Dastan e Rabza (2)
داستانِ ربذہ (2)
حضرت علیؑ نے حاکمِ مدینہ کا حکم سبوتاژ کرتے ہوئے ابوذر کو ربذہ تک چھوڑ کر آنے کی تیاری کی۔ مروان نے حضرت علیؑ کو روکنے کی کوشش کی تو آپ نے فرمایا، دفع ہو جا اے دھتکاری ہوئی عورت کے بیٹے، تُو کون اور کیا تیرا حکم اور کیا تیرے حاکم کا حکم۔ اور اُس کے گھوڑے کو کوڑا مارا اور اُسے دور کر دیا۔
اِس سفر میں ابوذر کے ساتھ اُس کی بیٹی تھی، بیوی تھی، چار بکریاں تھیں، ایک جَو کی بوری تھی، دو پانی کی مشکیں تھیں اور اِسی طرح کا کچھ تھا، دو اونٹنیاں تھیں، ایک پر ابوذر اور کچھ سامان لدا تھا اور دوسری پر اُس کی بیوی اور بیٹی بیٹھی تھی اور اُن کے ساتھ بھی کچھ سامان لدا تھا۔ بکریاں بھی دو دو بانٹ کر اونٹنیوں پر بٹھا لی تھیں۔ اِدھر مولا علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑؑ اپنے ناقوں پر بیٹھے ابوذر کو ربذہ چھوڑنے جا رہے تھے۔ اور یہ قافلہ حجاز سے ربذہ روانہ ہوگیا۔ ربذہ پہنچ کر مولا علیؑ نے ابوذر کے لیے خیمے اور کھانے پینے کے سامان کو منتظم کیا اور تین دن وہاں رہے پھر مدینہ لوٹ آئے۔
ابھی مدینہ پہنچے ہی تھے کہ حاکمِ مدینہ نے حکم دیا کہ علیؑ اپنے وطن ینبع چلے جائیں۔ ہائے ہائے اب علی کا وطن مدینہ نہ رہا تھا۔ اور حضرت علیؑ اور حسنین کریمین کو آتے ہی ینبع روانہ کر دیا۔ حالانکہ مولا علیؑ پہلے بھی زیادہ تر ینبع ہی رہتے تھے بلکہ خلیفہ دوئم کا پورا زمانہ مدینہ میں مشکل سے چند یوم ہی گزارے تھے، لیکن اہلِ اقتدار نے اب کے یہ حکم جبری نافذ کیا تھا۔ کیونکہ اُنھوں نے ابوذر کے معاملے میں خلیفہ کے حکم کی پروا نہیں کی تھی اور اب ہم اُسی ینبع سے ہو کر اُسی ربذہ میں جا رہے تھے تاکہ اُن کی عظمت و اخلاص کو وہاں پہنچ کر سلام پیش کریں۔
ربذہ مدینہ کے مشرق میں کوئی تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر عین صحرا کے بیچوں بیچ ایک قریہ تھا۔ بنو غفار یہاں آباد تھے اور یہ جگہ بالکل وہاں واقع ہے جہاں سے اسلام سے قبل مکہ کے لیے عراق اور ریاض کے حاجی یہاں سے گزرتے تھے۔ بنو غفار قبیلہ اُنھیں لوٹ کر اپنا بندوبست چلاتا تھا۔ وہ اِس لیے یہاں آباد تھے کہ جنھیں لوٹتے تھے وہ اُن کا پیچھا نہ کر سکیں۔ اگر پیچھا کریں تو صحرا میں رستہ کھو جانے کے سبب اور پیاس کے سبب مر جائیں اور بنوغفار تک نہ پہنچ پائیں۔ یہاں رستہ کھونے کا امکان سو فیصد تھا۔
اسلام کے بعد بنو غفار نے رہزنی بھی چھوڑ دی اور جب رہزنی چھوڑی تو یہ علاقہ بھی چھوڑ دیا کہ اب اِس کی رہائش کے لیے کوئی افادیت نہیں تھی۔ ہم حناکیہ سے دائیں ہاتھ گزر کر حسو جانے والی سڑک پر ہو گئے اور کم و بیش ساڑھے تین بجے سہہ پہر ہم نے صحرا کے اندر گاڑی کو داخل کر دیا۔ یہ حدِ نگاہ تک ایسا پھیلا ہوا صحرا تھا جہاں پیدل چلنے والا ضرور مر کھپ جائے اور منزل نہ پائے۔ شبنمی جڑی بوٹیاں اور تُمے کی بیلیں تمام صحرا میں پھیلی ہوئی تھیں۔ بیچ میں کہیں کہیں سیاہ پہاڑیوں اور چٹانوں کے ٹیلے آجاتے تھے۔ یہاں بھی اونٹ چرانے والے سُرخ و سفید اونٹ چرا رہے تھے۔ اور مغنی گا رہے تھے لیکن اُن کے پاس این ایل سی جیسے بڑے بڑے ٹرک ساتھ تھے جن میں پانی، اور خوراک کا بندوبست موجود تھا۔
