Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ali Akbar Natiq/
  4. Basrah

Basrah

بصرہ

ابھی بصرہ سے لوٹا ہوں۔ جتنا فاصلہ عراقی بتاتے ہیں۔ اُس سے چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ صبح چھ بجے ہی بستر باندھا، ٹیکسی کا پچاس ہزار پاکستانی لگا۔ اِس سے کم پر وہاں کوئی نہیں جاتا، اِس کی وجہ آگے آئے گی۔ زائرین وہاں بالکل نہیں جاتے۔ لیکن مجھے ہر صورت بصرہ جانا تھا۔ بصرہ کی راہ میں سب سے پہلے حیرہ کا شہر آتا ہے۔ یہ شہر کوفہ کے بالکل پہلو میں ہے اور بہت اہم ہے۔ عراقی محکمہ آثار قدیمہ کو عراق کی اہمیت کا ذرا اندازہ نہیں۔ سچ بتاوں تو مجھے بھی اُسی وقت پتا چلا جب ہم حیرہ پہنچے کہ یہ حیرہ ہے بلکہ ہیرا ہے۔ اتنا خوبصورت شہر اور اتنا سرسبز کہ کچھ نہ پوچھو۔ یہیں امام حسن علیہ السلام کے نام کا ایک چشمہ ہے۔ جس کا پانی بیمار بھر بھر لے جاتے ہیں۔ یہاں امام حسن علیہ السلام کی زمین تھی اور وہ ا، س کو کاشت کرتے تھے۔ چشمے اور کنویں بناتے تھے۔

حیرہ شہر کے اندر سے ایک نہر بھی گزرتی ہے اور ایسی خوبصورت ہے کہ وہیں پِھسر جانے کو دل کرتا ہے پانی شفاف اور ٹھنڈا ہے۔ یہاں کجھوریں اور چاول بہتات سے پیدا ہوتا ہے اور سبزیاں بھی لوگ کاشت کرتے ہیں ا، س شہر کو خالد بن ولید نے فتح کیا تھا۔ پہلے پہل یہاں عربوں کے ایک بادشاہ نعمان بن منذر کی حکومت تھی اور اُسی کا پایہ تخت تھا۔ پھر ایران نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ شہر میں کوئی ہجوم نہیں، گاڑیوں کا کوئی اژدھام نہیں۔ تمام گھر یک منزلہ ہیں۔ گلیاں کھلی اور صاف ہیں۔ اور تمام ماھول پرسکون ٹھہرا ہوا اور ٹھنڈا ٹھنڈا ہے۔ بصرہ جاتے ہوئے مولا علی علیہ السلام نے کئی بار فوجی مہموں کو جاتے ہوئے یہاں اپنی فوج کوٹھہرایا تھا۔

اِس سے آگے قادسیہ ہے۔ قادسیہ کی فتح تو سب جانتے ہیں۔ مَیں اُس دریا کے پُل پر کھڑا رہا اور تصویریں بھی لیں جس جگہ سے ایرانی سپہُ سالاررستم نے دریا کو عبور کر کے سعد بن ابی وقاص کے ساتھ جنگ کی تھی۔ اور شکست کھائی تھی۔ یہ جنگ فیصلہ کن معرکہ تھا جس میں ساٹھ ہزار ایرانی کام آئے تھے۔ باقی دریا میں ڈوب مرے تھے۔ اِس پُل کا منظر عجیب تھا۔ دریا کا چوڑا پاٹ اور سبزہ اور کجھوریں۔ یہاں ایک امام زادے کی زیارت بھی کی۔ اِس جگہ کو حمزہ القادسیہ بھی کہتے ہیں۔ حمزہ امام کی نسل سے دسویں پشت میں ایک بہت مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ اور اب یہ شہر اُسی کے نام سے ماسوم ہے۔

