Najaf e Ashraf
نجف اشرف
کوفہ سے مغرب کی طرف مٹی کا ایک بلند پہاڑ تھا۔ جس کے مزید مغرب کی جانب نیچے چلے جائیں تو تین اطراف میں نخلستان اور ہرے بھرے کھیت ہیں۔ اِن نخلستانوں کو عبور کریں تو آگے ایک بہت بڑی جھیل ہے۔ اِسے بحرِ نجف کہتے ہیں۔ اِس جھیل کے پانی کے متعلق بہت سے اندازے ہیں جن کو ہم بعد میں بیان کرتے ہیں البتہ ایک ذریعہ چشموں کا ہے جو مَیں نے خود دیکھے ہیں۔ یعنی یہاں بڑی تعداد میں چشمے بھی پھوٹ رہے ہیں۔
نجف در اصل نَے اور جف کا مجموعہ ہے۔ اِس کا مطلب ایسی جگہ جس پر پانی نہ پہنچ پائے۔ اور بعض کے نزدیک اِسے نجف اِسی لیے ہی کہتے ہیں کہ اِس کے دامن میں ایک بہت بڑی جھیل ہے یعنی کم از کم 20مربع کلو میٹر۔
یہ جگہ کیسے وجود میں آئی؟ اصل میں حضرت نوح علیہ السلام کوفہ میں رہتے تھے۔ اور عراق میں اُس وقت یہی ایک مرکزی شہر تھا۔ اگر آپ آج بھی کوفہ کے دریائے فرات کی جانب جائیں تو احساس ہو گا کہ آج بھی یہ علاقہ دنیا کا نہیں تو کم از کم عراق کا خوبصورت ترین اور زرخیز علاقہ ہے۔ اِنھی کوفہ والوں کی ہدایت کے لیے نوح علیہ السلام تبلیغ کر رہے تھے۔ اور کوفہ میں موجود مسجد سہلہ کے پاس ہی اُنھوں نے کشتی تیار کی۔ چونکہ مٹی کا یہ بلند پہاڑ کوفہ سے محض دس کلومیٹر تھا بلکہ کیا پتا اپس وقت کوفہ کہاں تک پھیلا ہوا تھا۔ ہوسکتا ہے کوفہ کی حد اِس پہاڑ تک ہو۔
یہ مٹی کا پہاڑ بہت اونچا تھا، لہذا نوح علیہ اسلام کے ایک بیٹے یام نے کشتی پر سوار ہونے کی بجائے اِس پہاڑ کو ترجیح دی اور کہا کہ مَیں اِس پر چڑھ جاوں گا آپ کی کشتی پتا نہیں کہاں لے جائے، ویسے بھی کشتی میں کمی کمین قسم کے لوگ اور طرح طرح کے جانور ٹھونس رکھے ہیں۔ چنانچہ جب طوفان آیا تو وہ کوفہ کے اپنے جیسے اشراف کو لے کر اِس پہاڑ پر آ گیا اور باپ کی کشتی کے مقابلے میں پہاڑ کو ترجیح دی۔ مگر یہ مٹی کا پہاڑ ٹوٹ پھوٹ کر بہہ گیا اور اِس کے تودے بکھر گئے۔ نوح کا بیٹا یام بھی غوطے کھانے لگا۔
آج بھی نجف میں یہ مٹی کے تودے کئی جگہ ٹکڑوں اور ٹیلوں کی شکل میں موجود ہیں۔ جس جگہ جناب امیر علیہ السلام کی مرقد ہے یہ جگہ ابھی بھی پورے نجف میں بلند ہے اور نجف کی مرکزی جگہ ہے۔ اِسی جگہ نوح علیہ السلام کی قبر ہے اور آدم علیہ السلام کی قبر بھی ہے۔ آج مجھے رسول ِ پاک کی اُس حدیث کی سمجھ اچھی طرح سے آئی ہے، کہ میری آل کشتی نوح کی مثال ہے۔ یعنی علی اور حسین اور اکثر اولاد علی کوفہ اور نجف اور کربلا میں ہونے کی وجہ سے رعایتاکشتی نوح ہیں۔ اور عملاً بھی اور تمثیلاً بھی اور مقام کے سبب سے بھی۔ چنانچہ اے اُمت محمدی کوفہ، کربلا اور نجف ضرور آیا کرو۔
