Bastaan e Bani Amir Aur Taneem
بستانِ بنی عامر اور تنعیم
یہ تین جگھیں، اِن میں سے ایک جس میں کھجوریں نظر آ رہی ہیں، یہ بنی عامر قبیلے کا باغ تھا۔ یہ جگہ مکہ سے عین ملحق شمال مغرب کی جانب ہے۔ آج کل اِس جگہ کے زیادہ حصے پر قبرستان ہے جو حجون تک چلا گیا ہے۔ بچے ہوئے حصے پر دو چار کھجوریں ہیں اور باقی جدید گھر اور سڑکیں بن گئی ہیں۔ ایک جگہ حجون کی ہے جس میں حاجی اور دُور سفید گنبد نظر آ رہے ہیں۔ یہ یہاں اجداد، پیغبرِ، یعنی عبدالمطلبؑ، ابوطالبؑ اور بی بی خدیجہؑ کی قبریں ہیں۔
امام حسینؑ جب آٹھ ہجری کو مکہ سے نکلے تو آپ نے پہلے حجون میں اپنے دادا، پردادا اور نانی کی قبور پر سلام کیا، اُس کے بعد اِس جگہ قیام کیا اور اپنے قافلے والوں کو ایک طویل سفر کے لیے منظم کیا لیکن رات بسر نہیں کی۔ اِس کے بعد آپ کا اگلا پرائو تنعیم تھا۔ جس میں ایک گول بُرج نظر آ رہا ہے۔ یہی تنعیم ہے۔ یہ جگہ حرم سے اٹھارہ کلومیٹر شمال کی جانب ہے۔ یہاں حرم کی حدود ختم ہو جاتی ہے اور یہ برج آپسی حد کے ختم ہونے کی نشانی ہے۔
یہ ایک کھلا میدان ہے جس کے دور دور پہاڑ ہیں اور یہاں ایک پانی کا کنواں بھی تھا۔ اِس جگہ پر امام کی منزل کا مقصد یہ تھا کہ یہ حدودِ حرم میں نہیں آتی تھی۔ لہذا اگر اُن پر حملہ کیا جاتا تو اِس جگہ وہ اپنی تلواریں میان سے نکال سکتے تھے۔ لیکن یحییٰ بن سعید کے سپاہیوں نے یہیں تک امام کے قافلے کا پیچھا کیا تھا۔ جنھیں امام اور اُن کے ساتھی دُروں اور کوڑوں سے پیچھے رکھتے رہے۔
جب یہاں پہنچے تو چونکہ پیچھا کرنے والے تعداد میں کم تھے لہذا وہ پلٹ گئے۔ بعد میں خود عمر بن سعید اشدق کو خبر ملی کہ یحییٰ ناکام واپس لوٹ آیا ہے تو اُس نے یحییٰ پر لعن طعن کی پھر ایک بڑا لشکر لے کر خود تعاقب میں گیا لیکن امام اُس وقت ذات العرق تک پہنچ چکے تھے۔ لہذا وہ بھی واپس آ گیا اور مکہ میں امامؑ کے قتل یا گرفتاری کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔
مَیں حجون اور بستانِ بنی عامر تک پیدل چلا پھرا ہوں لیکن تنعیم کے لیے ٹیکسی لی اور کل تنعیم پہنچا اور اپنی دل کی آنکھوں سے امام کی کربلا کی طرف حقیقت میں پہلی منزل کا نظارا کیا اور سوچاکہ جب امام غریب الوطن ہو رہے تھے تب حاجی لوگ کون سی شے کا حج کر رہے تھے، کیونکہ خود کعبہ تو اپنے مالک حسینؑ کے ساتھ کربلا جا رہا تھا۔ خیر کافی دیر تک یہاں بیٹھا کیا۔ پھر وآپس مکہ لوٹ آیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آج سے 28 سال پہلے مَیں کیسے اتنے فاصلے پیدل کر گیا تھا، اور مجھے لگا تھا کہ یہ تو بالکل قریب کی جگہیں ہیں مگر آج ذرا دیکھنے سے کھل رہا ہے کہ لڑکپن تو بہر حال لڑکپن ہی ہے۔
تنعیم ہی وہ جگہ ہے جہاں بیٹھ کر اماں عائشہ نے مولا علیؑ کے خلاف مکہ کے تمام حاجیوں سمیت 80 ہزار کی تعداد میں لشکر منظم کیا تھا اور پھر بصرہ روانہ ہوئی تھیں۔ جس جگہ اماں عائشہ کا خیمہ تھا آج کل وہاں ایک مسجد ہے جسے عائشہ مسجد کہا جاتا ہے۔ ہمارے اہلِ سنت بھائیوں کی اکثریت یہیں سے عمرہ اور حج کے لیے احرام باندھتی ہے۔
مَیں امام حسینؑ علیہ اسلام کی تمام منازل پر سفر کرنا چاہتا ہوں لیکن اب اکثر جگھوں کے نام بدل گئے ہیں اور ٹیکسی والوں کو بھی کسی شے کا پتا نہیں ہے اور ٹیکسی مہنگی بھی بہت ہے لیکن مہنگائی کا توڑ تو راجہ ناصر عباس کو خدا زندگی دے، موجود ہے البتہ دوسری مشکالات ہیں لیکن مَیں پُرعزم ہوں۔ دیکھیے کیا بنتا ہے۔ فی الحال ابھی مَیں مدینہ روانہ ہو جائوں گا اور اگلے دس دن وہیں رہ کر اِس معاملے میں تحقیق کرکے اِن منازل تک ضرور پہنچوں گا۔ مدینہ کے علاوہ مَیں نے ینبوع، خیبر، بدر، طائف، بھی جانا ہے۔ یہ تو خیر بہت آسان ہیں۔