Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ali Akbar Natiq/
  4. Kufa Ki Aik Aham Daryaft

Kufa Ki Aik Aham Daryaft

کوفہ کی ایک اہم دریافت

آج صبح علی کو نین کو ساتھ لیا، یہ لڑکا شاعر ہے، نجف اشرف میں پڑھتا ہے اور نہایت فرمانبردار ہے۔ ہم کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اِس سے پہلے مَیں کئی بار کوفہ شہر کی گلیوں اور محلوں کو پیدل دیکھ چکا ہوں، کوفہ مسجد سے مشرق کی طرف دریائے فرات ہے اور بالکل پاس ہی ہے یعنی دریا کا پل مسجد کوفہ سے محض دو کلومیٹر ہو گا۔ اِس پل سے آپ شمال کی طرف دیکھیں تو فقط آدھے کلو میٹر پر حضرت یونس علیہ السلام کا وہ مقام ہے جہاں سے اُسے مچھلی نے اپنے دہن سے اُگلا تھا۔ اِس جگہ یونس علیہ السلام کا روضہ بھی موجود ہے۔ اور یہاں اب دریا کے کنارے کوفہ والے مچھلی کو اپنے کیے کی سزا دینے کے واسطے مچھلیاں بھون بھون کر کھاتے ہیں اور عربی میں کہتے ہیں ہور چوپو۔

یہ پوری آبادی چھوٹے چھوٹے گھروں پر مشتمل ہے۔ گلیاں بھی تنگ تنگ ہیں مگر صاف ستھری ہیں۔ مَیں اِن گلیوں اور فرات کے کنارے کنارے کم و بیش آٹھ نو گھنٹے پیدا پھرتا رہا۔ اِس آبادی والی جگہ ایک آدمی کی زبانی پتا چلا کہ قبیلہ بنی ازد کے لوگ رہتے تھے۔ مَیں وہاں سے چلتے ہوئے کوفہ کے بالکل شمال میں نکل گیا اور ایک نخلستان میں آ گیا۔ یہ علاقہ بہت خوبصورت ہے۔ اچانک مجھے یہاں ایک سڑک نظر آئی جس کا نام شارع فرزدق تھا۔ مَیں سڑک پر چل پڑا آگے سڑک بند تھی اور ایک میدان سا تھا۔ پوچھنے پر پتا چلا یہاں کسی زمانے میں فرزدق کا گھر ہوتا تھا۔ مَیں تھوڑی دیر وہاں رُک کر زمانے کی نیرنگیوں کو یاد کرتا رہا اور اُس قصیدے کے الفاظ گنگناتا رہا جو فرزدق نے امام زین العابدین کی شان میں لکھے تھے۔۔

آخر چلتا گیا اور صعصہ ابن صوھان کے گھر کے پاس آ گیا۔ یہاں اب ایک مسجد بنا دی گئی ہے۔ صعصعہ ابنِ صوھان امام کا بہت قریبی صحابی تھا اور معاویہ کو بہت کَھلتا تھا۔ آخر اِنھیں معاویہ نے بحرین کی طرف شہر بدر کر دیا۔ اور بعد میں وہیں شہید کر دیا۔ صعصعہ کا بھائی زید امیر المومین کی طرف سے بصرہ میں جنگ جمل میں شہید ہوا تھا۔ پھر یہاں سے میرا منہ دوبارہ مسجد کوفہ کی طرف ہو گیا اور مَیں ایک تنگ سی گلی میں سے گزرا تو دیکھا کہ وہاں امام موسیٰ کاظم کےایک بیٹے حسن کی قبر ہے۔ وہاں بھی کچھ دیر کھڑا رہا۔ پھر آگے چلا تو ایک جگہ ایک گلی امام ابو حنیفہ کا مقام نظر پڑا۔ یہ جگہ ایک چوک سا بنتی تھی۔ امام ابی حنیفہ بھی تو کوفہ کے تھے۔

اِس سے ایک دو کلومیٹر ہی آگے چلا ہوں گا کہ امام حسن علیہ اسلام کے بیٹے حسن مثنیٰ کی قبر دکھائی دی۔ یہ بھی ایک بڑا سا روضہ ہے۔ خیر اتنے میں شام ہو گئی تھی اور مَیں مسجد کوفہ میں چلا آیا۔ اِس دن آپ پوچھیں تو کوئی تیس میل کوفہ کے اندر ہی چلا ہوں گا۔ اور کئی محلے دریافت کیے۔ دریائے فرات کی کوفہ کے اندر سمتیں اور طرفین دریافت کیں۔ میرے ناول کے کچھ کردار جو کوفہ کی فصیل میں سے سرنگ کھود کر پہلے دریائے فرات میں اترتے ہیں پھر اُس دریا کو پار کر کے کربلا کی طرف جاتے ہیں اور کربلا پہنچ کر امام کی معیت میں شہید ہوتے ہیں۔

