1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ali Akbar Natiq/
  4. Kuen Ki Haqeeqat Aur Masjid e Qiblatain

Kuen Ki Haqeeqat Aur Masjid e Qiblatain

کنویں کی حقیقت اور مسجد قبلتین

ربذہ اور ینبع کے ہزار بارہ سو کلومیٹر کے سفر نے اگرچہ تھکا دیا تھا۔ لیکن یہاں تو یہ ہے کہ دن محدود ہیں اور تاریخ چودہ سو سال کی ہے۔ اگلی صبح ہوتے ہی پھر مدینہ کی گلیاں، مدینہ کے مضافات تھے اور ہم تھے۔ سب سے پہلے مَیں مسجد قبلتین کی طرف نکلا اور پیدل نکلا۔ لیکن اِس سے پہلے مَیں ایک غلط فہمی دُور کرتا چلوں۔ آپ سب نے تاریخ میں پڑھا ہوگا کہ مدینہ شہر میں یہودیوں کا ایک کنواں تھا، جس سے وہ مسلمانوں کو پانی نہیں لینے دیتے تھے، لہذا مدینہ شہر کی آدھی آبادی پیاسی رہتی تھی۔

رسولِ خدا نے کہا، کون ہے جو خدا کے ساتھ تجارت کرے گا یعنی کون ہے جو یہ کنواں خرید کر وقف عام مسلمانوں کے لیے کرے گا۔ حضرت عثمان نے کہا مَیں یہ تجارت کروں گا اور وہ کنواں چار ہزار میں آدھا خرید لیا۔ لہذا ایک دن پانی مسلمان بھرتے تھے اور ایک دن یہودی۔ پھر یہودیوں نے تنگ آ کر باقی آدھا کنواں بھی چار ہزار میں بیچ دیا۔ یوں حضرت عثمان نے آٹھ ہزار میں اُن سے خرید کر مسلمانوں میں وقف کر دیا۔

مجھے کسی تاریخ سے خبر ہوئی تھی کہ یہ کنواں اصل میں مدینہ شہر میں نہیں تھا۔ مدینہ سے باہر ایک باغ میں تھا۔ حضرت عثمان نے یہودیوں سے باغ خریدا اور ساتھ وہ کنواں بھی خرید لیا۔ اور یہ کنواں اصل میں حضرت عثمان ہی کی ملکیت رہی جو بعد میں اُس کے بیٹوں کو ملی۔ مدینہ شہر میں انصار کے اپنے کئی کنویں تھے جن میں سعد بن عبادہ کے ہی چار کنویں تھے جن سے اہلِ مدینہ پانی لیتے تھے۔

بہر حال مَیں اِس حضرت عثمان والے کنویں کو ہر حالت میں دیکھنا چاہتا تھا کہ دراصل وہ کہاں واقع ہے تاکہ اُس وقف والی کہانی کا پتا چلے۔

لہذا مسجد قبلتین سے پہلے مَیں کنویں کی تلاش میں نکل پڑا۔ پیدل چلنے میں چیزوں کا آہستگی سے صحیح اندازہ کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔ وقت رُک جاتا ہے اور ذہن زیادہ کام کرتا ہے۔ آخر چلتے چلتے پونے دو گھنٹے بعد کنویں پر پہنچ گیا۔ یہاں اب کنویں کی جگہ فوارہ بنا دیا گیا ہے اور فوارے کے ارد گرد گول سی پارک بن گئی ہے اور پارک اطراف میں گول سڑک کے سڑک نکال دی گئی ہے۔ کنویں کی عین جگہ کو جالی سے بند کرکے " بئرِ عثمان" کا ایک بورڈ لگا دیا گیا ہے۔ باقی سب نخلستان کاٹ دیے گئے ہیں اور آبادی چاروں طرف آبادی بڑھ گئی ہے ہاں بیچ میں اِکا دُکا جہاں کالی جگہ ہے وہاں کھجوروں کی باقیات ہے۔