اِن مٹی کے تودوں کے اندر چونے کی تہیں موجود ہیں جن سے دُر نجف بنتا ہے اور یہ درِ نجف کے پتھر جگہ جگہ ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔ مجھے خود ایک در ِنجف ملا اور بہت سے ناخالص دُر بھی ملے جو ابھی شفاف نہیں ہوئے تھے۔ اصل میں طوفان نے جب اِس مٹی کے پہاڑ کے تودوں کو تلپٹ کیا تو لاکھوں سال سے پڑے ہوئے پہاڑ کی نچلی سطحیں اوپر آگئیں اور اُن میں در نجف بھی ظاہر ہو گئے۔ جنھیں آج زائرین لے جاتے ہیں۔ یہ شیشے کی طرح کا سفید پتھر ہوتا ہے جو چونے سے بنتا ہے۔
بحر نجف یعنی نجف کی جھیل کے پیدا ہونے کی دوسری وجہ وہی طوفان بتائی جاتی ہے۔ جو نوح کے دور میں آیا۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا۔ یہاں یعنی کوفہ کی مٹی میں ایک خاص قسم کی ریت اور سیم موجود ہے جو شاید مَیں نے کہیں اور نہیں دیکھی اور یہ غالباً ایک زبردست اور کئی سال کے سیلاب کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ مَیں نے اپنے سیلاب اور سیم زدہ علاقوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی مٹی سیم اور شور زدہ ریت کے باوجود انتہائی زرعی ہے۔
اگر کوفہ کو مرکز مان کر پچاس میل کی ایک پرکار کھینچی جائے تو یہ سب مٹی ایک ہی قسم کی ہے۔ یعنی اگر طوفان آیا ہے تو اِسی پچاس میل کے دائرے میں آیا ہو گا۔ جس میں بابل و غیرہ کے شہر بھی زد میں آتے ہیں۔ اگر نجف کی مغربی طرف جھیل ہے تو شمال مشرقی جانب وادیئ السلام کا قبرستان ہے۔ جھیل تک جانا آسان نہیں ہے۔ بہت سے نالے اور دلدلیں پار کر کے اور بچ بچا کر جانا پڑتا ہے۔ ویسے بھی دیکھنے میں قریب لگتی ہے مگر جب چلنا شروع کریں تو فاصلہ ختم نہیں ہوتا۔ لیکن مَیں نے وہاں پہنچ کر دم لیا۔
ایک دفعہ تو خوف بھی آیا کہ یہیں کسی دلدل میں ہی نہ دفن ہو جاوں۔ بھئی میثم کی طرح مولا علی ؑکے نام پر مرنا تو ٹھیک ہے۔ بندہ خوش بختی سمجھتا ہے مگر دلدل کی صورت میں زندہ در گور ہونا ٹھیک نہیں۔ خیر سنبھل سنبھل کر پہنچ ہی گیا۔ یہاں پرندے اتنے خوبصورت ہیں کہ کچھ نہ پوچھیے۔ ابھی میں جھیل پر ہی کھڑا تھا کہ وقار شیرازی کا پاکستان سے فون آ گیا ناطق میاں میری التجا مولا کی ضریح پر دوبارہ کیجیو۔ تین دفعہ تو کر چکا ہوں۔
یا علیؑ مولا، یہ شیرازی بندہ ٹھیک نہیں ہے، پھر بھی ہمارا دوست ہے، جو کہتا ہے پورا کر دیجیے، ورنہ بھانڈوں کی طرح طعنے دیتا پھرے گا۔ بہت دیر یہاں بیٹھ کر اور پرندوں کی چہکاریں اور پھریریاں دیکھ کر وآپسی ہو لیا۔ اور روضہ پر آ گیا۔