مَیں اُس سُرنگ کے مقام کو دیکھنا چاہتا تھا اور آخر اُس مقام تک بھی پہنچ گیا۔ یہ سرنگ کوفہ میں ایک نخلستان کے احاطے سے کھودی گئی تھی۔ اِسی دن مَیں نے اُس جگہ کو دریافت کیا جہاں مسلم بن عقیل لڑتے ہوئے زخموں سے چور ہو کر گر پڑے تھے اور اُنھیں پکڑکر دار لامارہ لایا گیا تھا۔ خیر اِن دنوں میرے شب و روز کوفہ ہی میں گزر رہے ہیں۔

رات میں نجف اشرف میں تھا۔ رات کو علی رضا مدبر صاحب کا فون آیا کہ کل کا کھانا میرے ساتھ کھایے گا یہ حضرت یہان ایک عالم ہیں اور مدرسہ میں خود بھی پڑھاتے ہیں اور بڑے عرصے سے میری تحریریں پڑھ رہے تھے۔ مَیں نے اُنھیں کہا صبح تو علی کونین کے ساتھ کوفہ گردی کرنی ہے دو بجے لوٹ آوں گا تب تک کھانے کو بھاپ دے دیجیے۔ اور آج میرے ساتھ علی کونین کوفہ میں آیا۔ جیسے ہی کوفہ کی حدود میں داخل ہوئے مسجد سحلہ سے کچھ آگے کوفہ کی ایک گلی میں جا نکلے۔ یہ جگہ نجف اشرف سے کوفہ آتے ہوئے سڑک کے بائیں طرف ہے۔ اُس سے تھوڑا آگے میثم تمار کا گھر ہے اور قتل گاہ ہے۔

ہم یونہی کوفہ کی گلیوں میں گھومنے لگے، اور اُن محلوں کی تلاش میں نکلے جہاں آلِ محمد کے محبوں کے فرد فرد تیلیوں کی صورت بکھرے ہوئے کوفہ کے محلوں میں دفن ہیں۔ تھوڑی ہی دیر چلے ہوں گے کہ ہمیں ایک جگہ ایک روضہ نظر آیا۔ قریب جا کر دیکھا تو پتا چلا کہ حفید الحسن ابنِ حسن مثنیٰ ابنِ حسن اور نواسہ امام حسین کا روضہ ہے۔ یہ روضہ بنی کندہ کے محلے میں تھا اب اِس محلے کا نام جمووریہ ہے۔ یاد رہے اب کوفہ کے تقریباتمام محلوں کے نام بدل گئے ہیں۔ اور کسی پرانے نام سے آپ وہ محلے دریاف نہیں کر سکتے البتہ پرانے قبیلوں کے لوگ گاہ گاہ ضرور ابھی تک یہان آباد ہیں۔

ارے یہ کہاں آ گئے۔ دیکھیے صاحب تاریخ میں اِن کا ذکر ایک بار پڑھا تھا کہ عباسی خلیفہ منصور دوانیقی عباسی نے آپ کو قید کر دیا تھا اور یہ قید ہو کر شہید ہو گئے تھے۔ کوفہ میں رہتے تھے۔ منصور دوانقی کی خلافت کے ابتدائی دور کا دار الخلافہ کوفہ تھا۔ پھر بغداد چلا گیا۔ اُسی ملعون نے آپ کو شہید کیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ قید کر کے لے جا رہے تھے کہ راہ میں اذیتوں کے سبب شہید ہو گئے۔ آپ نے چار آئمہ کا زمانہ پایا ہے۔ امام سجاد علیہ السلام، امام باقر علیہ السلام، امام جعفر صادق علیہ السلام، امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا زمانہ۔ یہ بات طے ہے کہ کوفہ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے جگہ جگہ اہلِ بیت اور آئمہ کی اولادوں کی قبریں اور روضے بہت نظر آتے ہیں۔

اِس سے ایک بات تو طے ہو جاتی ہے کہ آئمہ کی تمام اولاد نہ سہی زیادہ تر اولاد کوفہ ہی میں دفن ہے۔ یعنی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد بھی آپ کی اولاد کا مسکن زیادہ تر کوفہ ہی رہا ہے۔ پھر یہاں سے ہم نکلے تو کوفہ میثم تمار کے روضے پر آ گئے جسے حاکم شام نے مولا علی کی ولایت اور مودت کے کھلم کھلا اظہار پر زبان کاٹ کے کجھور پر سولی چڑھا دیا تھا۔ یہاں سے مولا علی کے گھر کی طرف گئے جو مسجد کوفہ کی پشت پر اور دار الامارہ کی دیوار کے ساتھ موجود ہے۔ آج یہ بات کھلی کہ در اصل یہ گھر مولا علی کے بھانجے یعنی امِ ہانی کے بیٹے جِعدہ کا تھا۔ یہ کوفہ میں رہتے تھے۔ جب امیر المومنین بصرہ سے کوفہ وارد ہوئے تو لوگوں نے آپ کو دار الامارہ میں سکونت اختیار کرنے کا مشورہ دیا مگر آپ نے دارلامارہ پر لعنت کی اور وہاں اترنے سے انکار کر دیا اور مسجد ہی میں اتر گئے۔ اتنے میں امام علیہ السلام کے بھانجے جِعدہ امام کے پاس آئے اور کہا مولا اِسی دار الالامارہ کی دیوار کے ساتھ مسجد کی پشت پر میرا ایک مکان خالی پڑا ہے آپ وہاں تشریف لے چلیں تب آپ اُس گھر میں تشریف لے گئے۔ اور زندگی کے بقیہ ایام اِسی گھر میں گزارے۔

