Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Akbar Natiq
  4. Nao Lakhi Kothi Likhne Ka Khayal Kaise Aya (1)

Nao Lakhi Kothi Likhne Ka Khayal Kaise Aya (1)

نولکھی کوٹھی لکھنے کا خیال کیسے آیا (1)

نولکھی کوٹھی کے متعلق مَیں یہ دعویٰ تو ابھی نہیں کر سکتا کہ وہ اساطیر کے درجے تک پہنچ چکی ہے البتہ احباب کی طرف سے اِس ناول کے متعلق پوچھے جانے والے سوالات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مجھے یہ ناول لکھنے کا خیال کیوں اور کیسے آیا؟ مَیں چونکہ پوری طرح سے اِس کا جواب دینے سے قاصر تھا لہٰذا ہمیشہ خاموشی اختیار کر لی۔ اب جبکہ اِس کا انگریزی ترجمہ پینگوئن چھاپنے جا رہا ہے جسے نائمہ راشد نے بہت محنت سے تکمیل تک پہنچایا ہے تو یہی سوال دوبارہ جنم لے چکا ہے۔ چنانچہ ناول کے آغاز کرنے کے متعلق چند ایک باتیں لکھنا چاہوں گا۔

سب سے پہلے تو میرا ایک پس منظر سُن لیں۔ ہمارا خاندان تقسیم سے پہلے مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور کی تحصیل جلال آباد میں رہتا تھا۔ یہ کافی بڑا خاندان تھا۔ وہاں اِن کا گاؤں جھنڈو والا تھا۔ جہاں سکھ مسلمان جھگڑے عروج پر تھے اور انگریز کی حکومت تھی۔ یہی علاقہ نواب ممدوٹ کا بھی تھا جس کا والد سر شاہنواز ممدوٹ محمد علی جناح کا دستِ راست تھا۔ میرے خاندان کا پیشہ کھیتی باڑی تھا۔

والد صاحب وہیں پیدا ہوئے اور تقسیم کے وقت اُن کی عمر بارہ یا تیرہ برس تھی۔ تقسیم کے بعد جب ہم مغربی پنجاب میں آئے تو گاہ گاہ مختلف علاقوں میں رہنے کے بعد آخر کار اوکاڑا کے اِسی گاؤں میں آباد ہو گئے جسے 32 ٹو ایل کہا جاتا ہے۔ یہ گاؤں بہت زیادہ خوبصورت تھا۔ درختوں، پرندوں، پانیوں اور ہرے بھرے کھیتوں سے بھرا ہوا۔ مَیں یہیں مَیں پیدا ہوا۔ میرے دادا میری ہوش سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے لیکن دادی زندہ تھی۔

مَیں چھوٹا سا تھا تو اپنی دادی کی گود میں سوتا تھا۔ وہ مجھے لوری دینے کے ساتھ اپنے سابقہ وطن کی باتیں بتایا کرتی تھی، وہ اکثر اپنے وطن کو یاد کر کے روتی بھی تھی اور تقسیم کے وقت جو قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوا تھا اُس کے ایک ایک جُز کو ایسے بیان کرتی کہ اُس کا نقشہ عین میری آنکھوں کے آگے پھرنے لگتا۔ اکثر واقعات سناتے ہوئے اُس کی اپنی ہچکیاں بندھ جاتیں اور ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے اپنے اُس گھر کو دوبارہ دیکھنے کی تمنا کرتی۔

میری یاداشت میں اُس کی بہت سی باتیں محفوظ رہ گئیں۔ وہ اپنے گاؤں کا نقشہ، وہاں کے درخت، وہاں کے مال مویشی، ہوائیں، مٹی، چرند پرند، نہریں کھلیان اور روہی کے علاقے کی کہانیاں سب کچھ بتاتی تھی۔ مَیں یہ کہانیاں سُنتے ہوئے آہستہ آہستہ بڑا ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ تیرہ سال کی عمر تک مَیں اپنی دادی کے پہلو میں ہی اُسی کے بستر پر سوتا تھا اور طرح طرح کے واقعات سنتا تھا۔

اُس نے مجھے اپنی ہجرت کے دوران پیش آنے والے ہزاروں قصے ایسے سنائے کہ ایک ایک قصہ ایک ایک ناول کا خزانہ رکھتا ہے۔ یہ سب کچھ اِس عرصے میں میرے لاشعور میں اُتر گیا۔ اور مجھے فیروز پور کے علاقہ جلال آباد سے ایک گونا عشق ہو گیا۔ چونکہ میری دادی کا فیروز پور اور جلال آباد برٹش دور کا تھا لہٰذا مجھے فیروز پور کے ساتھ ساتھ برٹش دور سے بھی لگاؤ ہو گیا۔ پھر یہ ہوا کہ 1988 میں دادی فوت ہو گئی۔

