Molana Muhammad Hussain Azad (2)
مولانا محمد حسین آزاد (2)
دادا جان کا علمی مقام و مرتبہ چونکہ کے مجتہد کے درجے کا تھا اس لیے پوتے کو تحقیق کی وادیوں کی سیر میں لے جاتے تھے۔ آلِ ؐمحمد کے خزانوں سے شناسائی کراتے تھے اور دل میں اطمنان کا چراغ جلاتے تھے۔ ا عالم میں ہاں مگر جب دوست کی طرف نکلتے، اِن کی اُنگلی پکڑ لیتے اور خراماں خرامں کابلی دروازے کی طرف جا نکلتے جہان اُستاد ابراہیم ذوق کا مکان تھا۔ اُستاد وہیں مکان کے باہر چوکی پر شاگردوں کے پرے جمائے عروض و محاورہء شعر کی گتھیاں سلجھانے میں بندھے ہوتے تھے۔
7۔ ابراہیم ذوق بچے کو دیکھ کے ایسی شفقت سے پیش آتے جس میں مانوس دل بستگی کے تمام سامان موجود ہوتے۔ یہ دَور محمد حسین آزاد کے لیے نئی کائنات کی دریافت کا تھا جس میں شعرو ادب کے بحرِ بیکراں کی سیریابی کی کشتیاں چلتی تھیں اور زبان و بیان، محاورہ روزمرہ کی باریکیاں اور لفظ و معنی کی لطافتیں سمجھ میں آتی تھیں۔ آہستہ آہستہ آزاد میاں والد صاحب کے بغیر ہی یہاں چلے آتے۔ اور اُن معنی آفرینیوں کے نکات سمجھنے کی کوشش کرتے جسے وقت کے اُن کے نام لکھ دیا تھا۔ شاگردوں سے پائی۔
2۔۔ مولانا محمد حسین آزاد کے اجداد ایران کے پروردہ تھے۔ خاندان کا حلقہ فارس کے شہروں ملکوں سے وابستہ تھا۔ حسب و نسب کی کڑیاں ایک کے بعد ایک چلتی ہوئی حضرت سلمان فارسی تک جاتی ہیں اور آگے آزاد تک آتی ہیں۔ اِس بارے میں ایک جگہ مولوی محمد باقر (والد آزاد) کے متعلق آغا محمد باقر نبیرہ آزاد لکھتے ہیں۔
مولوی محمد باقر کے بزرگ ایران کے باشندے تھے۔ اور سرورِ کائنات محمد ؐ کے جلیل القدر صحابی حضرت سلمان فارسی کی اولاد ہونے کا فخر اُن کی مبارک دستاروں کا طرہ امتیاز ہے۔ ایران میں ہمدان جیسا مردم خیز خطہ اُن کا وطن مالوف تھا۔ اِس خاندان کا ہر فرد اپنے علم و فضل کی بدولت اخوند اور خلیفہ کہلاتا تھا اور علمائے دین میں مجتہد کا درجہ رکھتا تھا۔ مولوی صاحب کے اپنا شجرہ نسب اخوند محمد ابراہیم الہمدانی کے نامِ نامی سے شروع کیا ہے۔
اِن کے بیٹے اخوند محمد یوسف ہوئے۔ اور اخوند محمد یوسف کے فرزند اخوند محمد عاشور ایران کو خیر باد کہہ کر دورہ نادری میں جبکہ یہاں محمد بادشاہ کی حکومت تھی، کشمیر جنت نظیر میں آ کر آباد ہوئے۔ کشمیر میں اخوند محمد عاشور کے ہاں محمد اشرف پیدا ہوئے۔ مولوی محمد باقر نے اخوند محمد اشرف کو مولد الکشمیر و مدفن الہند لکھا ہے۔ اِس کا مطؒب ہے کہ وہ کشمیر سے شاہ جہان آباد آئے۔ پھر وہیں پیوند خاک ہوئے۔ شاہ جہان آباد میں مقیم ہونے کے بعد خدا وند کریم نے اُنھیں ایک فرزند کرامت فرمایا اور وہ اپنے زمانے میں اخوند محمد اکبر کے نامِ نامی سے مشہور ہوا۔ وائدِ دینیہ کا مصنف لکھتا ہے، کہ اخوند محمد اشرف اور اخوند محمد اکبر صاحبِ تصنیفات تھے۔ مولوی صاحب نے اپنیئ تحریر کے آخر میں اپنے والد صاحب اخوند محمد اکبر ہندی تحریر فرمایا ہے۔۔
مولانا کے اجداد کا سلسلہ کچھ اس طرح سے سامنے آتا ہے۔ اخوند محمد ابراہیم (ہمدان ایران)، اخوند محمد یوسف، اخوند محمد عاشور (ایران سے کشمیرہجرت)، اخوند محمد اشراف (کشمیر سے دہلی ہجرت)، اخوند محمد اکبر (دہلی)، مولوی محمد باقر (دہلی)، مولوی محمد حسین آزاد (دہلی سے لاہور ہجرت)، مولوی محمد باقر اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے۔ اور اُن کے اکلوتے بیٹے محمد حسین آزاد تھے۔
