Nao Lakhi Kothi Likhne Ka Khayal Kaise Aya (2)
نولکھی کوٹھی لکھنے کا خیال کیسے آیا (2)
چنانچہ مَیں نے اپنے دوست احمد شہزاد لالہ کے ساتھ نولکھی کوٹھی کا وزٹ کیا۔ تب تک یہ کوٹھی اپنے در و دیوار اور پورے سازوسامان کے ساتھ موجود تھی۔ چاروں طرف آم کے باغات تھے اور نہایت پرفضا جگہ تھی۔ اِس پہلے وزٹ کے بعد مَیں اکثر وہاں جانے لگا۔ یہیں مَیں نے دوبارہ اُس فوت شدہ بوڑھے انگریز کو محسوس کیا اور دل ہی دل میں نئے سرے سے اُس کی زندگی کا احاطہ کرنا شروع کر دیا مگر یہ سب کچھ اس لیے نہیں تھا کہ مَیں اِس پر کوئی ناول لکھوں گا بلکہ فطرتی طور پر مَیں ہر اُس چیز پر تجزیاتی نظر ڈالتا رہتا ہوں جس کے اندر گہرائی کا عنصر نظر آتا ہے۔
اگر اِن درج بالا تمام واقعات کو سامنے رکھیں اور اُس کے بعد میری پنجاب میں ایک ایسے علاقے میں پیدائش اور اُس سے وابستگی آہستہ آہستہ میرے لاشعور کا حصہ بنتی رہی [جس سے متاثر ہو کر مَیں نے پہلے پہل کچھ کہانیاں بھی لکھیں، جو قائم دین کے نام سے چھپیں اور بعد میں اُنھیں پینگوئن نے ترجمہ کر کے چھاپا، تو آپ میری ماہیتِ قلبی کا اندازہ کر سکیں گے۔
نولکھی کوٹھی ناول لکھنے کا آغاز میں نے 2013 میں کیا۔ اُس وقت مَیں اسلام آباد میں مقتدرہ قومی زبان میں کام کر رہا تھا۔ مَیں ایک دو ماہ بعد چھٹی پر اپنے گاؤں 32 ٹو ایل اوکاڑہ جاتا تھا۔ میرا یہ گاؤں انگریز دور میں ماڈل ویلج تھا جس کی سڑکیں شیشم کے درختوں کی چھاؤں سے بھری رہتی تھیں۔ اِس گاؤں میں برٹش دور میں ہی ایک مڈل سکول تھا۔ سکول میں بورڈنگ ہاؤس تھا۔ سکول بہت بڑا تھا۔ اِس میں ہزاروں بڑے بڑے درخت شیشم اور پیپل اور نیم کے موجود تھے۔
پھر یہ ہوا کہ پورے گاؤں اور سکول کے نوے فیصد درخت میرے دیکھتے دیکھتے سکول انتظامیہ اور گاؤں کے لوگوں نے کاٹ کھائے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ تعلیمی اداروں کے افسران اور ضلعی انتظامیہ کو اِس بات پر کوئی حیرت نہیں تھی، نہ اُنھیں اس سے غرض تھی کہ گاؤں اور سکول میں دُھول اڑنے لگی ہے۔ حتیٰ کہ سکول کی جنوبی دیوار کے ساتھ ایک بہت بڑا پیپل اور ایک سو کے قریب شیشم کے درخت کھڑے رہ گئے تھے۔ اِس پیپل کے نیچے ہم لڑکے بالے اکثر کھیلا کرتے تھے اور اُن سے بڑی مانوسیت تھی۔
ایک دفعہ مَیں اسلام آباد سے اپنے گاؤں گیا تو پتا چلا کہ سکول میں کچھ لوگ جمع ہوئے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ جنوبی دیوار کے ساتھ بچے کھچے کھڑے درخت کاٹنے کے لیے سکول کے ہیڈ ماسٹر اور کچھ گاؤں کے لوگوں نے مل کر ٹمبر مافیا کو بلایا ہوا ہے۔ مَیں یہ اطلاع پاتے ہی سکول میں چلا گیا اور انتہائی مزاحمت کی۔ یہاں تک کہ لڑنے مرنے کو تیار ہو گیا۔ میری مزاحمت کو دیکھتے ہوئے سکول انتظامیہ اور اہلِ قریہ نے وقتی طور پر درختوں کی کٹائی روک دی۔
مجھے معلوم تھا جیسے ہی مَیں اسلام آباد پہنچوں گا، یہ لوگ اپنے کام کو انجام دیں گے۔ چنانچہ اسلام آباد جانے سے پہلے مَیں نے اوکاڑا ڈی سی آفس جا کر اُنھیں حالات سے آگاہ کیا اور محکمہ جنگلات کو خبردار کیا مگر اُنھیں اُس سے اتنی غرض تھی کہ اپنا ایک چپڑاسی بھیج دیا۔ جس پر مَیں دوبارہ ڈی سی آفس آیا اور شدید احتجاج کیا۔ اب کے بار ڈی سی نے ایک مہربانی اور کی کہ ایک مجسٹریٹ کو سکول میں بھیج کر ہیڈ ماسٹر کو درخت کاٹنے سے روک دیا۔ لیکن مَیں نے یہاں بس نہیں کی، اسلام آباد آ کر سیکرٹری انوائرمنٹ سے ڈی سی اوکاڑا کو فون کروایا، اِس کے بعد اخبار و ںمیں کالم لکھے۔
