Ghar e Sor Ki Kahani Meri Zubani
غارِ ثور کی کہانی میری زبانی
کل صبح دس بجے مَیں حرم سے پیدل غارِ ثور کی جانب روانہ ہوا۔ حرم سے سات یا آٹھ کلومیٹر مشرق کی جانب سفر کریں تو یہ مکہ کے شمالی طرف کے پہاڑوں میں سب سے بلند نظر آتا ہے۔ کہتے ہیں اِس پہاڑ کا نام ایک پرانے شخص ثور بن عبد المنات کے نام پر رکھا گیا ہے۔ پہاڑ پر چڑھ کر آپ آسانی سے مشرق کی طرف حرا کی چوٹی کو دیکھ سکتے ہیں۔
خیر جیسے ہی مَیں اِس کے پاس پہنچا اور چڑھائی شروع کی تو پہاڑ مجھ پر کھلنے لگا۔ دراصل اِس پہاڑ کے چاروں طرف سے راستے دشوار گزار پگڈنڈیوں کی طرح اوپر جاتے ہیں۔ لیکن ایک طرف سے حکومت نے راستہ خود بنا دیا ہے، مَیں بھی اِسی حکومتی راستے سے جا رہا تھا۔ رسولِ خدا اِس پر کس طرف سے چڑھے، یہ معلوم نہیں ہے۔ پہاڑ پر جیسے ہی چڑھنا شروع کیا بھیک مانگنے والوں نے روکنا شروع کر دیا۔ یہ سب پاکستانی تھے، بلکہ مَیں نے یہاں پاکستانیوں کے علاوہ کوئی گداگر نہیں دیکھا اور یہ پاکستانی بھی سب جنوبی پنجاب کے ہی تھے۔
خیر راستے میں اِکا دُکا چھپر آتے ہیں جن سے آپ چائے اور پانی لے سکتے ہیں۔ میرے آگے آگے ایک آدمی تین گدھوں کو ہانکے جا رہا تھا۔ اِن میں سے ایک گدھا اوپر چڑھتے ہوئے بار بار لید بھی کر رہا تھا۔ اُن گدھوں پر پانی لدا تھا۔ یہاں لوگ کم تھے۔ چونکہ اِس پہاڑ پر چڑھنا مشکل کام ہے بلکہ بوڑھا آدمی نہیں چڑھ سکتا اِس لیے ہجوم نہ ہونے کے برابر تھا۔ میرے دامن میں دو شخص چل رہے تھے اور پسینے سے شرابور تھے۔ ایک نے اچانک مجھے مخاطب کرکے کہا دیکھیں بھائی ہم سے اپنا بوجھ اٹھا کر نہیں چڑھا جا رہا اور حضرت ابوبکر رسولِ خدا کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر اِس پر چڑھے ہیں۔
خیر مَیں چلتا رہا اور کوئی ڈھائی گھنٹے کی مسافت طے کرکے چوٹی پر پہنچ ہی گیا۔
اب سُنیے غار کی اصل حقیقت۔
اول تو اِس چوٹی پر کم و بیش دس بارہ چھوٹی بڑی غاریں ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ثور کی غار بھی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بتا دوں کہ غار کا جو دھانہ ہمیں تصویروں میں دکھایا جاتا ہے یہ بعد میں پتھر توڑ کر خود بنایا گیا ہے۔ یہ غار کا اصل دہانہ نہیں ہے۔ اِس کا اصلی رستہ مغرب کی طرف سے داخل ہونے کا ہے جو ایک گلی نما سا ہے اور دہانی لمبوترا سا ہے اور وہ بھی اتنا جھک کر داخل ہونا پڑتا ہے جیسے لیٹنے کے مترادف۔ غار صرف ایک ہی بڑے پتھر پر مشتمل ہے جیسے ایک پیالہ اُلٹا رکھا ہوا ہو اور اُس پیالے کا ایک طرف سے کنارہ ٹوٹا ہو جہاں سے کوئی شے پیالے کے اندر داخل ہو جائے۔
دوسری غاریں چھوڑ کر اِس میں پناہ لینے کی اصل وجہ یہ تھی کہ عین بلندی پر واقع تھی جہاں سے آپ پورے مکہ کو دیکھ سکتے ہیں اور اوپر ہوا اور موسم کی شدت بھی کم ہوتی ہے اور کسی کو بھی اس کے اندر کسی شخص کے بیٹھنے کا گمان تک نہیں ہوتا۔ پہاڑ کی چوٹی جہاں یہ غار ہے بہت دلفریب ہے۔ بڑے بڑے پتھروں کے بیچ اچھی خاصی راہداریاں ہیں جیسے بھول بھلیاں ہوں۔ مَیں تین گھنٹے اوپر ہی رہا۔ یہاں پر بھی لوگ نفل پڑھنے اور کچرا پھیکنے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دے رہے تھے۔