آزاد کی تعلیم کا سلسلہ اپنے دادا سے شروع ہو کر دہلی کالج تک جاتا ہے۔ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اُن کے والد مولوی محمد باقر بھی دہلی کالج سے تعلیم لیے ہوئے تھے اور ایسٹ انڈیا کمپنی میں بطور تحصیلدار کا کر رہے تھے مگر اخوند محمد اکبر کو اُن کی یہ ملازمت کھٹکتی تھی۔ بیٹے نے والد کی خواہش کو ایمان میں رکھا اور استعفیٰ دے دیا۔ اور اخوند محمد اکبر کا مدرسہ سنبھالا۔ 1836 میں جب پریس آزاد ہوا تو مولوی محمد باقر نے دہلی کالج کا وہ پریس خرید لیا جو کالج پر بار ہو گیا تھا اور اُسے چلانے میں کالج انتظامیہ کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ مولوی محمد باقر کی طبیعت چونکہ طبع آزما اور گونا گوں تھی، اِس لیے اُنھیں یہ پریس چلانے میں نئی دنیا سے اور نئی نظر سے نظر ملانے کا موقع ملا۔ یہ پریس مولوی باقر نے کمشمیری بازار میں اُس مکان میں لگایا جس کے ایک حصے میں امام باڑہ تھا اور یہ مکان اُنھوں نے عامہ الناس وقف کے لیے خرید کیا تھا۔۔
آغا محمد باقر لکھتے ہیں۔۔
1836 میں جب پریس کو آزادی ملی تو اُنھوں نے دہلی سے پہلا اردو اخبار جاری کیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک مطبع بھی جاری کیا۔ جس میں مولاناکی تالیفات اور دوسری کتابیں شاع ہوا کرتی تھی۔ اِس پریس کا نام پہلے مطبع جعفریہ اور پھر اردو اخبار پریس رکھا۔ اس کے لیے مولانان مرحوم نے کشمیری دروازہ کے اندر ایک بہت بڑا مکان بہ نیت وقف تعمیر کرایا، اُستاد ذوق نے اُس کی تاریخ کہی۔۔ ع سعادت گاہِ امام ِ دارین۔
اِسی مکان میں مولانا مرحوم کا مدرسہ اور کتب خانہ تھا۔۔
اگر محمد حسین آزاد کی ولادت 1830 میں ہوتی ہے تو آپ اندازہ لگائیں کے اُن کے بچپن میں علم و ادب کی کتنی شاخیں پرداخت میں حصہ لے رہیں تھیں۔ اُس زمانے میں کسی کے ہاں پریس اور اخبار کا لگنا ایسا عمل تھا جو دہلی کے اِسی گھرانے کو نصیب تھا۔ اِس طرز سے دیکھا جائے تو آزاد جد سے فارسی اور مذہبی تعلیم کے چمن زار سے گزرتا ہوا پریس، کتب خانہ، اور اخبار کے معاملات کو بھی سمجھ رہا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب ابراہیم ذوق کے پاس آنا جانا شروع ہوا تھا۔
اگر شاہ جہان آباد کا پرانا نقشہ دیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ کشمیری دروازے کے اندرون سے کابلی دروازے کے اندرون تک دونوں کا فاصلہ ایک سے ڈیڑھ کلو میٹر سے زیادہ نہیں تھا۔ ابراہیم ذوق کا مکان وہیں تھا۔ پہلے پہل اپنے والد کے ساتھ اور بعد ازاں اکیلے اُستاد ذوق کی خادمت میں حاضر ہونا مولانا کا معموم بن گیا۔ اور یہ معمول اِس قدر متواتر اور مسلسل رہا کہ اُستاد ذوق کی وفات 1856 تک جاری رہا۔
1856 می مولوی صاحب کی عمر 26 برس بنتی تھی۔ مولوی صاحب دہلی کالج میں داخل ہونے اور وہاں سے فارغ کے بعد سے لے کر اپنے والد کے پریس میں کام کرنے تک برابر اُستاد ذوق کی قربت کا اور اُن سے تعلیم کا ثمر حاصل کیا۔ غرض مروجہ دہلوی تعلیم اور اجداد کی مذہبی تعلیم کے سلسلے کے بعد جیسے ہی مولانا کی عمر اِس قابل ہوئی کہ اُنھیں انگریزی تعلیم کی سوجھ بوجھ اور ہوا لگے۔ مولوی محمود باقر نے اپنے ایک اور دوست مسٹر ٹیلر پرنسپل دہلی کالج کی ایما پر کالج میں داخل کر دیا۔
یہ تھی وہ تعلیمی تثلیث جو دیگر اشراف و ساکنانِ دہلی کے کم ہی لوگوں کے حصے میں آئی جو مولوی محمد حسین آزاد کے زنبیلِ علم میں شامل تھی۔ یہاں مولانا مضمون نویسی میں ہمیشہ اول آتے تھے۔ انعام پاتے تھے اور جوش میں مزید آگے بڑھتے تھے۔ کالج کے زمانے میں اُن کے ہم جماعتوں میں ڈپٹی نذیر احمد، ماسٹر پیارے لال، اور منشی ذکا اللہ جیسے بڑے آدمی شامل تھے۔