Ghar e Hira
غارِ حرا
کل اور آج کا دن کافی مشقت طلب رہا۔ پہلے کل کی بات ہو جائے۔ کل مَیں غارِ حرا پر گیا تھا۔ یہ مکہ کے شمال کی طرف جبلِ نور کی بلندی پر واقع ہے۔ اسی راستے پر آگے جا کر 15 کلومیٹر پر تنعیم آتا ہے جہاں ایک مسجد عائشہ بھی ہے۔ یہیں بی بی عائشہ نے قیام کرکے مکہ کے حاجیوں کو ساتھ ملایا اور جمل کے لیے بصرہ روانہ ہوئی تھیں۔ اِسی لیے آجکل یہ مسجد یہاں کے مسلمانوں اور دوسرے ملکوں کے حاجیوں کے لیے بہت معتبر اور متبرک ہے۔ اہلِ سنت یہیں سے حج اور عمرے کا احرام اِسی عائشہ مسجد سے باندھتے ہیں۔ اِس سے مزید بیس کلومیٹر آگے جائیں تو ایک اور بستی تنعیم آتی ہے، یہی اصل تنعیم تھی جہاں پر امام حسینؑ نے کربلا جانے کے لیے پہلی منزل کی تھی۔
قصہ یہ کہ پہاڑ کی چوٹی پر جانے کے لیے چڑھائی واقعی بندے کی ساری اکڑ نکال دیتی ہے۔ کم و بیش دو گھنٹہ کی چڑھائی ہے، کئی پانی کی بوتلیں دم توڑ جاتی ہیں۔ خیر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ گوگل اور دیگر کتابوں میں دی گئی معلومات بہت حد تک غلط اور احمقانہ ہوتی ہیں۔ اول تو یہ کسی قسم کی غار نہیں ہے۔ صرف دو پتھر خیمہ نما ایک دوسرے کے اوپر گرے ہوئے ہیں جن کے سبب ایک چھوٹی سی چھت بن گئی ہے اور اُس کے دونوں طرف منہ ہیں اور اگر بارش آ جائے تو کسی طرح بھی پانی کو غار میں داخل ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ فقط بیٹھنے کی جگہ ہے۔ اگر آپ لیٹنا چاہیں تو مشکل میں پڑ جائیں گے۔
کعبہ خانہ سے مشرق کی جانب، جہاں سے مدینہ کو نکلتے ہیں، یہ غار اُس راستے کے بائیں ہاتھ ہے۔ پہاڑ کی چوٹی ایک ستون نما ہے۔ 700 سو میٹر بلند ہے۔ غار کم و بیش بیس میٹر چوٹی سے نیچے ہے لیکن اِس تک پہنچنے کے لیے چوٹی پر چڑھ کر اگلی طرف نیچے اترنا پڑتا ہے۔ قدیمی چڑھائی انتہائی خطرناک ہے۔
اب آتے ہیں دیگر باتوں کی طرف کہ رسولِ خدا یہاں کیوں جاتے تھے؟
اب اگر مَیں کچھ باتیں یہان کروں گا تو شاید فتوے لگ جائیں۔ لیجیے بھائی، کیے دیتا ہوں۔ رسولِ خدا اُس وقت غار میں جانا شروع ہوئے جب حضرت علی کی ولادت باسعادت کو چھ سال ہو گئے اور رسولِ خدا چھتیس برس کے ہوئے۔ اِس سے پہلے غار میں جانے کی کوئی شہادت تاریخ میں نہیں ہے اور یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ جب مولا علیؑ چھ سال کے ہوئے تو رسولِ خدا اکثر رات غار ہی میں رُک جاتے تھے۔ جس شام آپ گھر نہیں آتے تھے اُس رات بی بی خدیجہ آپ کا کھانا علیؑ مولا کے ہاتھ آپ تک پہنچاتی تھی۔