یہ بات تو طے ہے کہ یہ جس طرح کا پہاڑ ہے، قدموں کے نشان ہرگز نہیں لگ سکتے اور نہ کوئی کھوجی کسی نشان کو پا سکتا ہے۔ کیونکہ ایک تو کسی کے خیال میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ یہاں کوئی شخص بجائے دُور نکل جانے کے پہاڑ پر چڑھ کر بیٹھ جائے، وہ بھی ایسے پہاڑ پر جہاں چڑھنے کا وقت بھی کم سے کم چار گھنٹے سے کم نہ ہو۔ پھر یہ کہ گھوڑوں سمیت یہاں کافر نہیں پہنچ سکتےتھے کیونکہ رستہ بالکل ہموار نہیں ہے۔
پھر آخر وہ کیسے پہنچے۔ جب تاریخ کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں تو حقائق چشم کشا ہیں۔ جو کسی دن بعد میں لکھوں گا۔ لیکن مختصر بتاتا چلوں تو یہ ہے کہ رسولِ خدا رات جب اپنے گھر سے نکلے تو اکیلے ہی کوہِ ابو قبیس کو پار کرکے رات ہی اِس غار پر پہنچے۔ حضرت ابوبکر چونکہ جانوروں کا بیوپار کرتے تھے لہذا حضرت مولا علیؑ سے کہہ گئے کہ ابوبکر سے کہہ دینا کہ وہ میرے لیے ایک ناقہ خرید دیں۔
دوسرے دن جب ابوبکر کو مولا علیؑ نے رسول کا پیغام دیا تو اُس نے دو ناقے خریدے۔ ایک اپنے لیے اور ایک رسول کے لیے۔ جس کی حضرت علیؑ نے اُنھیں قیمت ادا کی۔ جب وہ تیسرے دن یہ ناقے لے کر اُس پہاڑ کے دامن میں پہنچے تو اُنھیں مالک بن فہیرہ نے دیکھ لیا۔ یہ ایک اونٹ چرانے والا آدمی تھا لیکن ایک جنگجو بھی تھا۔ اُسے شک ہوا کہ یہاں کوئی معاملہ ہے، وہ خموشی سے وآپس مکہ آیا اور اُنھیں بتایا کہ یہ قصہ ہے۔ ہو نہ ہو رسولِ خدا اِسی پہاڑ پر موجود ہیں۔ مالک بن فہیرہ کے مکہ آنے تک اور وہاں سے کافروں کو اطلاع کرنے تک رات ہوگئی تھی چنانچہ اگلی صبح کافر پہاڑ کی طرف نکلے۔ مگر رات ہی رات رسولِ خدا نے ابوبکر سے کہا کہ اپنے ناقے اپنے نوکرکے حوالے کرو اور اُسے کہو اُنھیں لے کر دس میل آگے کوہِ رحمت کے دوسری طرف نکل جائے، ہم وہیں سے اُن سے ناقہ وصول کریں گے۔
جب مالک بن فہیرہ کے کہنے پر کفار یہاں پہنچے تو اُنھیں یہاں رسول کا یہاں آ کر پناہ لینا عجیب سا لگا جبکہ وہاں ناقوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ لہذا وہ مالک بن فہیرہ کی اطلاع پر پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ تو گئے لیکن وہ اُس کی اطلاع پر مطمئن نہیں تھے۔ پھر یہ کہ اِدھر اُدھر کی کئی غاریں بھی دیکھیں جن میں رسول موجود نہیں تھے۔ یہ آخری غار تھی جس کی ساخت بھی ایسی تھی کہ ایک آدمی لیٹ کر ہی داخل ہو سکے لہذا اُنھیں اِس کی زیادہ تحقیق کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اور وہ اُس میں لیٹ کر دیکھنے کی بجائے مالک بن فہیرہ کی اطلاع کو احمقانہ خیال کرکے وآپس ہو گئے جس نے محض ابوبکر کو ناقوں سمیت دیکھا تھا اور اب تو ناقہ بھی یہاں نہیں تھے۔
خیر یہ غار ایک کلومیٹر بلندی پر ہے۔ یہ وادی بھی اب گھروں سے بھری جا رہی ہے۔ میاں کچھ ہی عرصہ میں مکہ کے یہ نشانات جاتیں رہیں گے۔ خدا کرے نہ جائیں۔