اب معاملہ یہ ہے کہ کنواں واقعی چودہ سو سال والے مدینے سے چھ کلومیٹر دور ہے۔ جبکہ مدینہ کی آبادی صرف ایک کلومیٹر کے اندر تھی۔ حتیٰ کہ رسولِ خدا نے مدینہ کے گرد جو خندق کھودی تھی۔ کنواں اُس خندق سے بھی ڈھائی تین کلومیٹر باہر ہے اور یہاں نخلستان اور زراعت تھی، آبادی بالکل نہیں تھی۔ اور یہ علاقہ بھی مدینہ کے مغرب میں ہے جب کہ یہودی بستیاں سب کی سب مدینہ کے مشرق میں تھیں اور وہیں اُن کے کنویں اور نخلستان تھے۔ اور سب سے نزدیک جو تھے وہ بنی قینقاع تھے، بالکل جنت البقیع سے متصل اُن کا قلعہ تھا اُن کا اگر کوئی کنواں تھا تو وہ مدینے کے اندر ہونا چاہیے تھا۔ لہذا مدینہ کی آبادی کے لیے کنواں وقف کرنے والی کہانی اُموی مورخین کا مسلمانوں کو ایک تحفہ ہے جسے ہم سنبھالے بیٹھے ہیں۔

ایک بات یاد رکھیے گا۔ حضرت عثمان کے دور میں مدینے کے گرد جتنی چراگاہیں تھیں وہ سب بنی اُمیہ کی ملکیت میں دے دی گئی تھیں جن میں یہ کنواں بھی آتا تھا۔ اور وقف کی کہانی اِس لیے بنائی گئی تاکہ حضرت علیؑ کے ہاتھوں سے کھودے ہوئے کنویں، جنھیں مدینہ اور مدینہ کے مضافات میں سب لوگوں پر کھول دیا گیا تھا، وہ دب جائیں۔ آج بھی جہاں میقات ہے وہاں مولا علیؑ نے سات کنویں کھودے تھے تاکہ حاجیوں کو پانی کی دقت نہ ہو اور مدینہ سے مکہ جانے والے حاجی یہیں سے احرام باندھتے ہیں۔

خیر کافی دیر کنویں والے فوارے کے پاس بیٹھ کر مَیں مسجد قبلتین کی طرف چل دیا۔ راستے میں مجھے ایک ایسا کھجوروں کا ایسا باغ ملا جس کی کھجوروں میں گٹھلی نہیں تھی۔ یہ باغ بڑا باغ تھا۔ لیکن یہاں کے نخلستانوں کی مصیبت یہ ہے کہ اِن کے اطراف میں اونچی دیوارین کھڑی کر دیتے ہیں۔ سوائے امام زین العابدینؑ کے باغ کے، کوئی بھی ایسا باغ نہیں دیکھا جس کے گرد چاردیواری نہ ہو۔ اِن کی نسبت عراق کے نخلستانوں کے گرد کوئی چاردیواری نہیں ہوتی۔ انسان بہت اچھے سے نظارہ کر سکتا ہے اور وہاں اتنی کھجوریں ہوتی ہیں کہ مول لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

یہاں مَیں جس باغ کے درمیان سے گزر رہا تھا اِس میں صورت یہ تھی کے اگرچہ سڑک نخلستان کے درمیان سے نکالی گئی تھی لیکن دائیں بائیں اونچی دیواریں تھیں اور کھجوروں کا پھل سڑک پر گرا ہوا تھا۔ مَیں نے جتنی بھی کھجوریں اُٹھا کر کھائیں اِن میں سے کسی میں بھی گٹھلی نہیں تھی۔

خیر مختلف جگھوں سے ہوتا ہوا جب مَیں مسجد قبلتین پہنچا تو وہاں مسجد کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ جب مَیں اٹھائیس سال پہلے آیا تھا تو یہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی اور ارد گرد باغوں کا سلسلہ تھا مگر اب چاروں طرف آبادی تھی۔ آبادی کے بیچ کہیں کہیں نخلستانوں کے ٹکڑے پڑے ہیں، کبھی وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔ مسجد ایسی بنا دگئی ہے کہ اندازہ ہی نہیں ہوتا دائیں کیا تھا اور بائیں کیا تھا۔

بخدا میرا بس ہو تو ابھی ساری آبادیاں ختم کرکے اِن سب جگھوں کو واپس اُسی شکل مَیں لے آئوں اور مکہ مدینہ کے لوگوں وہاں سے بیس بیس میل پیچھے الگ شہر بنا کر منتقل کر دوں اور زائروں اور حاجیوں کے لیے بھی وہیں ہوٹل بنا دوں۔ لوگ وہیں سے آئیں اور زیارت، عمرہ و حج کرکے وہیں جا کے رہیں۔ بے تحاشا عمارتوں، سڑکوں پلوں اور آبادیوں نے اِن شہروں کا تقدس ہی ختم کر دیا ہے۔ خیر مسجد میں نماز ظہرین پڑھی اور دوبارہ مقامِ خندق کی طرف چل دیا۔ یہاں سے خندق کا مقام فقط ایک کلومیٹر تھا۔ وہاں پہنچ کر مَیں عین اُس چوک میں بیٹھ گیا جہاں عمرو بن عبدِ ود سے جنابِ امیرؑ کا ٹاکرا ہوا تھا۔

