھتے تھے اور دمشق و بصرہ و بغداد کی سیر کرتے تھے۔ اظہار صاحب نے ہمارا شاہی استقبال کیا۔ چائے دودھ والی مکس ان کا غلام لایا، اُسے پیتے پیتے اظہار صاحب سے دو گھنٹہ بھر باتیں چلیں۔ اظہار صاحب کی طبیعت میں ایک خاص قسم کی عاجزی ہے جس کے اندر سے افسری کی شاخیں پھوٹتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اُن کے اشعار نچلا نہیں بیٹھتے، شاہی ایوانوں کے ہاو ہُو میں سے اُٹھتے ہیں اور اُن کے عقاب پہاڑوں کی چٹانوں کی بجائے محلات کے کنگروں پر بیٹھتے ہیں اور وہیں کے کبوتروں سے راہ و رسم رکھتے ہیں۔
اِسی نسبت سے اظہار صاحب کے متعلق ایک لطیفہ بھی سُن لیجیے جو مجھے نظم کے مشہور شاعر وحید احمد صاحب نے سنایا۔ کہتے ہین کہ مجھ سے پہلے ملٹری اکاونٹس کے کرتا دھرتا اظہار صاحب تھے۔ اُن کے دفتر کا ایک ملازم جو اب میرے ماتحت تھا کہنے لگا، سر آپ سے پہلے یہاں ایک شاعر ہوتے تھے۔ اظہار الحق صاحب اُن کا نام تھا، بڑے سخت تھے۔ اپنے والد صاحب کا بہت حد درجہ احترام کرتے تھے۔ اُن کےوالد صاحب کوئی عالمِ دین تھے۔ وہ جب دفتر میں آتے اظہار صاحب اُن کے سامنے ایک چھوٹے بچے کی طرح بن جاتے۔ اُن کی دیکھا دیکھی سارے دفتر نے بھی اُنھیں اپنا باس اور بزرگ سمجھنا شروع کر دیا۔ ایک بار ہوا یہ کہ اظہار صاحب کے والد صاحب آئے تو مَیں نے اُنھیں دوسرے مہمانوں کی طرح معمول کے مطابق ویٹنگ روم میں بٹھایا اور اظہار صاحب کو اطلاع دی۔ وہ جلدی سے اٹھے اور اپنے والد صاحب کو لے کر اپنے کمرے میں آ گئے۔ لیکن اِس دوران مَیں نے اندازہ لگایا کہ وہ مجھے مسلسل غصے سے گھور رہے تھے۔ جب وہ چلے گئے تو مجھے بلایا اور کہا، تم نے والد صاحب کو ویٹنگ روم میں کیوں بٹھایا، سیدھے میرے کمرے میں کیوں نہ لے کر آئے۔ دفع ہو جاو تم آج سے سسپینڈ ہو۔ لو جی ایک منٹ میں اتنی سی بات پر میرا کباڑہ کر دیا۔ بڑی مشکلوں سے دوبارہ بحال ہوا، اور تہیہ کر لیا کہ اب غلطی نہیں کروں گا۔ کچھ عرصے بعد اُن کے والد صاحب پھر آ گئے۔ اب کے اظہار صاحب ایک انتہائی اہم میٹنگ میں مصروف تھے لیکن مَیں دوبارہ معطل نہیں ہونا چاہتا تھا اور اُنھیں سیدھا کمرے میں لے گیا۔ اب دیکھتا ہوں تو اظہار صاحب کا موڈ پھر بہت خراب ہے۔ خیر جب اُن کے والد صاحب چلے گئے تو مجھے بلایا اور غصے سے بولے تمھیں اندازہ نہیں تھا کتنی اہم میٹنگ تھی؟ دو منٹ رُک نہیں سکتے تھے۔ یو سسپینڈ۔ تو سر جی اظہار صاحب بھی بس شاعر ہی تھے۔ افسری تو اُنھیں اللہ نے دے دی۔
یہ لطیفہ مجھے بہت پسند آیا، جی چاہا آپ کو بھی سنا دوں، باقی دروغ بر گردنِ ِ ملازم، جس کی گردن اظہار صاحب نے ناپی تھی۔ خیر یہ سب باتیں تو ایک طرف لیکن مَیں کہہ دوں کہ اظہار صاحب مجھے تو بہت معصوم آدمی لگے ہیں یا پھر مَیں کوئی بہت ہی چالاک آدمی ہوں۔ خیر اللہ اُن کو طویل عمر دے اور خضر کا شریکِ راہ کرے۔