جس کے بعد جنگلات کے عملے نے مداخلت کر کے سکول کے اُن بچے کھچے درختوں کو کٹنے سے بچایا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ پاکستان کے سرکاری ملازم فقط اپنے اور اپنے افسران بالا کے نجی کام کرنے میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں اور اِسی کو اپنی اصل ڈیوٹی سمجھتے ہیں لہٰذا مَیں نے اُس وقت تک اُن کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جب تک اُنھوں نے درختوں کی کٹائی مستقل طور پر روک نہیں دی۔ خیر وہ درخت تو بچ گئے لیکن اِس بات نے مجھے بہت سی چیزوں کے متعلق سوچنے پر مجبور کر دیا۔
ایک تو یہ کہ خاص کر پاکستانی عوام نے کبھی اجتماعی پراپرٹی اور ترقی کو Own نہیں کیا۔ اِس ملک کی اجتماعی اشیاء کو اپنے عارضی نجی فائدے پر قربان کرنے کو ترجیح دی ہے۔ جس کے ہاتھ میں جو شے آئی اُس نے پہلے اُسے ذاتی ملکیت میں تبدیل کیا پھر چند دِنوں میں برباد کر دیا اور جس شے پر ذاتی ملکیت حاصل نہیں کر سکا اُسے جان بوجھ کر تباہ کر دینے کی کوشش کی جیسے وہ اُس کے دشمن کی شے ہو۔ آخر اِس کی کیا وجہ تھی؟
اِس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ پاکستان کے تمام شہری چھوٹے چھوٹے طبقات، مذاہب اور خطوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے پر برتری اور مخاصمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ دوئم پاکستان بننے کے بعد ایک نو دولتیوں کا گروہ وجود میں آیا جنھوں نے ہر لمحے دوبارہ مفلس ہونے کے خطرہ کو محسوس کیا اور اُس سے بچاؤ کے لیے اُن سے جو بن پایا، وہ کیا۔ یہ لوگ اُن کلرک پیشہ افراد کی اولادیں تھیں جو تقسیم کے وقت یعنی برٹش دور میں حکومت کو اپنی خدمات دے رہے تھے۔
چنانچہ پاکستان بننے کے فوراً بعد یہ کلرکوں کی اولادیں افسر بن گئیں مگر اِن کے اندر رائے کی پختگی اور ارادے کی مضبوطی پیدا نہ ہو سکی۔ چنانچہ اِنھوں نے برٹش دور کے پایہ تکمیل تک پہنچے ہوئے کاموں کو خستہ حال کر دیا، ادھورے کاموں کو بالکل ختم کر دیا اور ملک کو کسی نئے منصوبے سے روشناس نہ کیا۔ بنی ہوئی چیزیں تباہ ہو گئیں اور نئی چیزیں بن نہ سکیں۔ نہریں جو انگریز سرکار نے بنائی تھیں وہ مٹی سے بھر گئیں۔ نہروں کی پٹڑیاں ٹوٹ گئیں۔
درخت کٹ گئے۔ ریلوے کا بھُرکس نکل گیا۔ عمارتیں خستہ ہو کر گر گئیں مگر اُن کی مرمت اور دیکھ بھال نہ ہو سکیں۔ قوانین ذاتی تعلقات میں استعمال ہونے لگے۔ تعلیم کاروبار بن گیا اور کاروبار فراڈ کا درجہ اختیار کر گیا۔ حتیٰ کہ تقسیم کے دوران پیدا ہونے والا لا اینڈ آرڈر ہمیشہ کے لیے ہماری قسمت کا حصہ بن گیا۔ 2011 میں میرے ہاتھ کچھ انگریز دپٹی کمشنروں کے گزٹ بھی لگے جنھیں پرانے ڈی سی آفسز کی سیاحت کے دوران متواتر مطالعہ سے گزارا۔
اُن کے کام کرنے کے طریقہ کو سمجھا اور پھر اپنی نئی بیوروکریسی کو نزدیک سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ یہ ہمارے والی بیوروکریسی محض ٹائی سوٹ پہنائے ہوئے بوزنے ہیں۔ مثبت عقل اور عمل اِن کے نزدیک سے ہو کر نہیں گزرا، اپنی ملازمت کو سہولت کار بنا کر نجی مفادات کا حصول ہی اِن کی نظر میں پبلک سروس ہے۔ چنانچہ 2012 کے آغاز سے میرے ذہن میں ایک پلاٹ بننا شروع ہوا۔ ایک سال تک مَیں اِس پلاٹ کو اپنے دماغ میں ترتیب دیتا رہا اور 2013 میں ناول لکھنا شروع کیا۔