کافی دیر، کم و بیش آدھا گھنٹا بیٹھا رہا۔ مَیں ٹریفک اشارے کے قریب زمین پر بیٹھا تھا اور ٹریفک میرے ارد گرد سے گزر رہی تھی۔ لوگ سمجھ رہے تھے پاگل بیٹھا ہوں مگر مَیں وہیں سے رسولِ خدا کے خیمے کو دیکھ رہا تھا، وہیں سے سلمان فارسی کے خیمے کو دیکھ رہا تھا جو رسولِ خدا کے عین آگے تھے۔ اب اِن دونوں جگھوں پر چھوٹی چھوٹی خیمہ نمامسجدیں ہیں۔ جب آدھ گھنٹا ہوگیا تو سلع پہاڑی پر چڑھ گیا،۔ یہی پہاڑی تھی جس کے دامن میں جنگ ہوئی تھی۔ اور جب علیؑ عمرو بن عبدِ ود کے مقابلے پر گئے تو اکثر صحابی اِسی سلع پہاڑی پر چڑھ گئے تھے۔

اُن کا خیال تھا کہ یہ نامراد علیؑ کو قتل کرکے ہماری طرف آئے گا۔ بلکہ ایک صحابی نے تو یہ کہہ کر باقی صحابیوں کا پِتا بھی پانی کر دیا کہ ایک دفعہ ہم اِس کے ساتھ تھے۔ شام کی طرف جا رہے تھے کہ ہمیں ڈاکو پڑ گئے۔ ہم تو بھاگ گئے مگر اِس اکیلے نے اونٹنی کے بچے کو ڈھال بنا لیا اور اُن کے ساتھ لڑائی شروع کر دی اور اکیلے نے پانچ سو ڈاکو بھگا دیے۔ یہ بہت جبرون قسم کا بندہ ہے اِسے نعرے وغیرہ مارنے دیں، اور درگزر کریں۔ ، خود ہی چلا جائے گا۔ اُس کے یہ فرمودات سُن کر باقی صحابی بھی سہم گئے۔ اور تاریخ بتاتی ہے کہ بڑے بڑے جری صحابیوں نے سر اتنے نیچے کرکے خموشی اختیار کر لی جیسے اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ اِس لیے کہ کہیں رسولِ خدا مجھے ہی نہ اِس کے مقابلے پر بھیج دیں۔ تین بار رسولِ خدا نے اپنے پیارے صحابیوں کو پکارا مگر تینوں بار علیؑ کے علاوہ کوئی نہ اٹھا۔

آخر رسولِ خدا نے علیؑ کو اپنے پاس بلایا، اپنا کُرتہ پہنایا، اپنی خود علیؑ کے سر پر رکھی، اپنا عمامہ علیؑ کے سر پر باندھا اور اپنا کمر بند علیؑ کے سینے پر باندھا، اپنی ذرہ پہنائی، اپنی ہی تلوار اُن کی کمر میں حمائل کی اور ماتھے پر بوسہ دے کر رخصت کیا، ایسے میں آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اِدھر علیؑ عمرو کے مقابلے کے لیے میدان کی طرف چلے، اِدھر رسول اللہ نے دعا شروع کی، یا اللہ مَیں نے بدر میں عبیدہ کو کھو دیا، اُحد میں حمزہ کو تیری راہ میں دے دیا۔ اب صرف میرے پاس علیؑ بچا ہے جو تیری طرف سے دنیا و آخرت میں میرا نصیر ہے۔ تُو اِس کی حفاظت فرما۔ اگر علیؑ قتل ہوگیا تو کافروں کو روکنے والا کوئی نہ ہوگا۔ یہ کہہ کر سجدے میں سر رکھ دیا۔

مَیں یہاں سے گویا یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ سارا میدان اور خندق کی جگہ صاف نظر آتی تھی۔ اتنے میں شام کے لالہ نے اپنی سُرخ پتیوں کا رنگ فضا میں بکھیر دیا اور آخر جب سیاہی پھیل گئی تو مَیں پہاڑ سے نیچے اُتر آیا اور چلتے ہوئے پون گھنٹے میں اپنے ہوٹل پہنچ گیا۔

Check Also

Pensionary Fawaid Ke Baray Mein Peshawar High Court Ka Faisla

By Rehmat Aziz Khan