دادی کے فوت ہونے کے بعد میری اپنے والد اور چچا نذیر سے بہت زیادہ انسیت ہو گئی۔ والد صاحب ہیر وارث شاہ کے گویا حافظ تھے اور چچا نذیر احمد ایک طرح سے داستان گو تھے۔ وہ اپنی طرف سے کئی قصے گھڑ کر پر لطف انداز میں سنانے کے ماہر تھے۔ چچا کا مزاج آوارہ گرد کا تھا۔ شادی بھی نہیں کی۔ وہ بھی جلال آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ مَیں نے کئی ایک داستانیں اُن کی زبان سے سُنیں۔ اِنھی میں سے ایک داستان سنایا کرتے تھے جس میں ایک انگریز افسر اور چوہدری غلام حیدر اور کچھ سکھ کردار ہوتے تھے۔

یہ داستان کچھ حقیقت اور کچھ خود ساختہ تھی لیکن بہت مزے کی تھی۔ دوسری طرف والد صاحب کو کئی واقعات ہجرت کے یاد تھے اور وہ اکثر سناتے تھے۔ یوں اِن دونوں یعنی والد اور چچا نے دادی کے کام کو میرے لیے انجام دینا شروع کر دیا۔ اِسی دور میں اپنی والدہ کے ساتھ مَیں رینالے جاتا تھا۔ رینالے میں میری والدہ کے بھائی اور والد رہتے تھے یعنی میرا نانا اور ماموں۔ یہاں مجھے نہری کوٹھیوں کو دیکھنے اور وہاں سیریں کرنے کا خوب موقع ملا۔ یہ شہر انگریزی افسروں نے تعمیر کی تھا اور بہت خوبصورت چھوٹا سا شہر تھا۔

یہاں نہروں کا عملہ رہتا تھا۔ یہیں ایک مچلز فروٹ فارم تھا۔ یہ بھی ایک انگریز ہی کا تھا۔ یہ علاقہ بھی اپنی فطری خوبصورتی اور انگلش عمارتوں کے سبب مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ اور اکثر اِن جگہوں پر سیر کے لیے کبھی سائیکل پر، کبھی پیدل چلا آتا تھا اور شام تک آوارگی کرتا رہتا تھا۔ یہاں کئی بار مجھے ایک بوڑھا انگریز ہاتھ میں چھڑی لیے چلتا پھرتا نظر آتا تھا لیکن کبھی اُس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جب مَیں گیارہویں میں تھا، میرے چچا اچانک فوت ہو گئے لیکن اُن کی سنائی ہوئی داستانیں میرے لاشعور میں رہ گئیں۔

جب مَیں نے میٹرک اپنے گاؤں کے سکول سے پاس کر لی تو انٹر میں داخل ہونے کے لیے اوکاڑا گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ کالج کے بالکل سامنے ایک کمپنی باغ تھا۔ یہ کمپنی باغ تقسیم سے پہلے انگریز فیملیز کے لیے بنایا گیا تھا۔ اُن کے جانے کے بعد اِس کا نام لیڈی پارک رکھ دیا گیا مگر لوگ اسے کمپنی باغ ہی کہتے رہے۔ کمپنی باغ میں ہزاروں سایہ دار درخت اور ہزاروں پرندے تھے۔ کچرے وغیرہ کا کوئی زمانہ نہیں تھا۔ یہاں ایک چھوٹی سی ریل چلتی تھی جو بچوں کو جھولے دینے کے لیے چلائی گئی تھی اور یہ کوئلے پر چلتی تھی۔ درخت دو تین سو سال پرانے تھے۔

یہ 1991 کا زمانہ تھا۔ مَیں کالج سے نکل کر اکثر اکیلا اِس پارک میں چلا آتا اور اُس کی خوبصورتیوں سے لطف اٹھاتا۔ اِسی دوران مَیں نے ایک دن اُسی بوڑھے انگریز کو یہاں دیکھا جو رینالے کی نہری کوٹھیوں کے آس پاس گشت کیا کرتا تھا۔ اِس کی عمر اَسی سال کے لگ بھگ تھی۔ اُس سے کبھی کمپنی پارک میں سامنا ہوتا، کبھی نہری کوٹھیوں پہ ٹاکرا ہو جاتا۔ اُس کے سر پر پرانی پھٹی ہیٹ ہوتی اور ہاتھ میں ایک چھڑی ہوتی تھی۔ مَیں سوچتا اللہ جانے کہ بڈھا کون ہے اور یہاں کیا کرتا پھرتا ہے۔ اگرچہ اب کئی بار اُس کا سامنا ہوا مگر ابھی تک مَیں نے اُس پر کوئی خاص توجہ نہ دی تھی۔

پھر یہ ہوا کہ اوکاڑہ کے سرکاری مہاتموں نے شہر کے درختوں پر آرے رکھنے شروع کر دیے، ریلوے اسٹیشن کے تمام درخت کاٹ ڈالے، شہر کی سڑکیں ننگی ہونے لگیں۔ پرانی کچہریاں کھنڈرات میں تبدیل ہونے لگیں اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال میں شہر میں ایک قسم کی ویرانی در آئی۔ پھر ایک دن سرکاری بابوؤں کو خیال آیا کہ کمپنی باغ کیوں محفوظ ہے؟ اب پہلے وہاں کی ریل اُٹھا دی گئی۔ پٹڑی اُکھاڑ دی اور درخت کٹنے لگے۔