ہم اِس گھر اور دارالامارہ کے دیوار کے ساتھ ساتھ جیسے ہی مسجد کوفہ کی پشت پر آئے۔ یہاں ایک کھڑکی دار الامارہ کی طرف کھلی ہوئی ملی۔ کھڑکی میں داخل ہوئے تو وہاں ایک کوفی لڑکا بیٹھا تھا۔ یہیں مسجد کی عقبی دیوار کے ساتھ ایک بہت چھوٹا دروازہ تھا۔ جو اینٹوں سے بند کر دیا گیا تھا اور اب وہ زمین کے قریباً اندر جا چکا تھا البتہ اُس دروازے پر مولا علی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ اُس لڑکے سے ہم نے دارالامارہ کے کھنڈر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی مگر اُس نے اجازت نہیں دی۔ لیکن یہ اجازت ضرور دے دی کہ یہان کھڑے ہو کر آپ دیکھ سکتے ہیں اور تصویریں بھی بنا سکتے ہیں۔ تب اُس کے ساتھ ہماری گپ شپ شروع ہو گئی۔ اِس گفتگو میں پتا چلا کہ وہ جامع کوفہ میں فزکس کا پروفیسر ہے اور پشت ہا پشت سے کوفی ہے اور پرانے کوفہ کے متعلق بہت کچھ جانتا ہے اِس میں یہ بھی پتا چلا کہ اب جس جگہ ہم کھڑے تھے یہ مولا علی کے گھر اور دارلامارہ کے درمیان ایک گلی تھی۔ اِس گلی میں ایک باغیچہ سا بنا دیا گیا ہے۔ درمیان میں ایک پگڈنڈی ہے۔

یہ پورا منظر یعنی گلی، اور مسجد کی عقبی دیوار کے ساتھ وہ دروازہ جہاں سے مولا علی مسجد میں داخل ہوتے تھے، زائرین کو اِس لیے نظر نہیں آتا کہ اب جس جگہ کو مولا علی علیہ السلام کے گھر کا صحن بنا دیا گیا ہے اُس صحن کے ساتھ ساتھ بائیں طرف یعنی دار الامارہ کی جانب ایک بڑی دیوار کر دی گئی ہے جو مسجد کی عقبی دیوار تک جاتی ہے اور اُس پر بہت بڑا لوہے کا جنگلا بھی لگا دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے دیوار کے اندر والی گلی اور چھوٹا عقبی دروازہ چھپ گیا ہے۔ زائرین سمجھتے ہیں کہ بس اِس جنگلے کے پار دار الامارہ ہے مگر وہ غلط سمجھتے ہیں، پہلے مَیں بھی یہی سمجھتا تھا مگر اب سب کچھ دیکھنے سے پتا چلا کہ صحن کی دیوار اور دار الامارہ کی دیوار کے درمیان کم از کم پچیس فٹ جگہ موجود ہے جو وہ گلی تھی جس میں دان رات گرز کر مولا علی مسجد کے عقبی دروازے سے مسجد کوفہ میں داخل ہوتے تھے۔ اور یہی وہ دروازہ اب ہمارے سامنے تھا۔

اگر زائرین کو پتا چلے تو یہاں بھی ایک بہت بڑی ضریح بن جائے گی۔ اُس لڑکے نے جس کا نام عبد الحسین الکوفی تھا ہمارے ساتھ بہت محبت کا رویہ دکھایا، گلی میں موجود مالٹے کے پیٹر سے مالٹے اتار کے دیے، کجھوریں میں نے خود اتار لیں۔ آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔ کونین ہماری تصویریں بناتا رہا۔ آج کی یہ دریافت بھائی میرے لیے بہت اہم تھی۔ اُسی نے بتایا کہ مسجد کوفہ میں مختلف مقامات ہیں، مثلا مقام، قضایا، یعنی جہاں مولا فیصلے کیا کرتے تھے، مقامِ خطبات، مقام بیت المال، وغیرہ۔ جو ہم نے دیکھ لیے۔

Check Also

Dyslexia

By Khateeb Ahmad