نقاب صاحب اگرچہ دو دفعہ ربذہ پہلے جا چکے تھے مگر اُنھیں رستے کا تعین کرنا پھر بھی مشکل ہو رہا تھا۔ ایک جگہ ایک خیمہ لگا ہوا تھا۔ نقاب صاحب نے گاڑی روک دی اور خیمے کی طرف چل دیے۔ مَیں بھی ساتھ تھا۔ ساربان سے دعا سلام کی۔ اُس کا نام عبد المجید تھا اور مطیری قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ مطیری نے بڑی خوش اخلاقی سے ہمارا استقبال کیا۔ نقاب صاحب چونکہ تیس سال سے سعودیہ میں ہیں اور عربی خوب جانتے ہیں۔ لہذا عبدالمجید سے گپ لگانے لگے۔ اُس نے ہمیں خیمے میں بٹھایا، دو قسم کی کھجوریں لا کر سامنے رکھیں اور قہوہ کے دو تھرموس بھی سامنے رکھ دیے۔
دونوں الگ الگ قسم کے قہوے تھے۔ پہلے اُس نے ہمیں بالکل چھوٹے کپوں میں ایک ایک گھونٹ ایسے قہوہ کا پلایا جو پہلے کبھی نہ پیا تھا، پھر اور پلایا۔ لیکن وہ کپ میں صرف ایک ہی گھونٹ ڈالتا تھا۔ لیکن یہ ایک گھونٹ بھی بہت سخت تھا۔ اُس کے بعد معمول کے قہوے کا کپ بھر دیا۔ وہ بھی بہت پر لطف تھا۔ عبدالمجید سے گفتگو کے دوران پتا چلا کہ وہ سعودیہ کی خفیہ پولیس کا آدمی تھا اور صحرا میں اُس کی ڈیوٹی تھی۔ اِس دوران وہ الگ بزنس کے طور پر اپنے اونٹ بھی چرا رہا تھا۔ جب اُسے پتا چلا کہ مَیں شاعر ہوں تو بہت خوش ہوا۔ اُس کی تواضح کے بعد ہم نے اُس سے رستہ پوچھ کر آگے کمر باندھی اور چل سو چل۔
صحرا میں چلتے ہوئے آپ نے سمتوں کا صحیح اندازہ رکھنا ہوتا ہے۔ جو سمتوں کو نہ پہچان سکے، اُسے کبھی صحرا میں داخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پھر وہ کبھی باہر نہیں نکل سکتا۔ کافی آگے پہنچے تو پتا چلا کہ ہر دس بیس میل کے بعد عبدالمجید جیسے مزید ساربان پورے صحرا میں اپنے اونٹوں سمیت پھیلے ہوئے ہیں اور سب کے سب خفیہ پولیس کے لوگ ہیں۔ ہم اُنھی سے راستہ پوچھتے گئے اور چلتے گئے۔ اصل میں ربذہ کے اِس صحرا میں سونے کی کانیں ہیں اور یہ لوگ اُن کی نگہبانی میں رکھے گئے ہیں۔
بالاخر شام کی سیاہی پھیلنے کے قریب تھی کہ ہم ربذہ کے کھنڈرات کے پاس جا پہنچے۔ اِس جگہ کو ایک جالی سے بند کیا گیا ہے۔ یہیں پر نہرِ زبیدہ کے آثار بھی تھے اور ایک بہت بڑا تالاب بھی تھا، جس میں نہر کا پانی گرتا تھا۔ اِس سے پتا چلا کہ عراق کے حاجیوں کا بھی عین یہیں سے راستہ تھا۔ مَیں نے گاڑی سے اُترتے ہی ابوذر کو سلام پیش کیا۔ یہاں اُن کی قبر کا تو کوئی نشان نہیں تھا مگر جس جگہ اُن کی کُٹیا تھی وہ جگہ معلوم تھی۔ چاروں طرف گاہے گاہے کیکر تھے، صحرائی جھاڑیاں تھیں، اور تمے تھے۔ باقی لق و دق صحرا تھا۔ یہیں ابوذر نے اپنی جبری مدینہ بے دخلی کے دن گزارے۔ یہاں کھڑے ہوئے مَیں سوچ رہا تھا کہ ابوذر، اُس کی بیٹی اور بیوی کس تنہائی کو سہہ رہے ہوں گے، جہاں سے اُن دنوں کوئی چرواہا تک نہیں گزرتا تھا۔