ایک دن مَیں نے دیکھا وہ انگریز ایک پیپل کے درخت کو کاٹنے سے مزاہم ہو رہا تھا۔ کافی مزاحمت کے بعد اُس نے کمپنی باغ کے اُس درخت کو کٹنے سے بچا لیا۔ اُسی دن سے مَیں نے اُس سے ایک شناسائی کا تعلق بنا لیا اور یہ تعلق دو سال چلا۔ اُن دِنوں یہ انگریز بڈھا نہری کوٹھیوں میں سے ایک کوٹھی میں رہتا تھا اور اوکاڑا سے رینالہ تک آوارہ گردی میں پھرتا تھا۔ اِس دو سال کے عرصے میں اِس سے بہت سی باتیں ہوئیں۔

مجھے معلوم ہوا یہ بوڑھا تقسیم سے پہلے ڈی سی رہ چکا ہے۔ پھر جب اِس نے بتایا کہ اُس کی تعیناتی فیروز پور کی تحصیل جلال آباد میں رہی ہے تو مجھے اس سے بہت دلی لگاؤ سا ہو گیا۔ نولکھی کوٹھی کا پہلی بار اِسی کی زبان سے ذکر سُنا لیکن تب مَیں نے وہاں کا وزٹ نہ کیا۔ شاید اُس وقت مَیں نے اِس کی ضرورت محسوس نہ کی تھی، حتیٰ کہ نولکھی کوٹھی میرے دماغ سے محو ہو گئی اور یہ بوڑھا انگریز البتہ ذہن سے چپک گیا۔ غالباً 1992 میں یہ بوڑھا فوت ہو گیا لیکن وہ بہت سی کہانیاں میرے حوالے کر گیا۔

1994 میں نیسلے ملک پیک سے وابستہ ہو گیا۔ یہ کمپنی وسطی پنجاب سے دودھ اکٹھا کرتی تھی۔ مَیں اِس کمپنی میں بطور ملک کولیکشن سپروائزر تھا۔ میری ڈیوٹی حویلی لکھا، بصیر پور، حجرہ، ہیڈ سلیمانکی کے علاقے میں تھی۔ مَیں نے تین سال اِن علاقوں میں کام کیا اور یہاں کے رسم و رواج، جغرافیے اور لوگوں کے معاشرتی رویوں سے کافی واقفیت ہوئی۔ یہ تمام علاقے اٹھاڑ اور اُتاڑ کے چوروں کی جنت تھے۔

دریائے ستلج کا وسیع علاقہ اور اُس کے بائیں کنارے ہندوستان کی سرحد مجھے بہت زیادہ پسند آئی۔ اِن دِنوں ہندوستان بارڈر میں زیادہ سختی نہیں تھی، نہ تاریں لگائی گئیں تھیں، البتہ جنگلات، پانی اور جھاڑ جھنکاڑ کے باعث نہات دشوار گزار تھا۔ اِن علاقوں کے لوگ بارڈر کے آرپار سے لین دین کرتے تھے۔ دونوں طرف کی رینجرز بھی اِس تجارت میں اپنا حصہ وصول کرتی۔

مجھے بھی دو بار سرحد پار جانے کا موقع ملا اور مَیں اپنے آبائی علاقوں میں گیا۔ شاید اپنے لڑکپن کے باعث اُس وقت مجھے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے جیسے اقدام کی حساسیت کا علم نہ تھا۔ ورنہ یہ قدم کبھی نہ اٹھاتا مگر اِسی بے احتیاطی کے ذریعے مَیں نے اُن تمام علاقوں کا لمس لے لیا جن پر کبھی میرے آباؤ اجداد کے قدم پڑے تھے۔

مجھے فیروز پور، جلال آباد، بنگلہ فاضل کا اور اپنی دادی، دادا اور والد کے گاؤں جھنڈو والا جانا نصیب ہوا۔ اِس تمام علاقے کے دیکھنے سے مجھ پر ایک جادوئی سا اثر ہوا۔ کیونکہ پورے علاقے میں ایک عجیب قسم کی اپنایت تھی۔ مَیں نے محسوس کیا، گویا یہی میرا اصلی وطن ہے۔ میرے چچا نے، جو مجھے داستانیں سنائی ہوئی تھیں وہ بھی یہیں کی تھی۔

پھر1998 میں میری ملاقات اپنے شہر اوکاڑا کے ایک دوست جاوید مانو سے ہوئی۔ یہ کافی پڑھا لکھا خوش طبع آدمی ہے۔ مَیں اور میرا ایک دوست احمد شہزاد لالہ اکثر جاوید مانو کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے لگے۔ جاوید مانو مشہور انگریزی ناولسٹ محمد حنیف کا بچپن کا دوست بھی ہے۔ اُنھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ مَیں نولکھی کوٹھی کا وزٹ کروں۔

Check Also

Na Milen Ke Bharam Qaim Rahe

By Rauf Klasra