ہماری اگلی منزل ذی قار تھی۔ زی قار اب ایک چھوٹا سا شہر ہے اور بہت خوبصورت اور پرسکون ہے۔ ذی قار میں داخل ہوئے تو ایک عجیب احساس ہوا۔ یہی وہ منزل تھی جہاں جناب امیر علیہ السلام نے رُک کر کوفہ سے لشکر طلب کیا تھا اور پہلے امام حسن علیہ السلام کو بھیجا وہ آٹھ ہزار کا لشکر لے کر آئے۔ اُس کے بعد مالک اُشتر کوفہ گئے اور بارہ ہزار مزید لے کر آئے۔ یہاں مولا علی علیہ السلام کا قیام افوج اکٹھی کرنے کے سلسلے میں قریب دو ماہ تک چلا گیا۔ کیونکہ مدینہ سے آپ کے ساتھ کوئی لشکر نہیں چلا تھا۔ جبکہ بی بی عائشہ مکہ سے اسی ہزار کا لشکر لے کر بصرہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ اور اُنھوں نے بی بی حفصہ بنتِ عمر فاروق کو ایک خط لکھا کہ دیکھیے علی ہم سے لڑنے کے لیے مدینہ سے نکل تو پڑا ہے مگر اب وہ اُس سانپ کی مانند ہے جس نے کوہڑ کِرلی کومنہ میں ڈال لیا ہے مگر اب وہ نہ اُسے اُگل سکتا ہے کہ اِس سے عزت جاتی رہے گی اور نہ نگل سکتا ہے کہ کھا کر خود مر جائے گا۔

خیر یہاں ذی قار کے مقام پر جب مولا کے لشکر کی تعداد 23 ہزار ہو گئی تو آپ بصرہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ بصرہ اِس منزل سے چار سو میل آگے ہے۔ اگلا شہر سماوہ تھا۔ یہاں مَیں نے ایک نہایت خوبصورت گاوں دیکھا۔ خالص عرب گاوں۔ جس کی دیواریں کجھور کے پتوں کی تھیں۔ اب مَیں تفصیل سے تو کسی کتاب میں ہی لکھوں گا۔ اُس سے اگلا شہر ناصریہ ہے اور ناصریہ سے اُگے اُر کا شہر ہے جہاں ابراہیم علیہ اسلام پیدا ہوئے تھے اور اُن کا اصل وطن تھا۔ اِس سے آگے صحرا شروع ہو جاتا ہے اور ایسا خوفناک صحرا ہے کہ کچھ نہ پوچھیے۔ اور یہی علاقہ ہے جہاں سے عراق کا نوے فی صد تیل نکلتا ہے۔

پہلی دفعہ میں نے یہاں جگہ جگہ تیل کے کنویں دیکھے۔ یہ پورا علاقہ بہت حساس ہے۔ جگہ جگہ روک کر چیکنگ کی جاتی ہے یا یہ سمجھیں یہاں سے آگے دو سو میل تک عراقی پولیس مت مار دیتی ہے۔ اتنی سخت چیکنگ ابنِ زیاد نے یا کوفہ کے شیعوں کی روا رکھی تھی یا بصرہ کی چوکیوں کی پولیس نے۔ بالآخر مسلسل دس گھنٹوں کی مسافت کے بعد جس میں ٹیکسی 120 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلی، ہم بصرہ پہنچ گئے۔ مَیں حیران ہوں یہ تو فاصلہ صرف کوفہ سے اتنا ہے، بی بی عائشہ رضی اللہ عنہ تو مکہ سے چل کر بصرہ آئیں اور اونٹ کی پشت پر بیٹھ کے آئیں، ہمت ہے بھئی ہماری ماں کی بھی۔

خیر بصرہ بہت بڑا شہر ہے۔ بہت بڑا۔ بصرہ میں سب سے پہلے ہم اُسی مسجد میں پہنچے جسے خطوۃ علی کہتے ہیں۔ در اصل یہ وہ جگہ ہے جہاں مولا علی نے اپنا خیمہ نصب کی تھا۔ یہ جگہ بصرہ شہر کے جنوب مشرق میں ہے اور بصرہ کو عبور کرنے کے بعد آتا ہے۔ بصرہ کا شہر یہاں سے ابھی دو تین کلومیٹر پیچھے رہ جاتا ہے اور پرانا بصرہ تو پندرہ کلومیٹر دور تھا۔ یہیں اصل میں دونوں لشکروں کا آمنے سامنے پڑاو تھا۔ شمال کی طرف اماں عائشہ اور طلحہ و زبیر کا لشکر تھا جبکہ جنوب کی طرف مولا علی کا لشکر تھا۔ یہ جگہ ابھی تک ویسی کی ویسی ہی خالی پڑی ہے۔ جنگ کے مقتولوں کی قبریں بھی مٹ گئی ہیں۔ کوئی ایک بھی گھاس کی پتی تک یہاں نہیں ہے۔ فقط مولا علی کی خیمہ گاہ۔ پر زائرین کا آنا جانا ہے۔ یہیں مولا علی نے کمیل کو دعائے کمیل کی تعلیم دی تھی۔

