Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Akbar Natiq
  4. Kufa Aur Baghdad Mein Farq

Kufa Aur Baghdad Mein Farq

کوفہ اور بغداد میں فرق

جب ہمارے زائرین عراق جاتے ہیں تو اُن کا واسطہ مقامی لوگوں سے نہیں پڑتا۔ وہ وہاں جا کر کسی ہوٹل میں ٹھہر جاتے ہیں۔ پھر آئمہ کے حرم میں جاتے ہیں، زیارات کرتے ہیں اور دوبارہ اپنے ہوٹل میں آ جاتے ہیں۔ زائرین گروپ کی شکل میں جاتے ہیں چنانچہ اپنے ہی لوگوں سے میل تال رکھتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ٹیکسی ڈرائیور اور دوکانداروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ دکاندار اور ٹیکسی ڈرائیور کئی علاقوں کے ہوتے ہیں۔ اُن کی بنیاد پر آپ فیصلہ نہیں کر پاتے۔ چنانچہ اِن کی عادات و اطوار سے آپ وہاں کے لوگوں کا اندازہ نہیں کر سکتے۔

جب کہ دوسرے ملک میں جا کر جب تک وہاں کے مقامی لوگوں سے واسطہ نہ پڑے۔ مَیں چونکہ ہوٹلوں میں نہیں رہتا اور نہ وہاں جا کر فقط حرم میں بیٹھ کر نوافل کا ثواب حاصل کرتا ہوں بلکہ اُن تمام جگہوں پرپھرتا ہوں جہاں بھی تاریخی واقعہ پیش آ چکا ہو۔ اِس سے یہ ہوتا ہے کہ مجھے مقامی لوگوں کا مزاج سمجھنے میں آسانی رہتی ہے۔ یہاں آپ سے کچھ واقعات بیان کرتا ہوں آپ خود سمجھ جائیں گے۔ جو مَیں نے پہلے بیان نہیں کیے، وجہ اِس کی یہ تھی کہ اِس میں ہمارے ایک طبقے کی دل آزاری ہوتی۔ مگر وقار شیرازی اور زیف کے اصرار پر سنائے دیتا ہوں۔

جب مَیں پہلے دن کوفہ سے دریائے فرات کے کنارے کنارے کربلا کی طرف نکلا تو راستے میں مجھے بیسیوں افراد نے روکا اور اور اپنے گھر میں ٹھہر کر آرام کرنے کے لیے اور کھانا کھانے کی پیش کش کی۔ کوفہ میں کم و بیش ہر گھر میں ایک کمرہ امام حسینؑ کے نام پر مختص ہوتا ہے۔ اُس کا دروازہ کھلا ہوتا ہے، اُس پر "موکب "لکھا ہوتا ہے۔ اور اکثر موکب اپنے قبیلے کے کسی مشہور فرد کے نام سے وتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی کسی ثقفی کا گھر ہے تو وہ اپنے موکب کا نام"موکب مختار ثقفی " رکھ لے گا۔ اگر کوئی کِندی ہے تو اپنے موکب کا نام " موکب حجر بن عدی کندی " رکھ دے گا۔ مَیں اپنا فاصلہ نمٹانا چاہتا تھا۔ چنانچہ بہت کم رُکا۔ حتیٰ کہ ایک آدمی ایسا ملا کہ اُس نے دیکھتے ہی اندازہ لگا لیا کہ مَیں زاہر ہوں۔ اور اصرار بہت کیا کہ آج میرے گھر رُکیں۔

جب مَیں نے منع کیا تو وہ رو پڑا، کہنے لگا ایک عرصے سے ہمارے گھر امام کا مہمان نہیں اترا، مجھے لگتا ہے امام مجھ سے ناراض ہیں۔ اُس کی یہ بات سُن کر میرا دل بھر آیا۔ مَیں نے کہا چلیے بھائی آپ کے گھر رُک جاتا ہوں۔ یہ گھر قبیلہ بنی تمیم کے ایک فرد کا تھا۔ جس کا نام سعید تھا۔ مجھے آمادہ دیکھ کربہت خوش ہوا۔ پھر اِس نے میری بہت خدمت کی۔ چاول، گوشت، اور لوبیے کا شوربا، بعد اِس کے عراقی قہوہ کئی بار۔ پھر صبح ایک لمبا چوڑا ناشتہ، اُس میں بھی کباب، پنیر، لسی، کجھوریں۔ قہوہ کے ساتھ بادام وغیرہ۔ اور اتنا خوش ہوا کہ بیان سے باہر ہے۔ اُسے یقین تھا کہ یہ مہمان امام نے ہی اُس کے گھر بھیجا ہے۔ جب اپسے پتا چلا کہ میں پاکستانی ہوں تو اور بھی خوش ہوا، پاکستانیوں سے وہ ایک گونہ محبت رکھتے ہیں۔

