Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Akbar Natiq
  4. Dastan e Rabza (1)

Dastan e Rabza (1)

داستانِ ربذہ (1)

ابھی مَیں ینبع اور بدر کے لیے نکلنے ہی والا تھا کہ سید محمد نقاب صاحب کا فون آیا، میاں ناطق سُنا ہے آپ ینبع آ رہے ہیں۔ مَیں نے کہا جی ہاں، اُنھوں نے فرمایا، مَیں ابھی چین میں ہوں، شام تک جدہ پہنچ جائوں گا اور کل شام سات بجے آپ میرے ساتھ ینبع میں کھانا کھایے۔ مَیں نے کہا واہ صاحب نیکی اور پوچھ پوچھ کے۔ نقاب صاحب ایک عرصہ سے میرے فیس بک فرینڈ تھے، اُن کی پوسٹیں بہت جاندار ہوتی تھیں اور اسٹبلشمنٹ کو میری طرح ملک کے لیے ناسور سمجھتے تھے۔ لیکن اُن سے ملنے کا موقع نہیں ملا تھا۔

شام سات بجے رضوان اور مَیں ینبع النخل سے لوٹے اور سیدھے اُن کے بتائے ہوئے ہوٹل پہنچے۔ رضوان نے عذر کیا کہ آج چھٹی تھی اور مجھے بچوں کو باہر لے جانے کا موقع نہیں ملا ابھی تنگ کر رہے ہیں۔ آپ کھانا کھائو اور مَیں بچوں کو سیرگاہوں میں چکر لگا آئوں ورنہ ہفتہ بھر طعنوں سے جان نہ چھوٹے گی۔ جونہی مَیں ہوٹل میں داخل ہوا، نقاب صاحب نے گلے لگا لیا جیسے مدتوں کے مانوس دوست ہوں۔

مَیں نے دو لوگوں کا اندازہ لگایا ہے ایک مولائی اور دوسرا آرٹسٹ چاہے دنیا کے کسی کونے کا رہنے والا ہو اور کسی بھی زبان سے تعلق رکھتا ہو، فوراً مانوس ہو جاتے ہیں۔ نقاب صاحب ملتے ہی مجھے لگا جیسے اپنے آپ سے ہی ملا ہوں۔ اب جو اُنھوں نے کھانے کا آرڈر دیا تو سُن لیجیے جتنی کھانوں کی اقسام تھیں سب آرڈر کر دیں۔ یہ سمندر کے کنارے ایک انتہائی نستعلیق سیرین ریستوران تھا۔ مجھے تو کھانوں کے نام نہیں آتے بس یہ سمجھیے کہ سب میں مٹن لازمی جز تھا۔ رات گیارہ بجے تک بیٹھے رہے اور دکھ سکھ کھنگالتے رہے آخر اُنھوں نے زیارات کی تفصیل پوچھی۔

مَیں نے سب بتا دی۔ کہنے لگے زیارت کے اِن سخت منصوبوں میں اگر آپ ربذہ شامل کرنا چاہیں تو کیسا رہے گا۔ مَیں نے کہا، کیا یہ ممکن ہے؟ ربذہ تو ایک لق و دق صحرا اور ویرانہ ہے سینکڑوں میل تک پھیلا ہو ا،۔ نہ پانی نہ دانہ دنکا۔ کھُلے آسمان کی چھتری، ریت اور پتھر اور تنہا مسافر۔ ٹیکسی والا تو دوہزار ریال میں بھی نہیں لے کر جائے گا۔ نقاب صاحب بولے ارے میاں وہ سرے سے ہی نہیں لے کر جائے گا کیونکہ ٹیکسی وہاں جا ہی نہیں سکتی۔ یہ کام میری گاڑی کرے گی، بس تم جانے کی بات کرو۔ اُن کے یہ کلمات سُنے تو میری باچھیں کھِل گئی۔

حضرت ابوذر غفاری کا وطن اور آخری دنوں کی دربدری، مدینہ شہر سے دیس نکالا، اُمیہ زادوں کا دشمن اور مولا علی کا وفادار دوست۔ مَیں نے کہا، نقاب صاحب کیسی باتیں کرتے ہیں آپ، مَیں ابوذر کا بہت چاہنے والا ہوں۔ وہ اہلِ بیتِ رسول کا وفادار اور مودت کرنے والا تھا، اور رسولِ خدا کا ایسا سوشلسٹ صحابی جس نے ڈنکے کی چوٹ پر محمد و آلِ محمد کی تعلیم کا مدینے اور شام کی گلیوں میں اعلان کیا۔ دولت اکٹھی کرنے والوں اور جاگیریں بنانے والوں کو سرِعام دوزخی کہا، جس کی اہلِ اقتدار تاب نہ لا سکے اور حضرت عثمان نے اُنھیں ربذہ بدر کر دیا۔