وہاں سے نکلے تو افتخار عارف صاحب کے ہاں جا براجے۔ افتخار بھیا پچھلے کتنے ہی دنوں سے بیمار چل رہے ہیں۔ اور ہم اُن کی صحت کی دعائیں کرتے ہیں۔ روز بروز مزید بوڑھے ہوتے جاتے ہیں۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ وا للہ ہم چاہتے ہیں کوئی تو دوچار بزرگ ایسے ہوں جو ہمارے ساتھ ساتھ جیئیں۔ افتخار صاحب سے ہمارا رشتہ جو ہے وہ عجیب محبت کا پیوند باندھے ہوئے ہے۔ اُن کی غزل میں جو کربلا و نجف و کوفہ و شام کے موتی بندھے ہیں وہ ہی اُن کے طغرے کی بلندی کے لیے کافی ہیں۔ ہم جب کبھی دنیا کے دھندوں سے اکتاتے ہیں تو افتخار عارف کی کٹیا کی راہ پاتے ہیں۔ یہ کٹیا بھی اگرچہ ڈی ایچ اے میں ہے اور ایک کینال پر ہے مگر افتخار بھیا اِسے محض ایک سرائے سمجھتے ہیں۔ افتخار عارف صاحب ہم سے بہت محبت کا تار باندھے ہوئے ہیں۔ خدا اُنھیں سلامت رکھے۔
یہاں سے ہم نے وحید احمد صاحب کے گھر کی راہ لی۔ یہ گھر بحریہ ٹاون میں ہے جو ڈی ایچ اے کی بہن ہے اور اُس کے پہلو میں ہی بستی ہے۔ وحید صاحب ہم سے لائلپوریا انداز میں ایسے ملے کہ ہم نے جانا یہی اصل میں دیسی بندہ ہماری پوٹ کا ہے۔ جب ہم آئی ایٹ میں بستے تھے وحید صاحب گاہے گاہے ہماری طرف آ نکلتے تھے۔ ایک ڈھابہ ہماری نشست برخواست کا مرکز ہوتا تھا۔ کل جو ملے تو پرانے دن یاد آ کے رہ گئے۔ کیا عجیب دلنشین شاعر ہے، واقعی آگ پیتا ہے اور آگ چراتا ہے۔ گھر میں مومنہ بھی تھیں۔ اور مزے کی بات دیکھیے کہ جب ہم گئے تو وحید صاحب تو نماز فرما رہے تھے اور جو مومنہ تھیں وہ سو رہی تھیں۔ ہم نے اندازہ لگا لیا کہ حکومت واقعی سو رہی ہے تبھی تو رند سجدوں میں گرے ہوئے ہیں۔ لیجیے بھائی بیٹھے بیٹھے ہم نے چار پانچ گلاس آم کے جوس کے پیے، اُس کے بعد کھانا کھانے کی طلب جاتی رہی، اور شوکمار بٹالوی سُننے کی ہوس عود آئی۔
بھائی لوگو وحید صاحب بندے بہت کمال ہیں۔ جب بھی ملتے ہیں ہزارون برس کی شناسائی کا سادھو لگتے ہیں۔ ہم وہاں بہت دیر بیٹھا کیے۔ اور یہ طے پایا کہ اب ہفتے کی ہفتے ملاقات لازم ٹھہر گئی ہے۔ اور پرانی محفلیں بحال ہوں گی، موسیقی بھی چلے گی۔ شاعری بھی چلے گی اور جیسا کے آپ جانتے ہیں وہ نمازی ہو چکے ہیں اور میں تو پہلے ہی چائے پیتا ہوں اس لیے چائے بھی چلے گی۔ یہاں سے اٹھے تو منظر نقوی کو فون کیا۔ اور سیدھا پنڈی صدر میں اُن کے دفتر پہنچ گئے۔ اب کوئی تین بج گئے تھے۔ لہذا منظر صاحب نے افغانی کباب منگوا لیے۔ کباب واقعی افغانی تھے۔ سائز افغانیون کی پگڑی کے برابر تو ضرور تھا۔ کباب کھاتے ہی ہم نکلے۔ کمیٹی چوک آئے، اعجاز نواب سے چائے پی۔ اشرف بک ایجنسی سے بہت سی کتابین خریدیں، ظالموں نے اپنی دکان میں میری ایک بھی کتاب نہیں رکھی۔ اللہ جانے اِس میں میرا قصور ہے یا رشد ملک کا۔ اللہ اشرف بک ایجنسی کو ہدایت دے۔ مجھے تو اا نہیں سکتی۔ اللہ بس باقی ہوس۔