اب مَیں ایک ایسی جگہ رُکا کہ وہاں اہلِ بیت کو ابنِ زیاد کے سپاہیوں کوفہ میں داخل ہونے سے پہلے رات انتطار کروایا تھا۔ یہ ایک پُل تھا۔ جہاں پر کوفہ کا دروازہ تھا۔ وہاں دو چھوٹے چھوٹے بارہ تیرہ سال کے بچے کھڑے تھے۔ مجھے دیکھ کر میرے پاس آئے اور اصرار کرنے لگے کہ یہ پاس ہی ہمارے گھر ہیں چلیے کھانا کھا لیجیے۔ اور بہت اصرار کیا۔ مَیں نے اُنھیں منع کر دیا۔ پھر بولے چلیں کھانا نہیں تو قہوہ ہی پی لیں، جسے وہ چائے بولتے ہیں۔ مَیں نے کہا وہ بھی نہیں پینی۔ مجھے آمادہ نہ دیکھ کرآخر ایک لڑکا آگے بڑھا اور میرے کان میں بولا۔ اگر آپ چلیں گے تو میں آپ کو فلوس (پیسے) بھی دوں گا۔

آپ مسافر ہو، آپ کے پاس پیسے کم ہوں گے۔ پھر اُس نے اپنی جیب دکھائی جس میں دو ہزار دینار تھے جو ہمارے تین سو کے برابر ہیں، بولا، یہ دیکھیے یہ میرے پاس پیسے بھی ہیں۔ یہ پہلے رکھ لیجیے۔ مجھے اُس کی اِس آفر پر بہت پیار آیا اور قریباً آنسو نکل آئے۔ اب مَیں اُس سے قہوہ پینے پر رضا مند ہو گیا۔ مجھے اُس کے ساتھ چلتے دیکھ کر دوسرا لڑکا بھی بولا، مَیں بھی فلوس دوں گا۔ میرا گھر بھی نزدیک ہے۔ پہلا بولا، یہ جھوٹ کہتا ہے، اِس کی جیب میں پیسے نہیں ہیں۔ لیکن مَیں نے پھر دونوں کے گھر سے قہوہ پی لیا اور پیسے نہیں لیے۔

اِسی طرح کربلا تک چار دن میں دسیوں جگہ کھانا کھایا، دسیوں جگہ چائے پی اور کجھوریں کھائیں۔ ایک جگہ قبیلہ بنی طے کے ایک آدمی نے روک لیا اور بکرے کی ران اور چاول سے مہمان نوازی کی، پھر بولا اگر رات رکو گے تو شب دیگ پکائیں گے۔ دنبے میں چاول بھر کر کھلائیں گے۔ ذوالکفل تک اور اُس سے آگے بھی یہی حالت رہی۔ کئی جگہ سے پھل لیا، دو تین جگہ دکانداروں نے پیسے نہیں لیے۔

ایک دن مَیں نے نجف سے ایک دوست سے موٹر بائیک لی۔ سارا دن کوفہ اور اُس کے مضافات میں گھومتا رہا۔ ایک جگہ اُس کا پیٹرول ختم ہو گیا۔ وہاں پیٹرول پمپ بہت دور دور ہیں۔ اب مَیں اُسے کھینچتا ہوں پیدل جا رہا تھا کہ ایک جگہ ایک سکول سے واپس آتے ہوئے ایک تیرا چودہ سال کے لڑکے نے اپنی سائیکل روک کر پوچھا، کیا ہوا؟ میں نے کہا پیٹرول ختم ہو گیا ہے اور پیٹرول پمپ کا پتا نہیں کہاں ہے؟ اُس نے پہلے سمجھانے کی کوشش کی کہ پیٹرول پمپ یہاں سے چار کلومیٹر شمال مشرق کی طرف نجف کی راہ میں ہے۔ جب مَیں چلنے لگا تو بولا، ٹھہریے، آپ کہاں سے ہیں اور یہان کیا کر رہے ہیں، مَیں نے کہا زائر ہوں۔ اُس نے فوراً کہا آپ رُکیے، یہ میرا بستہ پکڑ لیں، آپ اتنا پیدل کیسے موٹر سائیک گھسیٹیں گے؟

