Kazmain Aur Mojza
کاظمین اور معجزہ
سب سے پہلے تو یہ بتا دوں کہ مَیں دینِ آل ِ محمد ؑیا دوسرے لفظوں میں شیعت کو معجزوں کا نہیں بلکہ عقل کا اور اصولِ عقل کا دین سمجھتا ہوں اور وہ ہے بھی۔ پھر یہ کہ مَیں ایک ادیب ہونے کے ناطے منطقی عقلی دلیل کے تابع ہوں کرامتوں کے ظہور کو نہیں مانتا، اِس کے باوجود مَیں یہ واقعہ لکھ رہا ہوں۔
پہلے عرض کر دوں کہ اپنی زیارات کے اِس پھیرے میں مَیں کاظمین دو دفعہ گیا ہوں۔ دوسری دفعہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ مدائن کی زیارت رہ گئی تھی اور لوگ ڈراتے تھے کہ اُدھر ابھی بہت سختی ہے اور خرچہ بھی بہت ہے۔ لیکن مجھے چین نہیں تھا، کیونکہ خرچے کی پرواہ نہیں تھی اور سختی ہوئی بھی تو کیا؟ یہی کرین گے کہ واپس لوٹا دیں گے۔ خیر جب مدائن پہنچ گیا تو دل نے بے چین کیا کہ اب کاظمین بھی قریب ہے وہاں حاضری نہ دینا میرے جیسے گناہ گار کو جچتا نہیں۔ چنانچہ مدائن سے پہلے عبد القادر جیلانی اور امام اعظم ابو حنیفہ کے مزارات پر آیا اور اُس کے بعد کاظمین میں داخل ہوا۔ لیکن چونکہ آج شب جمعہ بھی تھی لہذا کاظمین میں کھوئے سے کھوا چھِل رہا تھا، تھالی پھینکو تو سر ہی سر جائے۔
میری ٹیکسی کوکوئی دو کلو میٹر دور ایک گیراج میں جگہ ملی۔ اور وہان سے پیدل روضہ کی طرف آنا پڑا۔ اب یہ کہ مرکزی بازار کی بجائے اللہ جانے مَیں کس بازار میں جا نکلا۔ ہر طرف انسانوں کا انبوہ۔ پانچ منٹ ہی چلا ہوں گا کہ ایک عورت پیچھے سے ایسے سب کو دھکیلتی ہوئی آئی جیسے باولا اونٹ بھاگتا ہو۔ اُس کے حجاب اور کپڑوں سے لگتا تھا یہ زائرہ ہے۔ لوگ اُسے دیکھ کر ہونق سے ہو گئے۔ مجھے لگا ا س عورت کی کوئی نہایت قیمتی چیز کھو گئی ہے۔ جِسے یہ تلاش کرنے میں یوں باولی ہوئی ہے۔ مَیں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ پھر انتہائی تیزی سے پلٹی اور قریبا گِر پڑنے کے انداز سے الٹے پاوں ایک اور بازار میں گھس گئی اور اِس حالت میں کہ اُس کا چہرہ پورا پسینے سے شرابور تھا اور سانس اُکھڑی ہوئی تھی۔
اللہ جانے مجھے اِس وقت کیوں احساس ہوا کہ اِس عورت کی کوئی بیٹی یا بیٹا کھو گیا ہے۔ جسے وہ ڈھونڈتی ہے مگر لوگ اِسے پاگل سمجھ رہے تھے۔ چنانچہ اس عورت کا چہرہ میری آنکھوں میں اٹک سا گیا۔ اتنے میں وہ نظروں سے غائب ہو گئی۔ اب یہ کہ مَیں امام کے روضے کی طرف دوبارہ چل تو پڑا لیکن میرا خیال عورت میں رہ گیا۔ اور مَیں سوچتے ہوئے امام سے کہا، مولا یہ عورت مجھے زائرہ لگتی ہے اور اگر یہ زائرہ ہے اور اِس کا یہاں کوئی بچہ کھو گیا ہے تو خود ہی بتایے وہ یہاں سے اپنے گھر کس منہ سے جائے گی۔ کیا وہ دنیا کو کہتی پھرے کہ وہ امام کے روضے پر اپنی بچہ کھو آئی؟ اپنی زائرہ کا آپ اتنا بھی خیال نہیں کریں گے۔ پھر وہ ماں ہے اِسی صدمے سے مر نہ جائے۔