اِسی جگہ آپ نے اپنے مختلف صحابیوں کو علوم عطا کیے تھے۔ مولا کے صحابیوں کی قبریں یعنی زید بن صوحان اور سیحان بن صوھان کی قبریں کوت میں ہیں۔ مَیں اِس جگہ کو اور اِس میدان یعنی جنگِ جمل میدان کو بہت دیکھ غور سے دیکھتا رہا۔ اور اپنے آپ کو جنابِ امیر علیہ السلام کے لشکر میں ایک سپاہی کے طور پر پیش کر دیا۔ بھئی اماں عائشہ تو پھر بھی ہماری ماں ہے، معاف کر دے گی، اللہ تو علی کے ساتھ تھا، اُس سے لَڑ کے کہاں جانا ہے۔

چلیے خیر ہوئی۔ اِب دیکھو بھائی جس کی تصویریں مَیں کھینچ رہا ہوں یہاں کیا کیا ہنگامے نہ گزر گئے اور سب کچھ مٹ گیا، فقط ایک اللہ کے ولی کی زیارت گاہ باقی ہے اور بے سبزہ و گیاہ میدانِ جنگ خالی ہونک رہا ہے جہاں ہوس پرستوں کی آج عبرتیں رہ گئی ہیں۔

بہت دیر تک یہاں رہنے کے بعد مَیں پرانے بصرہ میں آ گیا۔ یہ بہت کھلا شہر ہے، آج بصرہ تمام کا تمام شیعہ ہے بلکہ نجف اشرف سے لے کر یہاں تک جتنے بھی شہر اور قصبے گزرے، سب شیعہ ہیں۔ دیکھ لیجیے اِن شہروں کو فتح کس نے کیا اور اِن شہروں کے باسیوں کے دلوں پر آج حکومت کس کی ہے؟ واپسی ہماری رات کو ہوئی کیونکہ ہمیں پولیس کی طرف سے ہدایت تھی بلکہ ٹیکسی ڈرائور کو ہدایت تھی کہ ہمیں رات ہی رات بصرہ سے نکال لے جائے۔ ڈرائور ہمارا بہت اچھا تھا، بلکہ انسان تھا درائور نہیں تھا۔ یہاں کے ڈرائور ہمارے والے ڈرائیوروں کی طرح یبوست کے مارے ہوئے نہیں ہوتے، یہ لوگ باقاعدہ انسان ہیں، دوست بن جاتے ہیں باتیں خوب کرتے ہیں، آخر ہمارے ڈرائور نے کہا کہ بھائی دیکھیے اب مَیں بہت تھک گیا ہوں، بصرہ ہم رہ نہیں سکتے، نجف پہنچ نہیں سکتے، راستے میں ایک شہر بطھہ آتا ہے، وہاں میری خالہ رہتی ہیں۔ وہیں رات گزارتے ہیں۔

چنانچہ ہم دو سو میل طے کر کے بطحہ آ گئے۔ ڈرائور کےر شتہ دار بہت مہمان نواز تھے، اُن کے تمام لڑکے بالے آ گئے اور مجھ سے ایسے باتیں کرنے لگے جیسے مدتوں کے شناور ہوں۔ اگر بچہ تو کہنے لگا، اگر پاکستان سے کلاشنکوفیں منگوانی ہوں تو کتنے میں ایک دانہ پڑے گا؟ مَیں نے بتایا بھائی آپ کے پاس درود ہے اِسی سے کام نکالو، بارود اُدھر پاکستان میں ہی رہنے دیں۔ وہاں ہمارے پٹھان بھائی آپ کی جگہ خوب لیے بیٹھے ہیں۔ خیر رات گپ شپ میں بہت دیر تک بیٹھے رہے۔ اور صبح وہاں سے ناشتہ کر کے نکل لیے۔ آپ ہی بتایے جن کے ناشتے کے ساتھ زیتون، کجھور کا ملیدہ اور پیاز مسلسل کھایا جائے گا اُن کا ایک بیوی پر گزارہ کیسے ہو گا۔

Check Also

Ramzan Mein Chori

By Sadiq Anwar Mian