بخدا یہی وہ حقیقی جدو جہد ہے جو انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔ نہ کہ مہنگے ہوٹلوں میں بیٹھ کر مہنگی شراب کے ساتھ انسانیت کی فلاح کی عیاشانہ گفتگو۔ خدا کی قسم مجھے یہاں کھڑے ہوئے اِس قدر منافق مولویوں، لبرلوں اور مقتدر لوگوں سے نفرت ہو رہی تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ خدا بھلا کرے نقاب صاحب کا، شاید مَیں زندگی بھر یہاں نہ آپاتا، اگر وہ نہ لاتے۔ مَیں سمجھتا ہوں آلِ محمد کا مجھ پر خاص کرم بھی ہے اور خدا کا فضل بھی کہ وہ میرے لیے کیسے کیسے طریقے سے رستے کھولتا ہے۔
وہیں کھڑے ہوئے میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ چلیے مان لیتے ہیں حضرت عثمان نے مروان اور اُس کے باپ حکم کو، جنھیں رسولِ خدا نے مدینہ سے رُسوا کرکے نکال دیا تھا، اُنھیں مدینہ میں لانے کی خفیہ اجازت حاصل کر لی تھی لیکن کیا حضرت عثمان نے رسولِ خدا سے ابوذر کو مدینہ سے نکالنے کی بھی اجازت حاصل کر لی تھی؟
اتنے میں سورج نے زمین کا ماتھا چومنا شروع کر دیا تھا یعنی وہ غروب ہونے جا رہا تھا اور صحرا کی شفق نے ہمارے چہروں پرسُرخی پھیر دی تھی۔ یہاں تک کہ سورج مغرب کی طرف ایک لالے کا پھول سا بن گیا۔ اب نقاب صاحب بولے، میاں ناطق اب جلدی نکلیں کہ یہاں اندھیرا ہوگیا تو ہم صحرا سے نہ نکل سکیں گے۔ بخدا میرا تو وہاں سے نکلنے کو جی نہیں کر رہا تھا مگر کیا کیجیے۔ مَیں نے ابوذر کو آخری سلام کیا جس کے بارے میں رسولِ خدا نے فرمایا تھا، ابوذر تُو تنہا کر دیا جائے گا، پھر تنہا ہی مرے گا اور پھر قیامت کو اکیلا ہی اٹھایا جائےگا۔
جب ابوذر کی وفات کا وقت آیا تو اُس کی بیوی نے کہا، ابوذر تمھی بتائو اب مَیں تمھیں کیسے دفن کروں گی اور اِس صحرا میں کیسے رہوں گی۔ ابو ذر نے کہا، مجھے اِس واقعے کی رسولِ خدا نے خبر دی ہوئی ہے۔ تم فلاں رستے پر جا کر کھڑی ہو جائو، یہاں سے کچھے سوار گزریں گے، اُنھیں کہنا ابوذر فوت ہوگیا ہے، وہ میرا کفن دفن کریں گے۔ چنانچہ ابوذر کی وفات کے بعد اُس کی بیوی نے وہی کچھ کیا۔ یہاں تک کہ عین اُسی وقت وہاں مالک اشتر اور عبداللہ بن مسعود پہنچے، یہ حج کرکے مکہ سے لوٹ رہے تھے۔
اُنھوں نے دیکھا کہ ایک عورت تنہا کھڑی ہے، فوراً سواریاں روکیں تو اُس نے کہا مَیں ابوذر کی بیوی ہوں، وہ فوت ہو چکے ہیں۔ یہ سُن کر فوراً اترے اور آ کر ابوذر کو دفن کیا۔ ایک ہی بکری رہ گئی تھی، اُس کی بیوی نے کہا، ابوذر نے وصیت کی تھی کہ مجھے دفن کرنے والوں کو یہ بکری ذبح کرکے کھلا دینا۔ پہلے اِسے ذبح کرو اور کھائو پھر آگے جائو چنانچہ ویسے ہی کیا گیا۔ مالک اشتر نے اپنے احرام کی دو چادروں کا ابوذر کو کفن دیا اور عبداللہ ابن مسعود نے جنازہ پڑھایا۔ اُس کے بعد دفن کیا۔ تب ابوذر کی بیوی اور بیٹی کو اپنے ناقہ پر سوار کیا اور آخری سلام کرکے اُنھیں بھی اپنے ساتھ عراق لے آئے۔
ہم نے بھی ابوذر کو ویسے ہی عقیدت بھرا سلام کیا اور واپس ہوئے۔ واپسی پر ایک جگہ ہماری گاڑی ریت میں دھنس گئی اور ایک دفعہ تو یہ لگا کہ اب نہ نکل پائیں گے۔ خیر نیچے اُترے اور کافی سوچ بچار کے بعد نقاب صاحب نے چاروں ٹائروں سے ہوا نکال دی اور بیک گئر لگا کر اللہ اللہ کرکے گاڑی نکال ہی لی۔ تب ہم نے سمتوں کی احتیاط سے نہایت زیادہ کام لیا اور آخر کا حسو کی سڑک کو چھو لیا۔ اور رات بارہ بجے مدینہ پہنچے۔