اِسی کے ساتھ مجھے خیال آیا کہ جب علیؑ اور رسول کا صحابی مدینے سے نکالا جاتا ہے تو وہ سچا سوشلسٹ ربذہ بدر ہوتا ہے اور جب ہمارے ترقی پسند دوست ملک چھوڑتے ہیں تو شراب کی بوتل میں بیٹھ کر سیدھے امریکہ لینڈ کرتے ہیں۔ خیرپروگرام یہ بنا کہ کل صبح نو بجے نکلیں گے، پہلے بدر کے میدان اور جنگ کا اچھی طرح جائزہ لیں گے، اُس کے بعد مدینہ جائیں گے جہاں لحم مندی کھائیں گے اور دو نمازیں یعنی ظہرین مسجد نبوی میں پڑھیں گے۔ پھر سیدھے ربذہ نکلیں گے۔

لیجیے صاحب، رضوان صاحب نے صبح ساڑھے آٹھ بجے ناشتہ کروایا اور اتنے میں گاڑی لیے نقاب صاحب پہنچ گئے اور ہم ٹھیک نو بجے ینبع النخل کو سلام کرکے بدر کی طرف چل دیے۔ ینبع سے بدر کا راستہ وہی ہے جو مکہ سے شام کا راستہ ہے۔ سڑک کے دونوں طرف ریگستان اور ریگستان میں گھاس اور گھاس چرتی اونٹنیاں۔ جس نے عرب کی اونٹنیاں دیکھی ہیں وہ جان لے کہ اُن کی کئی نسلیں ہوتی ہیں۔

ہمارے ہاں یعنی انڈو پاک میں صرف گہری زردی مائل اونٹنیاں ہیں جن کی عرب میں قیمت بہت کم ہوتی ہے۔ عربوں میں ایک اونٹنی کی قسم ہے جس کی رنگت سُرخی مائل سفید ہوتی ہے، یہ بہت نایاب اور مہنگی ہوتی ہے۔ اِس اونٹنی کا ذکر میری نظم سفیرِ لیلیٰ میں بھی موجود ہے۔ اِس قسم کی اونٹنی کی نارمل قیمت چار لاکھ ریال ہوتی ہے اور جو ذرا مہنگی ہو اُس کی قیمت ملین میں ہوتی ہے۔ جب حضرت عبداللہ کے عوض سو اونٹنیاں ذبح کی گئی تھیں تو وہ یہی سُرخ و سپید ناقہ تھیں۔ آپ حساب لگا لیجیے رسولِ پاک کے والد کی قربانی حضرت عبدالمطلب کو کتنے میں پڑی تھی۔

خیر ینبع سے بدر تک اِن اونٹنیوں کے سیکڑوں گلے صحرائوں میں چر رہے تھے۔ اور اِن کو چرانے والے ساربان اپنے ساتھ ساتھ بڑی بڑی لینڈ کروزریں لیے پھرتے تھے۔ اور پانی کے ٹرالر اور خیمے۔ ینبع سے ہمیں بدر پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹا لگا۔ اور عین اُس جگہ گاڑی روکی جہاں دستِ خدا نے نخوت کے خدائوں کی ناک مٹی پر رگڑی تھی اور اُن کی اکڑی ہوئی گردنیں اِس طرح خم کیں کہ پھر اُن پر ہمیشہ کی ذلت مسلط ہوگئی۔ اِسی جنگ میں صرف مولا علی کے ہاتھ سے اڑتیس خبیث جہنم واصل ہوئے تھے۔ اِس میں رسولِ خدا کے تین جانبازوں نے وہ جوہر دکھائے کہ کفار کو لنگوٹیاں چھوڑ کر بھاگنے کی پڑی۔

یہ جانباز، علیؑ شیرِ خدا، حمزہ عقابِ خدا اور ابو دجانہ انصاری تھا۔ اِن تینوں کی تلوار نے بدر کے نشیب فراز کو ایسا ہموار کیا کہ پھر اُنھیں اُٹھنے کا یارا نہ رہا۔ خاص طور پر علیؑ نے اُن تمام غنڈوں کو قتل کیا جو رسولِ خدا کو قتل کرنے اُن کے گھر پر حملہ آور ہوئے تھے اور رسولِ خدا نے علیؑ کو اِس لیے بھی بستر پر لٹا دیا تھا کہ اے علیؑ اِن بھیڑیوں کے چہروں کو اچھی طرح دیکھ لینا، کل تمھی نے اِن کو اِس گستاخی کی سزا دینی ہے۔ لہذا تاریخ بتاتی ہے کہ بدر میں علیؑ نے اُن میں سے ایک بھی نہیں چھوڑا تھا۔

یہاں ہم نے ایک چائے والے سے چائے لی اور ڈبل پیسے دے کر لی مگر ہائے جس نے پنجاب کی چائے نہ پی ہو اُسے کیا خبر چائے کیسے بنتی ہے۔ اور چائے والا ڈیرہ غازی خان کا تھا۔