مَیں یہی باتیں دل میں سوچتا جاتا تھا اور امام سے باتیں کرتا جاتا تھا، اور ایسے شکائتیں کر رہا تھا جیسے وہ سامنے بیٹھے سُن رہے ہیں۔ اب یہ ہوا کہ اِس حالت میں مجھے چلتے ہوئے پندرہ بیس منٹ ہو گئے۔ لیکن دوسری طرف سے حالت یہ ہوئی کہ ایک جگہ آکر مَیں خود راستہ بھول گیا اور امامؑ کے روضے کی طرف جانے کی بجائے کسی اور ہی بازار میں نکل آیا۔ اب میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کس طرف جاوں۔ چنانچہ جو گلی سامنے آٹی تھی اُدھر ہی چل پڑتا تھا۔ ایک جگہ ایک شخص سے امام ؑکے روضے کا راستہ پوچھا تو اُس نے ایک اور لمبے سے بازار کی طرف پھیر دیا۔ اب دس منٹ اُسی میں چلتے گزر گئے اور پھر آگے سے راستہ بند، مَیں وہاں سے ایک دوسری گلی میں چلا گیا، یہ بھی تھوڑی آگے جا کر بند تھی اُس کے اُلٹے ہاتھ ایک پتلی سے گلی آئی، بس ایک ہی بندہ وہاں سے نکل سکتا تھا۔ مَیں اُسی میں گھس گیا۔ لیکن اس تمام سفر میں عورت میرے دماغ میں گھسی ہوئی تھی۔
خیر اِسی گلی میں تھوڑی دیر چلا ہوں گا کہ وہاں ایک چھوٹا سا چوک آگیا۔ اِسی چوک میں اچانک کیا دیکھتا ہوں ایک چار سالہ بچی کھڑی ہوئی چیخیں مار کر روئے جا رہی تھی۔ اُس کا ہاتھ ایک آدمی نے پکڑا ہوا تھا۔ مَیں وہیں ٹھٹھک گیا اور آدمی سے پوچھا، اِسے کیا ہوا ہے، وہ بولا اِس کی ماں کھو گئی ہے۔ پچھلے تین گھنٹے سے مَیں یہاں لے کر کھرا ہوں کہ شاید وہ اِسے ڈھونڈتے ہوئی یہاں آ جائے۔ اب مَیں نے اُسے کہا دیکھ بھائی مَیں نے ایک جگہ اِس کی ماں کو دیکھا ہے۔ میرے ساتھ آو۔ وہ بچی کو لیے میرے ساتھ ہو گیا۔ اب بچی کا ایک ہاتھ مَیں نے بھی پکڑ لیا کہ کہیں یہ آدمی اور بچی پھر نہ گم ہو جائے۔ مگر اب ستم یہ تھا کہ ماں کو کہاں ڈھونڈوں، اُسے تو آدھا گھنٹا پہلے پتا نہیں کہاں چھوڑ آیا ہوں۔ اب وہ نہ جانے کہاں چلی گئی ہو گی۔ لیکن پھر بھی ہم باہر کی طرف بھاگے، مختلف گلیاں دوڑتے ہوئے کوئی آدھے گھنٹے بعد ایک چوک میں نکل آئے، یہ وہ چوک تو نہیں تھا جہاں مَیں نے اُس عورت کو دیکھا تھا مگر ارادہ کیا کہ کسی سے پوچھ لوں لیکن پھر اُس پہلے والے چوک کا نام نہیں آتا تھا تو کیسے پوچھو، لیکن پھر بغیر سوچے سمجھے مَیں ایک سڑک پر دوڑنے لگا کہ شاید یہ راستہ وہیں جاتا ہو۔
دس قدم ہی چلا ہوں گا کہ اچانک وہیں عورت دکھائی دی، اور وہ چیخیں مار کر بھاگتی جاتی تھی۔ مَیں نے بھاگ کر اُس عورت کا دامن کھینچا اور کہا ھذا بِنتُکَ، اُس نے جب مُڑ کر مجھے دیکھا تو مَیں نے فوراً اُس کے سامنے بچی کا چہرہ کر دیا۔ وہ عورت اور وہ بچی ایک دم ایک دوسرے کو لپٹ گئیں۔ گویا ماں بیٹی تھیں۔ اور خوشی سے گویا پاگل ہی تو ہو گئیں۔ اُس عورت نے مجھے ایسے دیکھا جیسے مَیں انسان کی بجائے کوئی اجنبی مخلوق ہوں، پھر اِس سے پہلے کہ وہ مجھے کوئی جِن وغیرہ سمجھ لیتی مَیں نے بچی کے سر پر بوسہ دیا اور پیچھے بھاگ پڑا۔ میرے پیچھے ہی وہ شخص بھی تھا۔ شاید وہ دوکاندار تھا۔
بس بھائی کچھ نہ پوچھیے میری خوشی کی حالت کیا ہوئی۔ ایک تو امام نے میری بات فوری مانی، مانتے کیوں نا، مَیں نے کوئی ناجائز شکایت تھوڑی کی تھی؟ دوسری بات یہ کہ امام نے میرا نوٹس لیا اور یہ دیکھ کر لیا کہ یہ چھوکرا ہمیں خالص دل سے ہی مانتا ہے۔ اور تیسری بات کہ ماں بیٹی کو فوری ملوایا بھی اور ملوانے کا اعزاز بھی مجھے ہی دیا۔ اِس کے بعد ایک گھنٹے بعد اللہ جانے کس راستے سے امام کے روضے پر پہنچا اور سجدے میں جا کر اپنی منہ ٹُٹ قسم کی شکایت پر ہنس بھی دیا۔ اور کہا مولا یہ کوئی بات ہے، ہم آپ سے نہیں لڑیں گے تو کیا کسی اور سے جا کر لڑیں گے۔