پھر ایک جگہ سے اُس نے کین پکڑی اور اپنا بستہ مجھے پکڑا کر آدھ گھنٹے بعد پیٹرول لے آیا اور میری موٹر سائیکل میں ڈالا۔ یہ سب واقعات کوفہ کے ہیں۔ اِس کے علاوہ مَیں نے کوفہ میں ہزاروں جگہوں اور لوگوں کی تصویریں کھیچنیں۔ کسی نے بُرا نہیں منایا اور نہ منع کیا۔ گلیوں میں گھومتا پھرا، کوفہ کے کئی لوگ دوست بن گئے۔ ابھی اُن سے بات بھی ہوتی ہے۔ کوفہ سستا بھی بہت ہے۔ یعنی جو چیز آپ بغداد سے 10روپے کی لیتے ہیں وہی یہاں چار کی ملتی ہے۔

اب پرانے بغداد کے صرف دو واقعات سُنیے۔ پرانا بغداد آج بھی اہلِ سنت کا گڑھ ہے۔ مَیں الرشیدیہ سڑیٹ پر جا رہا تھا۔ یہ بازار ہارون الرشید نے خاص طور پر سیرو تفریح کے لیے بنایا تھا، یہیں مختلف کھیل ہوتے تھے۔ یہیں طوائفین اور ناچ گانا چلتا تھا۔ آج بھی یہی کچھ ہے۔ اِسی کے پاس متنبی اور ابونواس کے گھر ہیں۔ یہیں الف لیلہ لکھی گئی ہے جس کا نام سوق الوراق ہے۔ یہاں مَیں چلتے ہوئے جب ایک کیفے کے سامنے پڑے ہوئے سامان کی تصویر لینے لگا تو وہاں بیٹھا آدمی انتہائی بدتمیزی سے اٹھا اور اُس نے مجھے ڈپٹ دیا۔ مَیں اُسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ گیا کہ خیر ہر جگہ اِس طرح کا ایک آدھ نمونہ ہوتا ہے۔

تب قریب کے ایک کیفے میں چلا گیا، وہاں لوگ بیٹھے حقیہ پی رہے تھے اور قہوے کی چسکیوں کے ساتھ لائیو گانے سُن رہے تھے۔ مَیں بھی وہیں بیٹھ گیا کہ اِتنے میں ایک ہوٹل ہی سے ایک فرد آگے بڑھا۔ اُس نے کہا یہاں کیوں بیٹھے ہو۔ مَیں نے کہا زائر ہوں، کاظمین آیا تھا، سوچا بغداد بھی دیکھتا جاوں۔ اُس نے اگلی بات ہی نہیں سُنی مجھے گریبان سے پکڑا اور دھکا دے کر باہر نکال دیا، بولا کاظمین رہو پھر اِدھر کیا لینے آئے ہو، نکلو یہاں سے۔ مَیں نے کہا، بھائی پاکستان سے ہوں، بولا یہاں سے دفعہ ہو ورنہ تیرا پاکستان یہیں پورا کر دوں گا۔ مجھے بہت شرمندگی ہوئی۔ تب ایک اور جگہ رُکا وہاں بھی یہی کچھ تھا۔

سوچا ویڈیو بنا لوں۔ مگر تھوڑی دیر میں مجھے محسوس ہوا کہ یہ بھی بد تمیزی کرے گا۔ اتنے میں وہ آگے بڑھا، انتہائی بد اخلاقی سے بولا، عند الکاظمیہ، مَیں نے کہا نعم، یعنی ہاں ، بولا اسمک، مَیں نے کہا علی اکبر، اب تو جیسے وہ آگ بگولا ہو گیا، یہ سنتے ہی میرا موبال فون چھین کر میری ہی جیب میں ٹھونسا اور بولا یہاں سے نکلو۔ حالانکہ سب وہاں بیٹھے ہوئے ویڈیو بنا رہے تھے۔ جلد وہاں سے بھی نکلا۔ اِس کے بعد بھی مَیں بارہ گھنٹے پرانے بغداد میں جان بوجھ کر پھرتا رہا، وہاں کے مقامیوں سے قریب رہا اور اُنھیں بد تمیز، منافع خوراور چور پایا۔ بغداد کے لونڈوں کو صرف ہلہ گلہ کرنے والا اور سطحی دیکھا، جبکہ کوفہ کے لڑکے متین اور ٹھہرے ہوئے مزاج کے نہایت تمیز میں رہنے والے تھے۔

البتہ جہاں بغداد کا سوق الوراق تھا، یعنی کتابون کا بازار، وہاں معاملہ قدرے مختلف اور مہذب تھا۔ اب مجھے سمجھ آئی، آج بھی ناصبیت کیسے زوروں پر ہے۔ اور اہلِ بیت ِ رسول مُڑ مُڑ کر کوفہ کی طرف کیوں دیکھتے تھے۔

Check Also

Bhutto Ka Tara Maseeh

By Haider Javed Syed