یہاں ایک لطیفہ سنانا چاہوں گا۔ مَیں نے جب یہ ناول جیسے ہی لکھنا شروع کیا تو میرے پاس نہ کمپیوٹر تھا اور نہ مجھے کمپوزنگ آتی تھی۔ مَیں نے ناول کو ایک رجسٹر پر قلم سے لکھنا شروع کر دیا۔ چونکہ اتنے بڑے منصوبے کے لیے کاغذ اور قلم سے لکھنا اِس لیے بھی کافی محنت طلب کام ہوتا ہے کہ ایڈیٹنگ میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے لہٰذا میرا خیال تھا کہ یہ کام تین سے چار سال میں مکمل ہو گا۔ لیکن ہوا یہ کہ اچانک مجھے اسلام آباد میں کیپیٹل ٹی وی میں ایک جاب مل گئی۔ میرا کام رات نو بجے کی خبریں بنانا اور ٹِکر تیار کرنا تھا۔
چنانچہ ایک تو اُنھوں نے مجھے ایک کمپیوٹر دے دیا اور دو ہفتے میں کمپوزنگ بھی سکھا دی۔ مَیں دفتر کا یہ کام دو گھنٹے میں ختم کر لیتا اور اُس کے بعد مسلسل پانچ گھنٹے اپنے ناول پر کام کرتا۔ ناول کا تمام concept واضح تھا لہٰذا ایڈیٹنگ سمیت فقط نوماہ کام چلا، جتنا کہ ایک ماں کے بچہ پیدا کرنے کا دورانیہ ہوتا ہے۔ جب مَیں نے اِس ناول کی آخری لائن لکھی اُسی دن ٹیلی ویژن والوں سے جھگڑا ہو گیا اور مَیں نے استعفیٰ دے دیا۔ یوں سمجھیں قدرت نے مجھے یہ ناول لکھنے کی ایک باقاعدہ جگہ، کمپیوٹر، اور تنخواہ مہیا کی اور مجھ سے یہ کام لیا اور جیسے ہی کام ختم ہوا، یہ تینوں چیزیں وآپس لے لیں۔
2014 میں سانجھ پبلشر سے ناول چھپ گیا اور شائع ہوتے ہی ہاتھوں ہاتھ بکنے لگا۔ اس قدر تیزی سے اِس کا چرچا ہوا کہ ایک سال میں تین ایڈیشن نکل گئے۔ انگریزی اردو اخباروں، اردو روز ناموں میں مضامین شائع ہونے لگے۔ اب یہاں ایک اور قصہ ہوا۔ ناول کی شہرت اُن لوگوں تک بھی پہنچی جن کے قبضے میں نولکھی کوٹھی کی عمارت اور زمین تھی۔
یہ کوٹھی پہلے ایک آدمی پیر شمس الحسن کے پاس لیز پر تھی، لیز کا وقت پورا ہونے کے بعد ایک برگیڈئر صاحب کو الاٹ ہو گئی۔ جبکہ پیر صاحب اُس کا قبضہ نہیں چھوڑ رہے تھے۔ ناول کی شہرت کے بعد نولکھی کوٹھی پر بھی عوام و خواص کی توجہ ہو گئی اور لوگ اُسے دیکھنے کے لیے جانے لگے۔ اِس پر شمس الحسن صاحب کے بھی کان کھڑے ہو گئے۔
اُسے محسوس ہوا کہ اب کوٹھی پر اُس کا قبضہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا لہٰذا اُس نے کوٹھی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور جاتے جاتے ظالم نے یہ کیا کہ کوٹھی کا تمام ساز و سامان نکال لے گیا، حتیٰ کہ دروازے، کھڑکیاں، تمام فرنیچر اور چھتوں کے تآنکڑے اور شہتیر بھی اُتار کر چلتا بنا۔ گویا اُس نے کوٹھی کو ایک کھنڈر بنا کر برگیڈئیر صاحب کے حوالے کر دیا۔
اِدھر برگیڈئیر صاحب نے بھی یہ کیا کہ اُسے آباد کرنے کی بجائے بقیہ سامان پر ہاتھ صاف کرنے شروع کر دیے اور چند مہینوں میں ہی کوٹھی باقاعدہ ایک بھولا بسرا نشان رہ گئی۔ کوٹھی کے ارد گرد کے باغات کاٹ دیے گئے۔ اور کوئی شے نہ رہ گئی سوائے گری بڑی دیواروں اور بوسیدہ اینٹوں کے۔ مختلف لوگوں نے ضلعی انتظامیہ کو توجہ دلانے کی کوشش کی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ آج جو لوگ بھی اِسے دیکھنے جاتے ہیں وہ چار آنسو بہا کر لوٹ آتے ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