مَیں خانہ کعبہ سے نکل کر غار کے اوپر تک پیدل گیا ہوں۔ مجھے اس تمام فاصلے میں چھ یا سات گھنٹے لگے ہیں اور جسم کی انرجی اتنی خرچ ہوئی کہ الامان۔ اِس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی بچہ روزانہ وہاں کھانا لے کر جائے تو اُس کی مشق کیا ہوگی۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ غار میں جانے کی ضرورت رسول کو نہیں تھی دراصل علیؑ کے دست و بازو کو تیار کیا جا رہا تھا۔ مولا علیؑ کو اگر شاہدِ قرآن کہا ہے تو اُس کی عملی شکل تاریخ سے ثابت بھی ہے۔
دوئم اِس پہاڑ کی چوٹی سے پورا مکہ اور ارد گرد کا چاروں طرف انتہائی اساطیری محسوس ہوتا ہے۔ خاص طور پر شام کا منظر ایسا دل فریب ہوتا ہے کہ انسان کی سانسیں رُک جاتی ہیں۔ پہاڑ پر چڑھنے کا قدیمی راستہ بدوئوں نے بند کر دیا ہے۔ اور ایک نیا راستہ بنا دیا ہے جس پر ایک سڑک بنا رہے ہیں تاکہ جہاں تک ممکن ہو سکے لوگ گاڑی پر جائیں، یہ ایک بہت احمقانہ کام ہے مگر بدووں نے کوئی پہاڑ پہلے ہی کون سا چھوڑا ہے؟
مجھے لگتا ہے یہاں بھی کوئی ملک ریاض ہے جس کا چھوٹا پیس ہمارے پاکستان میں ہے اور بڑا یہیں سعودیہ میں ہے۔ جو نیا راستہ بنایا ہے اُس کے آغاز پر ایک کھلی جگہ منتخب کرکے بزنس پوائنٹ بھی بنا دیا گیا ہے جہاں ایک میوزیم کے نام پر ڈاکو منٹری دکھا کر پیسے بٹورے جاتے ہیں اور ایک مولوی نما چھوکرا ڈاکو منٹری کی وضاحت کرتے ہوئے پیغمبروں کی وہابیانہ توضیح و تشریح کرتا جاتا ہے۔ ڈاکومنٹری چار پانچ کمروں میں الگ الگ دکھا کر ایک ہال میں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں چائنہ کا مکوی مال خریدنے کے لیے اشتہا دلائی جاتی ہے اور لوگ اُسے ایمان سمجھ کر خریدتے ہیں۔ اِس کے علاوہ یہاں مہنگی ولائتی فوڈ مارکیٹ بنا دی گئی ہے۔
اِس غار پر جانے کے لیے آپ کو سیکنڑوں گداگریاں ملیں گی جو پانی بیچنے کے بہانے شدید کوفت میں مبتلا کرتی ہیں۔ یہ سب کی سب جنوبی پنجاب کی ہیں۔ بخدا جنوبی پنجاب کا ایک تہائی حصہ یہاں گداگری کرتا ہے اور گند بہت مارتا ہے۔ میرے سرائیکی بھائیوں کو چاہے جتنا ہی بُرا لگے لیکن یہ بات سچ ہے۔ اگر میرا بس چلے تو اِن سب کو یہاں سے دیس نکالا دے دوں۔ اِنھی کی وجہ سے عرب بدو ہمیں گنوار کہنے لگے ہیں۔
خیر آگے چلتے ہیں۔ غارِ حرا کے ارد گرد اور پورے جبلِ نور پر پلاسٹک کی بوتلوں اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کا اتنا کچرا پڑا ہے کہ دیکھ کر شدید ڈپریشن ہوتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ بدو جان بوجھ کر اِن جگہوں کی وقعت کو کم کرتے ہیں۔ جب مَیں غار کے پاس پہنچا تو تین چار پٹھان داڑھی دار وہاں پانی کی بوتلیں پی کر پھینک چکے تو مجھے کہنے لگے، آپ ایسے چُپ کرکے کیوں کھڑے ہیں، یہاں کھڑے ہو کر نوافل پڑھیں اور ثواب حاصل کریں۔
مَیں نے کہا خدا نہ کرے آپ کے ثواب کا تصور مجھ میں پیدا ہو۔ غرض اُن سے ایسی متبرک جگہ پر عبادت کے تصور پر جھگڑا ہوتے ہوتے بچا۔ ورنہ وہ مجھے پہاڑ سے نیچے گرا کر ایک اور ثواب کما لیتے۔