نقاب صاحب علامہ اقبال کے کچھ زیادہ ہی فین ہیں، اُنھی کی غزلیں سُنتے ہیں اُنھی کی نظمیں اور اُنھی کے فلسفے۔ لہذا جب ہم باتیں کرتے تھک جاتے تھے، وہ اقبال چلا دیتے تھے۔ اب ہم نے بدر سے مدینہ کا وہ رستہ لیا جو رسولِ خدا نے اختیار کیا تھا۔ اِس رستے پر بعض جگھوں پر نخلستان، کنویں اور پرانے کھنڈرات جگہ جگہ نظر آئے، جہاں ہم نے گاڑی روک روک کے تصویریں لیں۔ نقاب صاحب کا کیمرہ بہت زبردست تھا۔ اُنھوں نے گاڑی پر ایک ویڈیو بھی لگا دی تھی جو ہمارے راستے کی ویڈیو بنا رہی تھی۔ یہاں کے پہاڑ اتنے کالے ہیں اور ایسے چمکتے ہیں جیسے ہیرے کی ابتدائی شکل ہو۔ غالباً اِن پتھروں کی سطح پر وقت کا بہائو کاربن پیدا کر دیتا ہے۔ مَیں حیران ہوتا جاتا تھا اور اُس دور کی مشکلات کو دیکھتا جاتا تھا۔ آخر دو گھنٹے میں ہم مدینہ پہنچ گئے۔ راستے میں اُس کنویں کو بھی دیکھا جہاں رسولِ خدا نے منزل کی تھی، اُس کا نام روحا تھا۔

آخر مدینہ پہنچ ہی گئے۔ پہلے نماز پڑھی، پھر ایک لحم مندی ہوٹل پر گئے اور عرب کھانا کھایا۔ بخدا جب سے مَیں زیارات کو آیا ہوں، پہلے دن عربی کھانا چکھا۔ مکہ، مدینہ اور جدہ میں تو عربی کھانا سونگھنے کو نہیں ملتا، خود عربی بھی گوجرانوالوی، اور سرگودھوی کھانے لگے ہیں۔ جدھر دیکھو پاکستانی ہوٹل ہیں۔ یہاں پاکستانی اتنے ہیں کہ خود پاکستان میں اتنے نہیں۔ اور پوری دنیا اِنھی کے ہوٹلوں سے کھانا کھاتی ہے۔ وہی آدھی کنالی کے تیل میں پکے ہوئے، چاہے بیچ میں کشتیاں چلا لو۔ خیر مندی بہت مزیدار تھی اور صرف وہی کھا سکتا تھا جس کے پاس گاڑی تھی یعنی مدینہ سے کافی باہر۔ اب ہمارا سفر ربذہ کی طرف شروع ہوگیا تھا۔ یوں تو نقاب صاحب سے مَیں باتیں کرتا جاتا تھا لیکن میری تصور کی آنکھ تاریخ سے ہمکلام تھی۔

کیسا زمانہ آ گیا تھا کہ جن باپ بیٹوں کو رسولِ خدا نے دھتکار کر مدینہ سے باہر نکال دیا تھا، وہ حکمران کی آنکھ کے تارے بن کر اُسی مدینہ کے وارث بن گئے تھے اور جنھیں رسولِ خدا اپنی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے اُنھیں ربذہ اور ینبع بدر ہونے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ حضرت عثمان نے ابوذر کو پہلے شام میں بھیج دیا تھا، کیونکہ وہ مدینہ میں اہلِ اقتدار کی کشتی میں سوراخ کرنے کا سبب بن رہے تھے۔ چھ ماہ بعد معاویہ نے حضرت عثمان کو لکھا، اگر تم چاہتے ہو کہ شام تمھاری حکومت کا حصہ رہے تو اِسے یہاں سے نکال لو۔ ورنہ یہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

تب حضرت عثمان نے حکم دیا کہ اِسے مدینہ وآپس بھیج دو اور ایسی اونٹنی پر بٹھائو جس پر کوئی عماری نہ ہو۔ اور اُس کو ایسے ہانکنے والے کے سپرد کرو جو ابوذر کو سانس تک نہ لینے دے نہ آرام کرنے دے۔ لہذا ایسا ہی کیا گیا اور جب ابوذر مدینہ پہنچے تو اُن کے زانوئوں کا گوشت اُدھڑ چکا تھا۔ حضرت علیؑ نے اُن کا علاج کیا اور اُنھیں دشمنوں سے بچایا۔ لیکن ٹھیک ہوتے ہی ابوذر نے دوبارہ اپنے نظریے کا پرچار شروع کر دیا اور اُمویوں، زبیریوں، طلحیوں، سعد وقاصیوں اور تمام مال جمع کرنے والوں اور جاگیروں کے قبضہ گروپوں پر لعن طعن شروع کردی۔ جس کی تاب نہ لاتے ہوئے حضرت عثمان نے مروان کے مشورے سے ابوذر کو ربذہ کی طرف دھکیل دیا اور حکم دیا کہ اِسے کوئی الوداع بھی نہ کرنے جائے۔

جاری۔۔

Check Also

All The Shah’s Men

By Sami Ullah Rafiq